بہت دیر کردی…

صفورا خیری  جمعـء 14 مارچ 2014

صحرا کی آنکھیں جل تھل ہیں اور اس کا سینہ بے شمار ان گنت ننھے ننھے وجود سے بوجھل ہے، یہ بے حس و حرکت بچے وبائی بیماری سے ہی نہیں فاقے اور بھوک سے مر گئے ہیں کسی کے کانپتے ہوئے ہونٹ دودھ کی بوتل کو تلاش کرتے کرتے منجمد ہو گئے تو کسی کو نظریں روٹی کو دیکھتے دیکھتے تھک گئیں، یہ کہانی پیاس کے صحرا تھر کی ہے۔ جہاں کے بچے نہ سوتی جاگتی گڑیا سے واقف ہیں نہ ٹن ٹن کرتے بھالو سے یہ تو بس مٹی کے بدصورت طوطوں کو دیکھ کر ہی بہل جاتے ہیں۔ یہ افلاس کے بادلوں سے پرورش پاتے ہیں اور موت کی اندھیری گھٹائوں میں سو جاتے ہیں۔ یہ وہ زندگی گزارتے ہیں جسے گزارنا ممکن ہی نہیں ہے۔ یوں تو ایک زمانے سے صحرائے تھر میں غربت کے سائے منڈلاتے تھے لیکن ایسا اب کی بار ہوا کہ باری باری کئی خاندانوں کے چشم و چراغ گل ہو گئے ۔

غنچے یوں بھی کملاتے ہیں، کلیاں یوں بھی مرجھاتی ہیں ایسا تو ہم نے صرف پڑھا تھا دیکھا نہ تھا اور عین اسی وقت جب مائیں اپنے بچوں کی لاشوں کو حسرت سے تک رہی تھیں ۔ ہمارے سامنے اخبار میں دو کالمی چھپی ہوئی تصویر آگئی جہاں حکومت کی بھیجی ہوئی ٹیموں کے ہاتھوں میں پر تکلف کھانے تھے، اندھیر ے اور اجالے اپنے واضح خدو خال کے ساتھ سامنے تھے۔ ہمارے معصوم حکمرانوں کو پتہ ہی نہیں تھا کہ تھر میں قحط سالی اور بیماری نے کتنے بچے نگل لیے کیونکہ وہ تو صرف تر نوالہ ہی نگلنے کے عادی نہیں ہم میڈیا کو سیلوٹ کرتے ہیں جس نے تھر کی تباہی اور بربادی کا منظر عوام کو دکھایا، کتنی مائوں نے ہاتھ پھیلا پھیلا کر التجائیں کی ہوں گی، کتنے دامن اشک بار ہوئے ہوں گے جب سوکھے پنجر جیسے بچوں کے ننھے ننھے سینوں کی اٹکتی ہوئی سانسیں رکی ہوں گی۔ اس سے زیادہ سفاکی اور بے حسی کیا ہو سکتی ہے۔

ایک عہد وہ تھا کہ دریائے فرات کے ایک کتے کی موت کی بھی ذمے داری حضرت عمرؓ نے بحیثیت حکمران اپنے سرڈالی تھی۔لیکن یہاں تو کتوں سے بھی بدتر حالت میں چھوٹے چھوٹے معصوم بیمار بچے بھوک سے بے حال ختم ہو گئے اور کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی کیونکہ رہبرانِ قوم کے سامنے تو ایک ہی دنیا ایک ہی زندگی ہے۔ جہاں باڈی گارڈ ہیں، خدمت گار ہیں اور ایمرجنسی بجاتے موبائل دوڑاتے سڑکیں بلاک کرتے سرکاری اہلکار ہیں جہاں سفید اور سیاہ چمکتی دمکتی جھنڈا بردار لہراتی گاڑیاں ہیں۔ انواع و اقسام کے کھانے ہیں اور جن کی بیگمات سونے سے لدی لاکھوں روپے کی شاپنگ کرتی غیر ملکی دوروں کے مزے اڑاتی ہیں۔جن کے بچے اپنے قیمتی پالتوں کو کتوں کو بھی باہر کی غذا کھلاتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ پاکستان میں ذبح ہونے والے اکثر جانوروں کا گوشت ’’مشکوک‘‘ ہوتا ہے۔

تھر جس کے بارے میں ایک غیر ملکی سیاح نے کہا تھا ، میں نے پوری دنیا دیکھی ہے مگر بارشوں میں جیسا حسین تھر نظرآتا ہے وہ منظر میں کبھی نہیں بھولوں گا۔ اس وسیع و عریض صحرا کے سینے میں چھپے ہوئے کوئلے سے بقول ڈاکٹر ثمر مبارک پانچ سو برس تک بجلی پیدا ہو سکتی ہے، اس ریت اڑاتے علاقے میں جس کے حسین مور سیاحوں کا دل موہ لیتے ہیں ہاں اسی تھر میں پیاس کے صحرا تھر میں جہاں اب بھوک بھی پیاس کی ہمنوا بن گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے دو سو سے زائد بچے لقمۂ اجل بن گئے۔ گندم کی ہزاروں بوریاں ان تک نہ پہنچ سکیں۔ ایک دن میں تین سو پچھتر بچے مٹھی میں لائے گئے جو تھر کے مختلف علاقوں سے غذائی قلت کا شکار ہو کر مٹھی کے سول اسپتال پہنچائے گئے ۔ اس کے باوجود بھی ڈکلو ، چھاچھلو، اسلام کوٹ اور نگر پارکر کے سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹروں اور عملے کی تعداد نہیں بڑھائی گئی۔گندم کی بوریاں سرکاری گوداموں میں تالے میں بند پڑی رہیں ۔

یہ ہولناک خبر جب جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیلی تو ہمارے وزیر اعلیٰ صاحب بھی جاگ اٹھے اور وزیرا عظم بھی۔ ایسے میں نوجوان بلاول کیسے پیچھے رہتے۔ سبھی تھر کے قحط زدہ علاقوں کی طرف دوڑ پڑے۔ ایک ہی شخص ایسا تھا جس نے یہ خبر سنتے ہی تھر کے مصیبت زدہ خاندانوں کی نذر کیے اور ہر مرنے والے بچے کے خاندان کو دو دو لاکھ روپے اس کے علاوہ دینے کا اعلان کیا۔ یہی نہیں اپنی ٹیم کو ہدایت بھی کی کہ وہ یہاں کم از کم چھ ماہ قیام کریں اور متاثرین کے تمام قیام اور میڈیکل کی ضروریات کو پورا کریں۔ یہ شخص ملک ریاض کہلاتا ہے ۔ وزیر اعظم صاحب نے تھر کے متاثرین کے لیے ایک ارب روپے امداد کا اعلان بھی کیا ۔

اس موقع پر بازاروں کو بند رکھنے اور ٹرانسپورٹ کو شہر میں داخل نہیں ہونے دیا جیسا کہ وی وی آئی پی موومنٹ میں ہوتا ہے ۔ سیکیورٹی کے انتظامات کی وجہ سے مریضوں کو اسپتالوں تک پہنچنے میں سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کی مثال وہ تین سالہ ننھی سلمیٰ تھی جسے علاج کے لیے سول اسپتال لانا تھا مگر چونکہ وہاں اہم ترین شخصیات کو دورہ کرنا تھا لہٰذا سکیورٹی والوں نے اسے اسپتال داخل ہی نہیں ہونے دیا اس کے ماں باپ او پی ڈی کے چکر لگاتے رہے جہاں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی اور اجازت ملی بھی تو کب؟ جب وہ اپنی ماں کی بانہوں میں ہی دم توڑ چکی تھی ۔ پتہ نہیں ایسی کتنی ہی ننھی سلمائیں اپنے اعلان کے انتظار میں سپردِ خاک ہو گئی ہو ں گی۔

یہ مزاج پُرسیاں، یہ امداد اس وقت ہوئی جب بے شمار بچے لقمۂ اجل بن گئے۔ ہمارے وزیر اطلاعات فرماتے ہیں کہ تھر کی حالت اتنی بھی خراب نہیں جتنی میڈیا دکھا رہا ہے۔ ٹھیک ہی تو ہے ، انھیں ان کی ابتری کا احساس کیسے ہو گا؟ وہ تو ہیلی کاپٹر میں بیٹھے متاثرہ علاقوں کا جائزہ لے رہے تھے جب کہ موت کا یہ رقص فضاء میں نہیں بلکہ زمین پر جاری تھا۔

دُکھ تو اس بات کا ہے کہ اس ملک میں اب بس تین دنیائیں ہیں۔ ایک وہ جو اپنے پالتو کتے بلیوں کو فارن فوڈز کھلاتے ہیں، ایک وہ جو بمشکل تمام دو وقت کی روٹی کھاتے ہیں، اور تیسرے وہ جو قحط و افلاس سے بھوکے مر جاتے ہیں یا مار دیے جاتے ہیں۔ جیسا کہ ابھی حال ہی میں ایک ماں نے اپنے دو کم سن بچوں کو اس سبب موت کی وادی میں سلا دیا۔ یہ فرسٹریشن تھا، پاگل پن یا مجبوری لیکن میڈیا کا بے داغ چہرہ ایسے ہزاروں داغ دار چہروں کو بے نقاب کر رہا ہے جو اب تک چشمِ انسانی سے پوشیدہ تھے۔ میڈیا ہی وہ آئینہ ہے جس میں یہ زوال پذیر معاشرہ اپنا عکس دیکھ سکتا ہے اور دکھا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میرے صحافی بھائی بھیڑ بکریوں کی طرح مارے جا رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ؎

وہی لکھو جو قلم کی زبان کہتی ہے

سخن کو پردۂ الفاظ میں چھپاؤ مت

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔