بچوں کا لنچ باکس: کیا اور کیسے تیار کریں؟

وقار احمد شیخ  بدھ 15 جون 2022
بچوں کی غذا میں پروٹین، منرلز اور وٹامنز کا صحیح توازن میں ہونا ضروری ہے۔ (فوٹو: فائل)

بچوں کی غذا میں پروٹین، منرلز اور وٹامنز کا صحیح توازن میں ہونا ضروری ہے۔ (فوٹو: فائل)

مہنگائی نے ہر طبقہ کو ہی بری طرح متاثر کیا ہے۔ ایک متوسط گھرانے کےلیے گھر کا بجٹ بنانا مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ کچن کے اخراجات ہی نہیں سنبھل رہے تو بچوں کو اسکول بھیجتے ہوئے لنچ باکس کی تیاری کیسے ممکن ہے؟

اکثر گھرانوں میں تو بچوں کے لنچ باکس کی جھنجھٹ سے ہی چھٹکارا حاصل کرلیا گیا ہے۔ بس بچوں کو جیب خرچ کے نام پر کچھ رقم دے دی تاکہ وہ لنچ میں اسکول کی کینٹین سے ہی کچھ لے کر کھا لیا کریں۔ اس عمل کے پیچھے کچھ بچت اور زیادہ تر سستی اور کاہلی بھی کارفرما ہوتی ہے کہ اب صبح صبح اٹھ کر بچوں کے لنچ باکس تیار کرنے کی زحمت کیا کی جائے۔ لیکن اس طرح پیسے دے دینے سے بچہ اسکول میں کیا کھا رہا ہے اور وہ بچے کے لیے صحت مند ہے یا مضر صحت، اس کا خیال نہیں رکھا جاتا۔

اکثر اسکول کینٹین میں وہی روایتی بچوں کی چیزیں ہوتی ہیں جیسے سستے پاپڑ، بسکٹ، ٹافیاں وغیرہ۔ اور کچھ کینٹینز میں اسپرنگ رول، سموسے، سینڈوچ اور پیٹیز وغیرہ بھی دستیاب ہوتے ہیں۔ لیکن بات وہیں معیار پر آکر رک جاتی ہے۔ کیا بچوں کےلیے گھر کے قابل اعتماد صحت مند کھانے کا کچھ بدل ہوسکتا ہے؟

بڑھتی عمر میں بچوں کی غذا اور غذائیت کا خیال رکھنا ازحد ضروری ہے۔ بچوں کی صحت کے لیے کیا ضروری ہے اور کن چیزوں سے پرہیز کرایا جانا چاہیے، اس بات کا خیال بھی لازمی رکھنا چاہیے۔ آج کل بچوں میں ناک، کان، حلق اور وائرل بخار کی شکایات عام ہیں۔ لیکن جب تجزیہ کیا جائے تو علم ہوتا ہے کہ اکثر بیماریوں کے پیچھے بے احتیاطی اور معدے کے مسائل کارفرما ہوتے ہیں۔ گھر سے باہر کی چیزیں، خاص کر پاپڑ، ٹافیاں اور مسالے دار غذائیں بچوں کو بیمار کررہی ہیں۔ ایسے میں بچوں کے لنچ باکس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔

لنچ باکس تیار کرکے نہ دینے پر پیرنٹس کو مکمل قصوروار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ آج کل کی مصروف زندگی میں والدین کو بھی کئی مجبوریوں کا سامنا ہوتا ہے، اگر ماں باپ دونوں ملازمت پیشہ ہوں تو مشکل دوچند ہوجاتی ہے۔ ہم یہاں کسی بھی پیرنٹ کو قصوروار قرار دیئے بغیر صرف بچوں کے لیے صحت مند کھانے اور خاص کر لنچ باکس کی اہمیت پر بات کرتے ہیں۔ بچوں کو جیب خرچ دے کر اپنی جاں خلاصی نہیں کرائی جاسکتی۔ بچوں کو جس قدر بھی ہدایت یا حکم دیا جائے کہ کینٹین سے یہ لے کر کھانا ہے، وہ نہیں کھانا۔ لیکن بچے اپنے موڈ کے حساب سے ہی چلتے ہیں۔ اس لیے کوشش کی جانی چاہیے کہ انھیں گھر سے ہی لنچ باکس تیار کرکے دیا جائے۔ اس سلسلے میں ہم اپنا تجربہ بیان کرتے ہیں کہ کس طرح ہم اپنے بچوں کا لنچ باکس تیار کرتے ہیں۔

ابتدا میں ہی مہنگائی کا تذکرہ کیا تھا۔ اکثر پیرنٹس یہی عذر تراشتے ہیں کہ روز روز لنچ باکس تیار کرنا مہنگا پڑتا ہے، جبکہ بچوں کو بیس تیس روپے دے کر کام ہوجاتا ہے۔ چلیے ہم ایک چھوٹا کا میزانیہ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ آج کل بچوں کو دس بیس روپے جیب خرچ دینے کا رواج تو بالکل بھی نہیں رہا کیونکہ دس روپے میں تو صرف ایک پاپڑ ہی آتا ہے، اور اگر بسکٹ کا پیکٹ لیا جائے تو وہ بھی بیس روپے سے اوپر کا ہوگیا ہے۔ فرض کرلیجئے ایک بچے کا جیب خرچ پچاس روپے ہے اور اگر آپ کے تین بچے بھی اسکول میں پڑھ رہے ہیں تو یوں روزانہ کے ڈیڑھ سو روپیہ تو آپ بچوں کو جیب خرچ کے نام پر ہی دے رہے ہیں، یعنی ماہانہ ساڑھے چار ہزار روپے۔ اگر ان ہی ساڑھے چار ہزار روپے سے راشن میں اس طرح کی اشیا شامل کرلی جائیں جن سے بچوں کا لنچ باکس بھی تیار ہوجائے تو کیا مضائقہ ہے۔ بچے بھی خوش اور آپ بھی ان کی صحت کی طرف سے مطمئن۔

بچوں کو روز روز ایک ہی چیز بھی بنا کر نہیں دے سکتے۔ آخر بچے کب تک دو منٹ والی ’’میگی‘‘ پر گزارا کرسکتے ہیں۔ میرے تین بچے ہیں اور ہم نے ہر دو ہفتے کا ایک مینو تیار کر رکھا ہے۔ بچوں کا اسکول ہفتہ میں چھ دن ہوتا ہے جس میں جمعہ کے ہاف ڈے کو ہٹا کر پانچ دن لنچ باکس دیتے ہیں، یعنی دو ہفتوں میں دس مختلف ڈشز۔ اب یہ ڈشز کیا ہوسکتی ہیں؟ اگر میں آپ کو بتاؤں کہ ان ڈشز میں میرے بچوں کے تمام ہی پسندیدہ آئٹمز آجاتے ہیں تو شاید آپ کو یقین نہ آئے، جیسے پیزا، زنگر برگر، سینڈوچ، بروسٹ، ڈرم اسٹک، چاؤمین، بوٹی رول، کباب رول، شامی کباب بن، نگٹس، میکرونی/ نوڈلز وغیرہ۔ بظاہر ایسا ہی لگتا ہے کہ یہ سب آئٹمز بنانا بہت مہنگا پڑ سکتا ہے۔ میں بھی ایسا ہی سوچتا تھا لیکن جب خود سے یہ سب بنانا شروع کیا تو علم ہوا کہ گھر پر بنانے میں ان کی لاگت اتنی بھی زیادہ نہیں ہوتی، بس تھورا سا چیزوں کو سنبھالنے کی ضرورت ہے۔ پیرنٹس یہ بھی کہیں گے کہ صبح صبح اٹھ کر ان سب چیزوں کی تیاری میں بہت وقت لگے گا، اور صبح میں اتنا ٹائم نہیں ہوتا۔ لیکن اگر آپ ٹائم مینجمنٹ سے کام لیں تو اس مسئلے کا حل بھی نکل سکتا ہے۔ میں آپ کو اپنا تجربہ بتاتا ہوں۔

سب سے پہلے ہم بجٹ کی بات کرتے ہیں۔ ان ڈشز کے بہت سے آئٹمز مشترکہ ہیں، جن پر ایک بار ہی خرچہ ہونا ہے۔ جیسے کیچپ، مایونیز، چیز اور مصالحہ جات وغیرہ۔ چیز آپ کو بہت زیادہ خریدنے کی ضرورت نہیں۔ ایک ایک پاؤ چیڈر چیز اور موزریلا چیز تین ماہ کےلیے کافی ہوں گی، اسی طرح کیچپ اور مایونیز کے بھی ایک کلو والے پیک یا اپنی سہولت کے حساب سے لیے جاسکتے ہیں۔ ایک اور مشترکہ آئٹم چکن ہے۔ ایک ہفتہ کی چکن آپ ایک ساتھ لے سکتے ہیں۔ چکن لیتے ہوئے دکان والے سے زنگر کےلیے پیسز بنوا لیں، رانیں الگ کرلیں تاکہ ڈرم اسٹک بنائی جاسکے، سینے کا گوشت آپ خود بون لیس کرسکتے ہیں۔ چکن لینے کے بعد ہر ڈش کے لیے پیسز کو الگ الگ کرکے محفوظ کرلیں۔

یہ تو ہوگیا کہ بجٹ کیسے بنائیں، اب آتے ہیں وقت کو کس طرح استعمال کرنا ہے۔ صبح صبح اٹھ کر واقعی ان سب چیزوں کی تیاری میں وقت لگ سکتا ہے، اس لیے آدھا کام پہلے سے ہی کرکے رکھ لیجئے۔ کس طرح؟ آپ چکن کی بوٹیوں کو میرینیٹ کرکے پہلے سے رکھ سکتے ہیں۔ اگر آپ کے بچے بھی میرے بچوں کی طرح تکہ بوٹی پسند کرتے ہیں تو بوٹیوں کو ایک ساتھ تکہ مصالحہ لگا کر میرینیٹ کریں اور فرائی کرکے فریز کرلیں۔ یہ بوٹیاں آپ پیزا کی ٹاپنگ، بوٹی رول اور نوڈلز وغیرہ میں استعمال کرسکتے ہیں۔ پاستہ بھی رات کے وقت ابال کر رکھ لیں اور صبح میں صرف مصالحہ تیار کرکے مکس کرلیں۔ اسی طرح زنگر برگر کی پیٹی، ڈرم اسٹک، نگٹس اور شامی کباب بھی پہلے سے تیار کرکے فریز کیے جاسکتے ہیں، اور صبح میں فائنل تیاری کرلیا کیجئے۔ اس طرح آپ کے کم وقت کا مسئلہ بخوبی حل ہوجائے گا۔

سب سے اہم بات، بچوں کے کھانے کے مینو میں توازن ضروری ہے۔ روز روز کیچپ، مایونیز، چیز وغیرہ کھانا بھی صحت مندانہ عمل نہیں ہے۔ اس لیے مینو کو معتدل رکھیں۔ بچوں کو لنچ باکس میں موسم کے مطابق پھل بھی دینے چاہئیں۔ بچوں کی غذا میں پروٹین، منرلز اور وٹامنز کا صحیح توازن میں ہونا ضروری ہے۔

آج کل کے بچے صبح صبح اٹھ کر ناشتہ کرنے میں بہت نخرے کرتے ہیں۔ ایسے میں اگر انھیں آپ ایک صحت مند لنچ باکس تیار کرکے دیں گے تو نہ صرف یہ مسئلہ حل ہوجائے گا بلکہ آپ بھی مطمئن رہیں گے کہ بچے اسکول میں بھوکے نہیں ہوں گے۔ اور پھر اپنی پسند کی چیزیں لنچ باکس میں پاکر بچوں کو جو خوشی حاصل ہوتی ہے وہ آپ کو بھی آسودہ کردے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

وقار احمد شیخ

وقار احمد شیخ

بلاگر جامعہ کراچی سے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز اور گزشتہ بیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ کالم نگاری کے علاوہ کہانیوں کی صنف میں بھی طبع آزمائی کرتے رہے ہیں۔ اپنے قلمی نام ’’شایان تمثیل‘‘ سے الگ پہچان رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔