متضاد بیانات

نسیم انجم  ہفتہ 15 مارچ 2014
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

بعض اوقات حکومت کی طرف سے بھی متضاد بیانات جاری ہوتے ہیں اس قسم کے بیانات پڑھ کر حکومتی ارکان کے قول و فعل کا تضاد نمایاں ہو جاتا ہے۔ اکثر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ مثبت امور کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا دعویٰ محض لفاظی پر ہی مبنی رہتا ہے، جب کہ منفی کاموں اور دوسروں کو نقصانات پہنچانے کے لیے بڑی عجلت سے کام لیا جاتا ہے ۔حال ہی میں وفاقی حکومت نے یہ اعلان کیا تھا کہ بیروزگاری کا خاتمہ اور کراچی کی رونقوں کو دوبارہ لانے کا اہتمام کیا جائے گا، ابھی اس خبر کو شایع ہوئے ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا کہ دوسری خبر یہ آگئی کہ بارہ سیٹر رکشوں پر پابندی لگادی جائے گی۔

مذکورہ بیان پہلی خبر پر بجلی بن کر گرا، کہاں تو روزگار دینے کی بات کی جا رہی تھی اور ابھی لوگوں کو روزگار بھی نہیں ملے تھے کہ برسر روزگار اشخاص کو رزق حلال سے محروم کرنے کی بری خبر سنا دی گئی۔ اس حوالے سے ڈرائیوروں نے ناگن چورنگی اور قیوم آباد چورنگی پر احتجاج بھی کیا جو ان کا حق تھا، لیکن یہ بھی بڑا المیہ ہے کہ ادھر محروم و مظلوم لوگ سڑکوں پر آئے اور ادھر پولیس نے لاٹھی چارج اور ہوائی فائرنگ شروع کردی، یقینا پولیس کا یہ ظالمانہ رویہ مظلوم لوگوں کے لیے تکلیف دہ ہے۔ ان لوگوں کا پولیس اہلکار کچھ نہیں بگاڑ پاتے ہیں جن کے پاس اسلحہ ہوتا ہے اور وہ ہوائی فائرنگ ہی نہیں کرتے ہیں بلکہ باقاعدہ دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور لوگوں کی جانوں سے کھیلتے ہیں۔ پرامن مظاہرین پر لاٹھی چارج کرنا، دھکے دینا ان کا معمول ہے۔

اس معاملے میں مرد و خواتین میں کسی قسم کی تخصیص نہیں کی جاتی ہے جو حشر مردوں کا کیا جاتا ہے ویسا ہی رویہ خواتین کے ساتھ برتا جاتا ہے۔ مسلم معاشرے میں خواتین عزت و احترام کی مستحق قرار پاتی ہیں لیکن ہمارا معاشرہ نہ اسلامی ہے اور نہ غیر اسلامی، ایک عجیب سی افراتفری مچی ہوئی ہے، آگے بڑھو اور اپنا اپنا الو، اپنے تعلقات و سفارش کے بل پر سیدھا کرلو۔ کوئی کسی کو پوچھنے والا نہیں مقتدر حضرات کی بے ایمانی وغیرمنصفانہ سلوک نے معاشرتی سچائیوں کو قتل کرنے کی کوشش کی ہے، جھوٹ بولنے والے ہی کامیاب ہوجاتے ہیں گو کہ یہ خوشی اور کامیابی وقتی ہی ہوتی ہے لیکن ملتی ضرور ہے۔

اس طرح کے بیانات پڑھ کر اس بات کا بھی بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں ملکی معاملات میں ذہنی ہم آہنگی نہیں ہے، وفاقی حکومت کا فرض ہے کہ صوبائی حکومتوں کو اس بات پر آمادہ کرے کہ وہ اپنے صوبے میں لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کو یقینی بنائیں، ویسے ہی ملک بہت سے اندرونی و بیرونی مسائل اور سازشوں کا شکار ہے، چین و سکون عنقا ہوچکا ہے، مہنگائی و بے روزگاری اس قدر بڑھ چکی ہے کہ پاکستانی اپنے مسائل کا حل خودکشی اور قتل و غارت گری میں ڈھونڈتے ہیں۔

میں یہ بات دعوے سے کہہ سکتی ہوں کہ متوسط طبقے کے لیے اس وقت سب سے اچھی جو سواری ہے وہ ہے چنگچی، اور بارہ سیٹر رکشے، ان سواریوں کی بڑی خوبی یہ ہے کہ مسافر سیٹ بائی سیٹ بیٹھتے ہیں، ڈرائیور حضرات بھی تہذیب و تمیز سے بات کرتے ہیں، مجال ہے جو کسی سے بدتمیزی سے پیش آئیں جب کہ اس کے برعکس کنڈیکٹروں اور ڈرائیوروں نے مسافروں کے لیے سفر کرنا مشکل ترین بنادیا تھا بے چارے معذور و ضعیف مسافر بس سے اتر بھی نہیں پاتے کہ ڈرائیور حضرات محض ریس لگانے اور اوورٹیکنگ کے چکر میں بس چلا دیا کرتے تھے، اس طرح کمزور و ناتواں لوگ اور بزرگ خواتین حادثے کا شکار ہوجاتے تھے، شاید یہ اللہ ہی کی عذاب نما آزمائش ہے کہ آج بسیں شاہراہوں سے غائب ہیں۔ بہت کم بسیں چلتی ہیں، ان کی چھتوں پر بیٹھ کر مسافر سفر کرتے ہیں یہ عمل کسی بڑے حادثے کا پیش خیمہ بن سکتا ہے ویسے بھی حادثات آئے دن ظہور پذیر ہوتے ہیں، اس کی ایک بڑی وجہ تیز رفتاری ہے۔ ملک کے حالات جوں جوں بگڑتے گئے، ٹرانسپورٹ پر آفت آتی رہی بے شمار بسیں اور گاڑیاں نذرآتش کردی گئیں، لوگوں کا بڑا برا حال اس لیے ہے کہ تعلیم کی کمی ہے یا پھر سرے سے کچھ پڑھا لکھا ہی نہیں، جہاں کہیں ملک میں کوئی افسوسناک بڑا واقعہ پیش آیا، جیالے میدان میں کود گئے اور اپنے ہی وطن کی قیمتی املاک کو جلانے لگے خاص خاص جگہوں اور عمارتوں کو توڑ پھوڑ ڈالا، موٹر سائیکلیں، بسیں اور کاروں پر مٹی کا تیل چھڑکا اور آگ لگادی، دکانیں لوٹ لیں، سر راہ چلنے والی خواتین کو اغوا کرلیا۔

یہ طریقہ نہ افسوس کرنے کا ہے اور نہ ہی ناگہانی اموات یا شہادت پر غمزدہ ہونے کا، لوگوں کو تکلیف پہنچانا املاک کو تباہ و برباد کرنا کون سی تہذیب اور انسانیت ہے؟ کوئی بھی مذہب دوسرے معاشرے کو نقصان پہنچانے کا درس نہیں دیتا ہے۔ نئی بسوں کے آنے میں ابھی وقت ہے۔ قبل ازوقت ہی بے روزگاری میں اضافہ کرنا دانش مندی نہیں ہے۔ چنگ چی اور رکشے چلانے والوں کے گھروں کے چولہوں کو جلتا رہنے دینا چاہیے، ورنہ یہ بے چارے غریب لوگ ’’تھر‘‘ کے لوگوں کی طرح بھوک سے مرنے لگیں گے، بچے بیمار ہوجائیں گے، حکومت کو چاہیے کہ جن کاموں کے کرنے سے عوام کے مسائل حل ہوتے ہیں انھیں جاری رہنا چاہیے۔

گو کہ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ درست ہے کہ چنگ چی اور بارہ سیٹر رکشے ملک کی بدحالی اور غربت کا منظرنامہ رقم کرتے ہیں۔ 5 تا 10 سال پہلے ان رکشوں کے دیدار سے ہزاروں لوگ محروم تھے، یہ رکشے صرف لائنز ایریا اور اسی قسم کے دوسرے پسماندہ علاقوں میں چلا کرتے تھے لیکن اب پورے شہر کراچی میں سڑکوں پر اپنی مخصوص آواز کے ساتھ دوڑتے نظر آتے ہیں۔ کراچی ہی کیا دوسرے کئی بڑے شہروں میں چنگ چی، رکشے چلائے جاتے ہیں۔

اپنے ملک کو استحکام بخشنا ہے تو ایمانداری و خودداری کو پروان چڑھانا ہوگا اور یہ عمل اوپر سے شروع ہونا چاہیے۔ دوسرے ملکوں سے قرضہ لینا اور ملک کا پیسہ بیرونی ممالک میں حفظ ماتقدم کے تحت بینکوں میں جمع کرانا اپنے ملک کو کمزور کرنے اور رعایا کے حقوق غصب کرانے کے مترادف ہے، اس نکتے پر غور کرنا ضروری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔