سیاست سے کنارہ کشی، مگر کیوں!

نگہت فرمان  جمعـء 17 جون 2022

سیاست کے معنی و مفہوم ملک کے نظم و نسق کو بہ حسن و خوبی چلانے کی تدابیر و انتظام کرنے کے ہیں۔ اسلام نے اپنے پیروکاروں کو مکمل دین اسلام پر چلنے کا حکم صادر کیا ہے۔ اس طرح سیاست کوئی غیر اسلامی نہیں ہے بلکہ عین اسلام ہے، اگر سیاست کو اسلام کے تابع رکھ کرکیا جائے۔ ہمارے لیے اسوہ رسول کریمؐ ہی فلاح و نجات کا منبع ہے۔

اسلام کی آمد سے پہلے عرب نا صرف اخلاقی اعتبار بلکہ سیاسی اعتبار سے بھی نہایت پست حال تھے۔ معروف تاریخ دان ابن خلدون نے تو انھیں ایک نہایت غیر سیاسی قوم قرار دیا ہے۔ اہل عرب اسلام سے پہلے قبائل اورگروہوں میں بٹے رہے۔

وہ جنگجو ، منتشر ، اجڈ وگنوار ہی نہیں ایک دوجے کے خون کے پیاسے تھے۔ اتحاد ، تنظیم ، شعور ، قومی وقار ، اخلاقیات سیاسی زندگی کی اساس ہوتی ہیں جن سے وہ یکسر ناآشنا تھے اور ایسے سماج میں ’’ اْتر کر حرا سے سوئے قوم آیا اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا۔‘‘ رسول کریم ؐ نے تئیس برس کی مختصر مدت میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اپنے افکار کو اپنے عمل میں ڈھال کر ان کے سامنے پیش کیا اور انھیں ایک متحد و منظم قوم میں بدل دیا ، پھر یہ قوم پوری انسانیت کے لیے ایک مثال بن گئی۔

دور حاضر کی بے اصول سیاست نے انتخابات اور عوامی رائے جسے ووٹ کہا جاتا ہے کو اتنا بے توقیر کردیا ہے کہ سیاست مکر و فریب، جھوٹ، غبن، اقربا پروری، ذاتی مالی مفاد ، بے حسی و خود غرضی کا شاہکار عظیم بن چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کی اکثریت سیاست جیسے گورکھ دھندے میں پڑنے کو اپنے لیے حرام سمجھنے لگی ہے، اور وہ موجودہ سیاست کو ایسا سمجھنے میں حق بجانب بھی ہے۔ اسی لیے عوام کی اکثریت اسے دین اسلام سے جدا سمجھتی ہے ، لیکن یہاں ہمیں اسلام کی تعلیمات کا بہ غور مطالعہ کرنا چاہیے کہ کیا ہمارا طرز عمل درست ہے ؟

موجودہ دور کی سیاست بلاشبہ مفاد پرستوں کے ہاتھوں گندگی کا جوہڑ بن چکی ہے، لیکن جب تک کچھ با اصول اسلام پسند افراد اسے پاک کرنے کے لیے آگے نہیں بڑھیں گے ، اس گندگی میں اضافہ ہی ہوتا چلا جائے گا۔ اس لیے یہ اب ایک اسلامی تقاضا اور جہاد بھی ہے کہ سیاست کو ان مفاد پرست گروہوں سے چھیننے کی جدوجہد کی جائے جو مسلسل اسے گندا کر رہے ہیں۔

ایک کثیر تعداد ہمارے ہاں ان افراد کی ہے جو سیاست پر بات کرنا بھی پسند نہیں کرتے۔ ان کے خیال میں سیاست کا مطلب ڈھٹائی ، بے حسی ، خودغرضی اور جھوٹ ہے جب لوگ اس طرح کے تجزیہ کرتے ہیں تو یہ سوچنے پر ہم حق بہ جانب ہیں کہ وہ تصویر کا ایک رخ ہی دیکھ سکے ہیں۔ پاکستان میں کچھ عرصہ پہلے تک سیاست دانوں میں روا داری پائی جاتی تھی۔ اس حوالے سے پروفیسر عبد الغفور احمد اور این ڈی خان کا واقعہ مشہور ہے۔

جب پروفیسر عبد الغفور کو اپنے ذرایع سے پتا چلا کہ این ڈی خان پیپلز پارٹی چھوڑنے والے ہیں تو انھوں نے این ڈی خان کو ملاقات کا کہا۔ این ڈی خان خود اکیڈمی پہنچ گئے۔ جہاں پروفیسر عبدالغفور بیٹھتے تھے، نے ان سے کہا کہ ’’ سنا ہے کہ تم پارٹی چھوڑ رہے ہو؟‘‘ این ڈی خان نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا تذکرہ کیا۔ پروفیسر عبدالغفور نے انھیں مشورہ دیا کہ ’’ دیکھو تمہاری پیپلز پارٹی کے لیے قربانیاں ہیں۔

تم اس عمر میں پارٹی چھوڑو گے تو تنہائی کا شکار ہو جاؤ گے۔ کسی اور پارٹی میں مقام ملنا بھی مشکل ہوگا۔ اس لیے پیپلز پارٹی میں ہی رہ کر اپنی بات کہتے رہو، کوئی نا کوئی حل نکل جائے گا۔ یہ واقعہ این ڈی خان نے پروفیسر عبدالغفور کے انتقال پر خود سنایا تھا۔ پھر ایک تقریب میں بے نظیر بھٹو خود پروفیسر عبدالغفور کی ٹیبل پر ان سے ملنے گئیں تو انھوں نے این ڈی خان کے بارے میں کہا کہ ’’ خان صاحب ہمیشہ تمہارے والد کے ساتھ سخت مشکلات میں کھڑے رہے۔

اب پارٹی کو نہیں خان صاحب کو آپ کی توجہ کی ضرورت ہے۔‘‘ بے نظیر بھٹو نے کہا کہ ’’میں کل ہی خان صاحب سے ملوں گی۔ ان کو آیندہ کوئی شکایت نہیں ہوگی۔‘‘ یہ تھے ماضی کے وضع دار سیاست دان۔ سیاست تو عوام کو شعور دیتی ہے۔

اختلاف تو جمہوریت کا حسن اور ایک صحت مندانہ رویہ ہے اگر اس میں وزن و دلیل ہو۔ بحث و مباحثہ کے بعد ایک مثبت نتیجہ بھی سامنے آتا ہے۔ اختلاف کرتے ہوئے اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دینا ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا ، طنز آمیز گفتگو و جملے کسنا غلط اور مزید دوریوں کا سبب ہے جس کی اسلام میں بھی گنجائش نہیں۔ مثبت اختلاف کو تو دین میں باعث رحمت کہا گیا ہے۔

عدم برداشت کا یہ رویہ حالات سے زیادہ حکمرانوں سے عوام میں منتقل ہو رہا ہے ، جب حاکم و رہنما اپنی زبان پر قابو نہیں رکھیں گے عوام کو مزید اکسائیں گے، ہتک آمیز رویہ اپنائیں گے تو ملک کے عوام ٹکڑوں میں تقسیم ہوں گے ، لیکن یہ مت بھولیں ان ہی سیاست دانوں میں کچھ تو ایسے بھی ہیں جنھوں نے کبھی اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ شائستہ گفتگو کی، کبھی طنز کو اپنا شعار نہیں بنایا تو ہم عوام الناس میں مایوسی پھیلانے کے بجائے ان میں کیوں نہ اپنے لیے روشنی و امید تلاش کریں۔ اخلاق و کردار کسی بھی معاشرے کے بگاڑ میں سب سے بنیادی دخل اس معاشرے کی اخلاقی اقدار کا ہوتا ہے ، اگر اخلاق گرگیا تو معاشرہ بھی گرے گا اور اگر اخلاق اعلیٰ اور بلند ہوگا تو معاشرہ بھی صاف ستھرا ، پْر امن اور پْر سکون ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔