آرمی چیف کا دورہ چین

مزمل سہروردی  جمعرات 16 جون 2022
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

آرمی چیف کا حالیہ دورہ چین دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو دوبارہ ٹریک پر لانے کے لیے اہم سنگ میل ثابت ہوا ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورہ چین کی وجہ سے چین نے پاکستان کے پاس دو ارب تیس کر وڑ ڈالر دوبارہ جمع کرانے کا اعلان کر دیا ہے۔

یہ پاکستان کی معیشت کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ایسے موقع پر جب پاکستان معاشی بحران کا شکار ہے، آئی ایم ایف سے دوبارہ معاملات طے کرنے میں بھی مشکلات پیش آرہی ہیں، ایسے میں چین کی جانب سے دو ارب ڈالر سے زائد رقم نہایت آسان شرائط پر پاکستان میں رکھوانے کا اعلان خوش آئند ہے۔ پاک فوج کے سربراہ کو چین میں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اسی لیے وہ جب بھی پاکستان کے لیے مدد لینے چین گئے ہیں، چین نے انکار نہیںکیا ہے۔

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ چین نے یہ دو ارب ڈالر عمران خان کے دور میں واپس لے لیے تھے، اور عمران خان دور میں جب دیے بھی تھے تو نہایت بلند شرح سود پر دیے تھے۔ لیکن آج چین نے نہ صرف دو ارب ڈالر واپس پاکستان کے پاس رکھوا دیے ہیں بلکہ شرائط بھی آسان کر دی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ آرمی چیف کے دورہ چین نے پاک چین تعلقات میں دوبارہ گرمجوشی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

انھوں نے ماضی کی حکومت کی جانب سے خراب کیے گئے تعلقات کو ٹھیک کیاہے۔ لیکن شاید عمران خان اور ان کی سوشل میڈیا ٹیم اس سے خو ش نہیں ہے، اسی لیے جہاں چین سے مثبت خبریں آرہی ہیں، وہاں سوشل میڈیا پر ایسا ماحول بنایا جا رہا ہے کہ جیسے پاک چین تعلقات میں کوئی سر دمہری آگئی ہے۔ کوئی ان کو سمجھائے کہ سرد مہری تب تھی جب چین نے عمران خان کے دور حکومت میں پیسے واپس لے لیے تھے ، اب جب دوبارہ واپس آئے ہیں تو کیسی سرد مہری ، اب تو گرمجوشی نظر آرہی ہے۔

چین نے پاکستان سے دو ارب ڈ الر کی واپسی کو بھی موخر کر دیا ہے جس سے پاکستان کو بڑا ریلیف مل گیا ہے۔ ورنہ جب عمران خان سرمائی اولمپک میں چین گئے تھے تو وہ چینی کمپنیوں کی ادائیگی کر کے چین گئے تھے، اس کے بعد بھی چین نے ان کی حکومت سے کوئی نئے معاہدے نہیں کیے اور وہ خالی ہاتھ ہی واپس آئے تھے۔ بڑی مشکل سے ایک فوٹو ہی بن سکی تھی۔ لیکن آرمی چیف کے موجودہ دورہ چین میں چین نے واجب الادا دو ارب ڈالر بھی موخر کر دیے ہیں۔

میں سوچتا یہ عمران خان کے خلاف کیسی امریکی ساز ش تھی کہ ان کی حکومت کی پالیسی سے ناراض چین تھا۔ یہ کیسی امریکی سازش تھی کہ چین اپنے پیسے واپس مانگ رہا ہے اور یہ کیسی نئی امریکی حمایت یافتہ حکومت آئی ہے جس میں تعلقات چین سے بہتر ہو رہے ہیں۔ چین سے ناراضگیاں دور ہو رہی ہیں۔ چین دوبارہ پاکستان کی مدد کو تیار ہو رہا ہے۔ بہر حال آرمی چیف کے دورہ چین کے دوران پاک چین تعلقات دوبارہ اپنی بہترین پوزیشن میں آگئے ہیں۔

لیکن یہ ایسے ہی ممکن نہیں ہوا۔ چین جانے سے پہلے آرمی چیف اور وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے سی پیک کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے گوادر کا بھی دورہ کیا۔ سی پیک منصوبوں میں کام کرنے والے چینیوں کی سیکیورٹی کے لیے پاک فوج نے خصوصی اقدمات کیے ہیں۔ جس سے چین کا پاکستان کے بارے میں اعتماد بحال ہوا ہے۔ حالانکہ موجودہ دور میں کراچی میں چینی باشندوں پر دہشت گردی کا حملہ ہوا ہے۔ لیکن پھر بھی چین نے پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر کیے ہیں۔

پاکستان اور چین کے درمیان اسٹریٹجک تعلقات کی کہانی نئی نہیں ہے۔ پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے میں چین کا اہم کردار ہے۔ پاکستان نے اپنی دفاعی ضروریات کے لیے چین پر انحصار بڑھا دیا ہوا ہے جس کا پاکستان کو فائدہ بھی ہوا ہے۔ آرمی چیف کے حالیہ دورہ چین میں ان اسٹریٹجک تعلقات کو مزید بہتر بنانے میں بہت مدد ملی ہے۔ جس کے نتائج پاکستان کے دفاع کے لیے مثبت ہوںگے۔ آرمی چیف کے دورہ چین کے دورہ دونوں ممالک کی اپیکس کمیٹی کا بھی مشترکہ اجلا س ہوا جس میں دونوں ممالک کو دفاعی تناظر میں درپیش عالمی چیلنجز کا جائزہ لیا گیا۔ مل کر ان چیلنجز سے نبٹنے پر بھی تفصیلی غور ہوا۔ اور آیندہ مشترکہ حکمت عملی بنانے پر بھی بات ہوئی۔

چین کی جانب سے پاکستان کے ساتھ ہر سطح پر تعاون بڑھانے کا اعلان یقینا اس سارے بیانیہ کی بھی نفی ہے کہ امریکا سازش کر کے پاکستان میں کوئی نئی حکومت لے کر آیا ہے۔ ویسے تو ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے گزشتہ روز ایک انٹرویو میں پھر واضح کیا ہے کہ پاکستان میں کوئی امریکی ساز ش نہیں ہوئی ہے۔ اس حوالے سے تمام بیانیہ جھوٹ پر مبنی ہے۔ انھوں نے واضح کیا ہے کہ نیشنل سیکیورٹی کے اجلاس میں پاکستان کی عسکری قیادت اور حساس اداروں کے سربراہان نے واضح کر دیا تھا کہ پاکستان میں حکومت بدلنے کی کوئی بیرونی سازش نہیں ہو رہی ہے۔ انھوں نے واضح کیا ہے کہ پہلی میٹنگ جو عمران خان کی وزارت عظمیٰ میں ہوئی تھی اس میں ہی واضح کر دیا تھا۔

اس کے باوجود سازش کا ایک بیانیہ بنایا گیا حالانکہ میں سمجھتا ہوں کہ اس بیانیہ کا پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے۔ ہمیں اپنی سیاست کے لیے ملکی مفاد کو داؤ پر نہیں لگانا چاہیے۔ ملکی مفاد ذاتی سیاست اور اقتدار سے بالاتر ہونا چاہیے۔ اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ ایسے تمام سیاستدانوں کو جو پاک فوج اور قومی سلامتی کے داروں کے خود ساختہ ترجمان بنے ہوئے ہیں، ان کے ساتھ سختی سے پیش آنے کی ضرورت ہے۔

اپنی ذاتی سیاست کو چمکانے کے لیے جو سیاستدان از خود پاک فوج کے ترجمان بن جاتے ہیں، وہ الٹے سیدھے بیانات جاری کرکے درحقیقت پاک فوج سے محبت یا دوستی کا مظاہرہ نہیں کر رہے بلکہ دشمنی کر رہے ہیں۔ پاک فوج کے پاس اپنا ترجمان موجود ہے اس لیے انھیں کسی سیاسی اور کسی نیم سیاسی ترجمان کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ وہ جب کوئی بات کرنا چاہیں اور جب کوئی وضاحت کرنا چاہیں، اس کے لیے ان کے پاس مناسب پلیٹ فارم موجود ہے۔ اس لیے وہ اپنی ترجمانی اپنے پاس ہی رکھیں۔

ویسے بھی اقتدار سے نکلنے کے بعد عمران خان اور ان کی سوشل میڈیا ٹیم نے پاکستان کے قومی سلامتی کے اداروں اور عسکری قیادت کے خلاف جس طرح کی منفی مہم چلائی ہے ۔ اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت کہ قومی سلامتی کے اداروں نے بہت تحمل کا مظاہرہ کیا ہے اور کسی بھی موقع پر صبر کا دامن نہیں چھوڑا۔ انھوں نے اپنے دفاع میں قانون کا راستہ ہی اپنایا ہے۔چاہے انھیں قانون سے انصاف نہیں ملا ہے۔

آرمی چیف کے دورہ چین اور پاک فوج کے ترجمان کی دوبارہ وضاحت نے اس بات کا اعادہ کر دیا ہے کہ نہ تو پاک فوج اور نہ ہی اس کی قیادت کسی دباؤ میں ہے۔ وہ اپنا کام کر ہے ہیں اورکسی دباؤ کو خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ باقی آپ سب زیادہ سمجھدار ہیں، کہانی لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔