میں، میں اور بس میں!!!

شیریں حیدر  اتوار 9 مارچ 2014
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’ یہ میری جگہ ہے، تم یہاں نہیں بیٹھ سکتے… ‘‘ چھ سالہ بچی کے منہ سے غصے سے الفاظ نکل رہے تھے، میں اپنے دفتر کی کھڑکی سے اس نظارے کو بغور دیکھ رہی تھی، دلچسپ بات یہ کہ باہر سے لوگ میرے دفتر کے اندر نہیں دیکھ سکتے۔

’’ مگر یہ جگہ تو اس وقت خالی تھی جب ہم یہاں بیٹھنے کے لیے آئے تھے… ‘‘ اسی عمر کے چار لڑکوں کے گروہ میں سے ایک لڑکے نے ذرا درشتی سے کہا… ’’ ہم یہیں بیٹھیں گے! ‘‘ انھوں نے وہیں ڈٹ کر بیٹھتے ہوئے کہا اور اپنے لنچ باکس کھول کر اس کی طرف سے نظریں پھیر لیں۔

’’ میں میڈم سے شکایت کرتی ہوں کہ تم لوگوں نے میری جگہ پر قبضہ کر لیا ہے… ‘‘ وہ تن کرکھڑی تھی اور تھوڑی سی دب گئی تھی، چار لڑکے تھے اور وہ ان سے لڑائی بھی نہ کر سکتی تھی، نہ ہی یہاں اس بات کی کسی کو اجازت ہے، بڑے سے بڑا معاملہ بھی صلح صفائی سے حل کیا جاتا ہے۔

’’ یہ جگہ تمہاری کیسے ہو گئی، کیا تم نے اسے خرید لیا ہے یا یہ تمہارے گھر کا حصہ ہے؟ ‘‘ ایک لڑکے نے اکڑ کر پوچھا… دوسرے اس کی تائید میں ہنسنے لگے۔

’’ تحریم… آپ اندر آئیں! ‘‘ میں نے کھڑکی کا شیشہ کھول کر اسے پکارا، اس نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا، ذرا مودب ہو گئی، ایک ترچھی نظر سے وہاں بیٹھے لڑکوں کو دیکھا اور مرے مرے قدموں سے میرے دفتر کی سیڑھیاں چڑھنے لگی۔

’’ بیٹھ جائیں پیاری بچی! ‘‘ میں اس کے آنے سے قبل اپنی مخصوص کرسی پر بیٹھ چکی تھی ’’ کیا بات ہے، آپ ٹھیک ہیں، لنچ کھا لیا آپ نے اپنا؟ ‘‘ میں نے اس سے سوالات کیے۔

’’ نو میڈم… ‘‘ اس نے مختصراً کہا، جس سے مجھے یہ اندازہ نہ ہوا کہ اس نے ’’ نو‘‘ میرے کس سوال کے جواب میں کہا تھا۔

’’ لنچ کیوں نہیں کھایا آپ نے؟ ‘‘ میں اس سے پوچھنا نہیں چاہتی تھی کہ وہ ٹھیک ہے کہ نہیں۔

’’ میری جگہ پر وہ سب بیٹھ گئے ہیں… ‘‘ کہتے ہوئے اس کی آنکھیں بھرا گئی تھیں۔

’’ تو آپ کسی اور جگہ پر بیٹھ جاؤ بیٹا… ‘‘ میں نے اس کی طرف دیکھنے سے اجتناب کیا، مبادا کہ وہ اور بھی زور شور سے رونے لگے، ’’ اتنی جگہ ہے، اتنے بنچ ہیں، اتنی اور سیڑھیاں ہیں… ‘‘

’’ مگر میں ہمیشہ انھی سیڑھیوں پر بیٹھتی ہوں ، کیونکہ مجھے یہاں بیٹھنا اچھا لگتا ہے… یہاں دھوپ بھی اچھی آتی ہے اور یہاں پر پھولوں کی خوشبو بھی ہوتی ہے ، سیڑھیوں پر بیٹھنے سے مجھے دوست دوڑتے بھاگتے نظر آتے ہیں، بس مجھے یہی جگہ پسند ہے اور کوئی اور میری جگہ لے لے، یہ مجھے بالکل پسند نہیں! ‘‘ اس نے اٹل لہجے میں کہا۔

’’ جو جگہ آپ کو پسند ہے، وہ دوسروں کو بھی تو پسند ہو گی نا، ان کا بھی تو دل چاہتا ہو گا کہ وہ اس جگہ پر بیٹھ کر اسی طرح لطف اندوز ہوں جیسے آپ ہوتی ہیں!!‘‘ میں نے رسان سے اسے سمجھایا۔

’’ مگر وہ میری جگہ ہے… ‘‘ اس نے ڈٹ کر کہا۔

’’ آپ کی جگہ کس طرح ہو گئی پیاری لڑکی؟ ‘‘ میں نے اس کے اکھڑ لہجے پر آنے والے غصے کو دبایا، ’’ کسی جگہ پر بیٹھ جانے سے تو جگہ ہماری نہیںہو جاتی… ‘‘

’’ میں کچھ نہیں جانتی، بس یہ جانتی ہوں کہ وہ جگہ میری ہے… اور اس پر کوئی اور قبضہ کر لے یہ بات مجھے قطعی پسند نہیں!!‘‘

’’ ہو سکتا ہے کہ دوسروں کو یہ بات پسند نہ ہو کہ اس جگہ پر آپ ہر روز بیٹھتی ہیں… ‘‘ میں نے تحمل کا دامن تھاما، ’’ وہ بھی تو کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے اس جگہ پر قبضہ جما رکھا ہے؟ ‘‘

’’ وہ جو بھی کہیں، مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا! ‘‘ اس نے کندھے اچکائے… اس وقت وہ مجھے کسی لینڈ مافیا کی رکن لگ رہی تھی، میں نے دل ہی دل میں اندازہ لگایا کہ اس کے خاندان کے ڈانڈے کہیں نہ کہیں سے ایسے کسی سلسلہ سے جا کر ملتے ہوں گے۔’’ اچھا تحریم اس کے بعد آپ اس جگہ پر نہیں بیٹھ سکتیں کیونکہ یہ جگہ میری ہے… دیکھیں نا، یہ میرے دفتر کے باہر ہے تو میری ہوئی نا؟ ‘‘ میں نے اسے ایک عجیب سی الجھن میں ڈال دیا تھا مگر بعض دفعہ ’’ علاج ‘‘ کی خاطر ایسا کرنا پڑتا ہے… میں نے اس دن کے بعد اسے کئی بار اس جگہ کے آس پاس منڈلاتے اور مختلف اوقات میں مختلف لوگوں کو بیٹھے ہوئے حسرت سے دیکھتے پایا، اس کی نظروں میں شکوہ بھی نظر آتا مگر میں اسے نظر انداز کرتی رہی۔ چند دن گزرے تو وہ بچوں کے ایک گروہ کے پاس آ کر کھڑی ہو گئی، جو کہ ان سیڑھیوں پر براجمان تھا۔

’’ کیا میں تم لوگوں کے ساتھ یہاں بیٹھ سکتی ہوں ؟ ‘‘ اس نے اتنی نرمی سے کہا کہ وہ لوگ جواب میں ناں نہیں کہہ سکے اور دائیں بائیں کھسک کر اس کے لیے جگہ بنائی اور وہ شکریہ کہہ کر ان کے ساتھ بیٹھ گئی۔ چند دن… صرف چند دن میں اس کے اندر تبدیلی واقع ہو گئی تھی، پہلے الگ تھلگ رہنے والی اور خود کو دوسروں سے ممتاز سمجھنے والی تحریم اب ان میںگھلنے ملنے کی کوشش کر رہی تھی۔ میں جانتی تھی کہ بچوں میں جذباتی ٹوٹ پھوٹ کا دورانیہ بڑا مختصر ہوتا ہے… ان کی تربیت ابتدائی سالوں میں اسی لیے اہم ہوتی ہے کہ جوں جوں وہ بڑے ہوتے جاتے ہیں ان میں ضد کا عنصر پختہ ہوتا جاتا ہے،اس عمر کے تقاضوں کو سمجھنا اور ان کی عادات کی نرمی کو موڑنا اس مقام پر ممکن اور آسان ہوتا ہے، کسی پودے کی نرم شاخ کی طرح جو ٹہنی بن کر مڑنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتی ہے اور ذرا سی زور آزمائی سے ٹوٹ سکتی ہے۔

میں اکثر نوجوانوں کو دیکھتی ہوں، وہ اپنے موبائل ٹیلی فونوں کے کیمروں کا رخ اپنی طرف کر کے اپنی ہی تصاویر کھینچ کھینچ کر انھیں مختلف زاویوں سے جانچتے ہیں، جو تصویر پسند نہیں آتی اسے ضایع کر دیتے ہیں اور جو سوئے اتفاق اچھی لگتی ہے اسے فوراً share کرتے ہیں… دوستوں کے ساتھ فون اور فیس بک پر۔ خود نمائی کا یہ رجحان نئی نسل کو ایک ایسی سمت لے کر جا رہا ہے جہاں انھیںاپنے سوا کچھ نظر نہیں آتا ۔

ان کی ساری گرامر، میں، میرا، مجھے اور میرے لیے پر ختم ہو جاتی ہے، ہم انھیں نہیں سکھاتے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لیے وہی پسند کرتا ہے جو وہ اپنے لیے پسند کرے… اسے دوسروں کے جذبات اور خواہشات کی بھی اتنی ہی قدر کرنا چاہیے جتنی وہ دوسروں سے توقع اپنے لیے کرتا ہے ، دوسروں کی خوشی کی خاطر قربانی دینا انسانیت کی معراج ہے ۔ اپنے لیے تو ہر کوئی جیتا اور جی کر چلا جاتا ہے، امر وہی ہوتا ہے جو اپنی خوشی پر دوسرے کی خوشی کو مقدم جانتا ہے… جو خود کھو کر دوسروں کو دیتا ہے اسے انسانیت اور دنیا یاد رکھتی ہے۔

اپنے لیے جینے والا تو خود غرض ہی کہلاتا ہے اور ایسے لوگ اس طرح اپنی زندگیاں گزار جاتے ہیں جیسے cocoon میں بند کیڑے… جن کی ساری کائنات ان کا اپنا کوکون ہی ہوتا ہے… اسی میں رہ کر وہ خوراک حاصل کرتے اور اسے excrete کرتے ہیں، اسی کوکون میں اس وقت تک زندہ رہتے ہیں جب تک کہ اس کا منہ بھی بند ہو جاتاہے اور ان کی سانس بھی مسدود ہو جاتی ہے… کوکون کے کیڑے کی زندگی کا تو طریقہ یہی ہے جو کہ قدرت نے مقرر کر رکھا ہے… مگر انسان اشرف المخلوقات ہے اور اسے اللہ نے دماغ، عقل، شعور اور صلاحیتیں دی ہیں… اسے اچھے برے کی تمیز سکھائی ہے تاکہ ایک معاشرتی نظام کا حصہ بن کر دوسروں کے ساتھ مل جل کر زندگی گزارے… اپنے بچوں کو سکھائیں اور خود آپ بھی اپنے کوکون سے نکلیں، آپ کیڑے نہیں … انسان ہیں، آپ کی زندگی کا مقصد اپنے لیے جی کر چلے جانا نہیں ہے بلکہ… اپنے مقصد کو تلاش کریں، اس پر عمل کریں اور دوسروں کے لیے فلاح کا باعث بنیں…

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔