اسٹیبلشمنٹ اور جمہوریت

مزمل سہروردی  بدھ 27 جولائی 2022
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

پاکستان میں ایک مضبوط اسٹبلشمنٹ کی ہم سب کو عادت ہو گئی ہے۔ اس لیے ہر مشکل میں ہم اسٹبلشمنٹ کی طرف دیکھتے ہیں۔ یہاں میں یہ واضح بھی کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان میں اسٹبلشمنٹ‘ مقتدر حلقے اور اس جیسی دیگر اصلاحات عسکری اداروں کے لیے ہی استعمال ہورہی ہیں اوراب بھی یہی صورت حال ہے۔

ایک عمومی تاثر ہے کہ ایسی اصطلا حا ت استعمال کرنے سے بات بالواسطہ ہو جاتی ہے حالانکہ میں سمجھتا ہوں کہ اب سب کو سمجھ ہے، یہ بات بھی پرانی ہو گئی ہے۔ قیام پاکستان کے ابتدائی برسوں میں سیاسی حلقے اور صحافی اسٹبلشمنٹ کے تین پہلو بیان کرتے تھے۔ ایک فوج ، دوسرا عدلیہ اور تیسرا سول بیوروکریسی۔ آہستہ آہستہ سول بیوروکریسی کی طاقت ہوتی گئی اور اسے اسٹبلمشنٹ کے چھوٹے پرزے کی حیثیت دی جانے لگی۔

حالانکہ قیام پاکستان کے بعد سول بیوروکریسی کو اسٹبلشمنٹ کا سب سے طاقتور حصہ سمجھا جاتا تھا۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ وہ بہت پہلے ہی ریاستی فیصلہ سازی میں اپنی طاقت و اہمیت کھو چکی تھی ، اس لیے ملک کے بڑے فیصلوں میں اب ان سے کوئی مشاورت نہیں ہوتی ، ان سے پوچھنا بھی کوئی گوارا نہیں کرتاکیونکہ یہ طے ہوچکا ہے کہ جو بھی کیا جائے گا، بیوروکریسی حمایت کردے گی ، وہ انکار کرنے اور اپنی بات منوانے کی آئینی طاقت کھو چکی ہے ۔

اسی لیے ہم نے دیکھا کہ سول بیوروکریسی کی مقدس گائے کی حیثیت بھی ختم ہوگئی ہے۔ بیوروکریٹس سیاستدانوں کی سطح پر آگئے ہیں۔ تاہم عدلیہ نے اپنی اہمیت اور حیثیت قائم رکھی ہے۔ پاکستان کی عدلیہ نے ماضی میں جب بھی فوجی اقتدار آیا، اسے آئینی جواز فراہم کرکے اپنی قوت اور اہمیت کا ثبوت دیا ہے، انھوں نے مارشل لا ء کو جائز بھی قرار دیا ہے۔

پی سی او کے تحت حلف بھی اٹھائے ہیں۔ ایل ایف او کو جائز بھی قرار دیا ہے۔ نظریہ ضرورت کے تحت بھی فیصلے کیے۔ ڈکٹیٹرز کو آئین میں ترمیم کرنے کی اجازت بھی دی ہے۔ سول بیوروکریسی کے برعکس عدلیہ نے اپنا احترام بھی قائم کھا اور طاقت بھی بلکہ اپنی طاقت میں بھی اضافہ کیا ہے۔ اپنے ڈھانچے میں پارلیمان اور دیگر آئینی اداروں کی مداخلت کے تمام آئینی اور قانونی دروازے بھی بند کیے ہیں تا کہ ریاست کا کوئی ستون ان کے کام میں مداخلت نہ کر سکے۔ عدلیہ نے اس سفر میں اگر آج دیکھا جائے تو حقیقی اسٹبلشمنٹ سے زیادہ طاقت حا صل کر لی ہے۔

ہم نے پھر آرمی چیف کی توسیع پر چیف جسٹس کھوسہ کاسو موٹو کو بھی دیکھا۔گو اس سو موٹو میں کوئی بڑا فیصلہ نہیں دیا گیا۔ لیکن اس معاملے کو اس طرح اٹھانے اور اس کی سماعت نے واضح اشارہ دیا کہعدلیہ کی تائید اور فیصلے کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔ اب بھی ملک میں جوکچھ  ہو رہا ہے، اس سے بھی صاف ظاہر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے دو حصوں کے درمیان بعض اہم ترین معاملات پر ہم آہنگی نہیں ہے۔ پاک فوج نے خود کو نیوٹرل اور A Political کرنے کی پالیسی اپنا لی ہے ۔جس کی وجہ سے سیاسی تنازعات کے حل کے لیے عدلیہ کا کردار بہت بڑھ گیا ہے۔ ایک رائے بن رہی ہے کہ عدلیہ کے اختیارات کی کوئی حدود قیود نہیں ہے۔ عدلیہ سب کو ہٹا سکتی ہے لیکن اسے کوئی نہیں ہٹا سکتا۔

اس ساری صورتحا ل کاجہاں فائدہ ہے‘ وہاں نقصان بھی ہو رہا ہے۔ ایک نقصان بھی ہو رہا ہے۔ پہلے ساری تنقیداسٹیبلشمنٹ کی اصطلاح کی آڑ میں عسکری اداروں کوبرداشت کرنی پڑتی تھی لیکن اب جیسے جیسے جیوڈیشل ایکٹوازم بڑھتا جارہا ہے، تنقید کے سارے نشتر بھی عدلیہ کی طرف ہو گئے ہیں۔ سیاستدانوں کے حملوں کا جواب دینا آسان کام نہیں ہے۔عدلیہ کے پاس فیصلہ دینے کی طاقت تو ہے لیکن سیاسی محاذ آرائی کا جواب دینے کی کوئی طاقت نہیں۔ توہین عدالت کے جرم میں کتنے لوگوں کو سزائیں دے کر جیل بھیجا جا سکتا ہے ۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اعلیٰ عدلیہ پر تنقید بڑھتی جا رہی ہے اوروہ بے بس بھی نظر آرہی ہے۔

فوج کے پاس ایک طاقت ہوتی ہے ‘ اس طاقت کی وجہ سے سب خوفزدہ رہتے ہیں، جب کہ عدلیہ کے پاس ایسی کوئی طاقت نہیںہوتی ہے۔ میرے لیے یہ صورتحال دلچسپ ہے، سیاستدانوں اور عدلیہ کے اس میچ کے نتیجے سے نئے رولز آف گیم بنیں گے۔ عدالتی فیصلوں کو نافذ کرانے کے لیے ایگزیکٹو اور فوج کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ ماضی میںیہ مدد ملتی رہی ہے لیکن اب شاید ایسا نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ سیاستدان اور دیگر لوگ اب معزز ججز کے سیاسی رحجانات پر بات کر رہے ہیں ۔ پہلے فوج کے لاڈلے کی پھبتی کسی جاتی تھی اور اب ججز کے لاڈلے کی بات ہوتی ہے۔

میری رائے یہ ہے کہ ملک کے اداروں کا احترام لازم ہونا چاہیے۔ ریاست کو چلانے کے لیے ایسا کرنا لازم ہے ، اداروں میں الیکشن کمیشن ، پارلیمان اور سیاسی جماعتیںبھی شامل ہیں۔ پارلیمانی جمہوری نظام ہو یا صدارتی نظام ہو، یہ اصول و ضوابط کے تحت ہی چلتے ہیں، پاکستان میں جمہوری نظام کو مضبوط و مستحکم کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں کی قیادت جمہوری روایات کے تحت اپنی اپنی جماعتوں کو چلائیں۔

سیاسی کارکنوں کی تربیت کریں،پارلیمان تب ہی اپنے اختیارات حاصل کرنے میں کامیاب ہوگی جب سیاسی جماعتیں اسے طاقت فراہم کریں گی۔بلاشبہ پارلیمان کولیکٹیو وزڈیم کے تحت فیصلے کرتی ہے، اس لیے یہ عوام کی امنگوں کے ترجمان ہوتے ہیں جب کہ عدلیہ آئین و قانون کی روح اور اصولوں کو فالو کرتی ہے، اس لیے پارلیمان، عدلیہ اور انتظامیہ کے مابین ہم آہنگی اور یکجہتی بہت ضروری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔