فلم اسٹار اکمل خان کی یاد میں

ایم اسلم کھوکھر  جمعـء 17 جون 2022

بارہ بہن بھائیوں میں آٹھویں نمبر پر پیدا ہوئے اور اپنی عملی زندگی کا آغاز فلم انڈسٹری میں بہ طور میک اپ بوائے کی حیثیت سے کیا مگر غربت کے باعث فقط آٹھ جماعت تک تعلیم حاصل کرنے والے اس نوجوان کا خواب تھا فلمی ہیرو بننے کا کیونکہ وہ نوجوان اپنے بھائی کی شخصیت سے بے حد متاثر تھا اور بڑا بھائی متحدہ بھارت و تقسیم کے بعد پاکستان کی فلم انڈسٹری کا نامور ترین ستارہ تھا ، یعنی اداکار اجمل خان اور ہم تذکرہ کر رہے ہیں۔

اداکار اجمل خان کے چھوٹے بھائی آصف خان المعروف اکمل خان کا جنھوں نے 11 نومبر 1929 کو لاہور میں جنم لیا، نوجوانی میں اکمل خان کو کبوتر بازی و پتنگ بازی کا بھی بے حد شوق تھا۔ طویل قامت و خوبصورت آنکھوں والے اداکار اکمل خان کی اولین فلم تھی ’’محبوبہ۔‘‘ اس فلم میں انھوں نے بہ طور ایکسٹرا کام کیا تھا۔ یہ ذکر خیر ہے 1953 کا جب کہ ان کی دوسری فلم تھی ’’ گمنام۔ ‘‘ اس فلم میں انھوں نے ایک جج کا کردار ادا کیا تھا۔

’’ گمنام ‘‘ 1954 میں نمائش پذیر ہوئی اورکامیاب ترین فلموں میں شمار ہوئی جب کہ اسی برس ایک اور یادگار فلم ’’ قاتل‘‘ بھی سینماؤں کی زینت بنی اور کامیاب ترین فلم قرار پائی جب کہ اس فلم میں اکمل خان نے ایک بوڑھے آدمی کا کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم میں وہ بہ حیثیت مہمان اداکار پیش ہوئے تھے جب کہ 1953 میں بھی بہ طور مہمان اداکار فلم ’’طوفان‘‘ میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔

اگرچہ 1956 میں ایک پنجابی فلم ’’ دلا بھٹی‘‘ میں فقط ایک سین میں اداکاری کی اور اپنے فن کے نقوش چھوڑ گئے۔ البتہ اس برس قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہو چکی تھی کیونکہ اسی سال اکمل خان کی بہ طور سولو ہیرو فلم ’’ جبرو ‘‘ ریلیز ہوئی اور اس فلم نے لاہور میں سلور جوبلی منائی۔ اس فلم کی تیاری کے دوران بڑے دلچسپ واقعات پیش آئے۔ اس فلم کے فلم ساز فقیر صلاح الدین محدود سرمائے کے ساتھ فلم بنانے کے عزم کے ساتھ فلم انڈسٹری میں داخل ہوئے۔

ان کے پاس سرمایہ اس قدر قلیل تھا کہ وہ فلمی اسٹوڈیو کے اخراجات بھی برداشت کرنے سے قاصر تھے۔ ان تمام حالات میں انھوں نے حریت رہنما جبرو کی حیات پر فلم بنانے کا عزم کیا اور اس فلم میں مرکزی کردار کے لیے اکمل خان کو منتخب کیا۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ کوئی بڑی اداکارہ اکمل خان کے مدمقابل کام کرنے کے لیے رضامند نہ تھی۔ عذر یہ پیش کیا گیا کہ وہ ایک مزدور آدمی ہے، فلموں کی تیاری کے دوران مال برداری کا کام بھی کرتا رہا ہے ۔

البتہ یاسمین نے اکمل خان کے ساتھ فلم ’’جبرو‘‘ میں کام کرنے کے لیے رضامندی ظاہر کی، زیادہ اخراجات سے بچنے کے لیے اس فلم کی تمام تر عکس بندی گمبٹ میں کرنے کا فیصلہ کیا گیا کیونکہ فقیر صلاح الدین کا تعلق گمبٹ سے تھا۔ ہدایت کار مظفر طاہر اس فلم کو شوٹ کرتے رہے گوکہ اس فلم کی کامیابی کا کسی کو یقین نہ تھا البتہ 6 جولائی 1956 کو جب ’’جبرو‘‘ پیش ہوئی تو تمام تر اندازے غلط ثابت ہوئے اور اس فلم نے شاندار طریقے سے لاہور میں سلور جوبلی منائی یوں ایک میک اپ بوائے اکمل خان صف اول کے اداکاروں میں شمار ہونے لگا۔

اب کیفیت یہ تھی کہ مسرت نذیر اکمل خان کی اگلے برس پیش ہونے والی فلم ’’ ہستی ‘‘ کی ہیروئن تھی حالانکہ ’’جبرو‘‘ میں مسرت نذیر نے اکمل خان کے مدمقابل کام کرنے سے انکار کردیا تھا۔ فلم ’’ہستی‘‘ 21 مارچ 1957 کو ریلیز ہوئی، اگرچہ اکمل خان نے 13 اردو فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے جن میں چند ایک فلموں کا ذکر ہم نے سطور بالا میں کیا ہے جب کہ مزید اردو فلموں میں 1959 میں اکمل خان کی اردو فلمیں دو ریلیز ہوئیں عالم آرا، مظلوم، خیبر میل 1960 میں آواز دے کہاں ہے، 1962 میں بغاوت و ماں بیٹی 1963 میں بغاوت میں اکمل خان نے ولن کا کردار ادا کیا تھا جب کہ 1964 میں اکمل خان نے فلم ’’خاندان‘‘ میں ینگ ٹو اولڈ کردار ادا کیا تھا یہ بھی ایک کامیاب ملٹی کاسٹ فلم تھی جب کہ اسی برس ان کی آخری اردو فلم ’’واہ بھئی واہ‘‘ بھی ریلیز ہوئی۔

اب ہم ذکر کریں گے اکمل خان کی زندگی کی سب سے بڑی سدا بہار فلم ’’ملنگی‘‘ کا۔ اس فلم کے فلم ساز چوہدری محمد اسلم اکمل خان کے بہت گہرے دوست تھے لیکن جب چوہدری محمد اسلم نے ’’ملنگی‘‘ بنانے کا منصوبہ تیار کیا تو اکمل خان اور ان کے درمیان رنجش پیدا ہوچکی تھی۔

چنانچہ چوہدری محمد اسلم نے مرکزی کردار کے لیے اسد بخاری کو کاسٹ کرلیا۔ اس فلم کا موضوع بڑا اہم تھا، اسی وجہ سے اکمل خان چوہدری محمد اسلم کی والدہ کے پاس گئے اور ان سے شکایت کی’’ اماں جی اسلم مجھے اپنی فلم میں نہیں لے رہا۔ ‘‘ البتہ چوہدری محمد اسلم کی والدہ نے اکمل خان کو یقین دلایا فکر نہ کرو، فلم ’’ملنگی‘‘ کا مرکزی کردار تم ہی کرو گے۔ یوں وہ ’’ملنگی‘‘ کے مرکزی کردار کے لیے منتخب ہوگئے۔ یہ فلم 1965 میں سینماؤں کی زینت بنی۔ یہ ایک سدابہار فلم ہے۔ فلم ’’ملنگی‘‘ جب بھی ریلیز ہوتی ہے نئی فلموں جیسا بزنس کرتی ہے۔

اس فلم نے لاہور سرکٹ میں گولڈن جوبلی منانے کا اعزاز حاصل کیا۔ اسی برس اکمل خان کی ایک اور قابل ذکر فلم ’’ہیر سیال‘‘ ریلیز ہوئی، مگر اس فلم کے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ جیسے ہی یہ فلم ریلیز ہوئی بھارت و پاکستان کے درمیان جنگ کا آغاز ہو گیا، تمام سینما گھر بند کردیے گئے۔ جب سینما دوبارہ کھلے تو ’’ہیر سیال‘‘ فلم ڈبوں میں بند ہو چکی تھی۔ یوں اس فلم کی کامیابی یا ناکامی کا تعین نہ ہو سکا۔ اکمل خان نے قریب قریب ستر کے قریب فلموں میں اداکاری کی۔ اکمل خان کی واحد رنگین فلم ’’پنج دریا‘‘ تھی جب کہ 28 فلموں میں ایک ساتھ نظر آئے۔

اکمل خان پنجابی فلموں کے پہلے سپر اسٹار کہلائے۔ انھیں پاکستانی فلموں کا دلیپ کمار بھی کہا گیا۔ صد افسوس کہ 11 جون 1967 کو پاکستانی فلموں کا یہ ستارہ اچانک ڈوب گیا۔ ان کی وفات کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کی گئیں مگر ہم اتنا ہی عرض کریں گے کہ اکمل خان اپنے لاکھوں پرستاروں کو چھوڑ کر مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں ابدی نیند جا سوئے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اکمل خان کے پرستار ہر سال ان کی برسی کے موقع پر مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں جمع ہو کر اپنے عظیم ہیرو کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔