ملکی مسائل پر نئی حکمت عملی کی ضرورت

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  جمعـء 2 ستمبر 2022
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

قیام پاکستان کے بعد سے صرف عوامی مسائل ہی نہیں، ہر طرح کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے، ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ اب قومی و اجتماعی مسائل پر غور وفکر کرنے اور ان کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے بجائے اپنی اپنی جماعتوں اور ذاتی مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے۔

نئی آنے والی حکومت پچھلی حکومتوں کے منصوبوں کو بھی ختم یا روکنے کی کوششیں کرتی ہے ،جس سے عوام کے مسائل میں مزید اضافہ اور قومی خزانے کو الگ نقصان پہنچتا ہے، اسی طرح اگر کوئی منصوبہ وقتی طور پر روک دیا جائے تولاگت بڑھنے سے بھی نقصان الگ ہوتا ہے۔ یہ مسئلہ ملک و قوم کو بہت نقصان پہنچا رہا ہے ،لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے جو نئے منصوبے بنائے جائیں ،انھیں پایا تکمیل تک پہنچانے کے لیے کوئی ایسی حکمت عملی اپنائی جائے کہ کسی کی بھی حکومت آئے یا ختم ہو، منصوبے اپنی رفتار کے ساتھ وقت پر مکمل ہوں۔

اس کے علاوہ نئے منصوبے ملک کے مسائل، وسائل اور حالات دیکھ کر بنانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ اب سیاسی جماعتوں میں آپس کی کشمکش اس قدر بڑھ گئی ہے کہ ملکی مسائل سے نمٹنے کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی یا پروگرام ان جماعتوں کی طرف سے پیش نہیں کیے جا رہے ہیں۔ مثلاً آج بھی خبریں سنیں تو پتہ چلتا ہے کہ بھارت کی جانب سے چھوڑے گے پانی کے سبب سیلاب آنے سے فلاں علاقے میں درجنوں دیہات زیرآب آگئے۔ سوال یہ ہے کہ بھارت کی جانب سے یہ مسئلہ آج کا نہیں برسوں پہلے کا پیدا کردہ ہے تو پھر آخر اس مسئلہ سے نمٹنے کے لیے کوئی ٹھوس حکمت عملی کیوں نہیں بنائی گئی؟ کم ازکم لوگوں کو بروقت سیلاب کی تباہ کا ریوں سے کیوں نہیں بچایا جا سکا؟

اسی طرح اگر شہری علاقوں میں سب سے بڑے شہر کراچی کو دیکھیں تو یہاں بھی کچھ کم مسائل نہیں دکھائی دیتے۔ موسم کی تبدیلی اور سخت بارشوں کی پیشگوئیاں سائنسداں ایک عرصے کر رہے ہیں اور اب تو محکمہ موسمیا ت کی پیشگوئیاں بھی درست ثابت ہو تی آرہی ہیں ،اس کے باوجود پانی اور نکاسی آب کے مسائل جوں کے توں نظر آرہے ہیں۔ غریبوں کے علاقے یا مضافاتی بستیوں کا حال تو چھوڑیے، مڈل کلاس اور پوش علاقوں میں بھی بارش کے بعد گھر سے باہر نکلنا محال ہوتا ہے کہیں بارش کا پانی تو کہیں گٹر کا پانی کھڑا ملتا ہے جس میں پاؤں ڈوبوکر ہی گھر کے اند یا باہر جا یا جا سکتا ہے اور سڑکوں کا حال تو مت پوچھیے! اس سے بڑا لطیفہ اور کیا ہوگا کہ آسمان سے مسلسل بارش برس رہی ہے اور کراچی کے باسی واٹر ٹینکر والے کو پیسہ دے کر گھر میں پانی منگوا رہے ہیں۔

غلط منصوبہ بندی کے سبب اس شہر سے نہ صرف فٹ پاتھ تک سے ہریالی ختم کرکے پکی اینٹوں کو لگا دیا گیا اب ہر طرف پکی زمین ہے، شہر سے کھلے میدان اور خالی جگہیں قبضہ مافیا کے باعث تعمیرات سے بھر چکا ہے جس کے سبب اب بارش کا پانی گلی کوچوں میں بھی زمین میں نہیں جاتا، زمین بارش کے پانی سے سراب نہیں ہوتی چنانچہ زیر زمین پانی کی سطح بھی دن بہ دن نیچے ہو رہی ہے اور شہریوں کو بورنگ کا پانی بھی مشکل سے دستیاب ہو رہا ہے اور وہ ٹینکر کا پانی خرید کر استعمال کر رہے ہیں۔ دوسری طرف بارش کا پانی ’’ اربن فلڈ‘‘ کا باعث بنتا ہے اور گلی کوچوں کے کھڈوں میں جمع ہوکر مسائل میں مزید اضافہ کا باعث بنتا ہے۔

اس صورتحال میں ایک شہری نے اپنے طور پر بارش کے پانی کو کراچی شہر کے دستیاب پرانے کنوؤں میں جمع کرنا شروع کیا جس سے وہ پانی جو ضایع ہو رہا تھا وہ کسی حد تک زیر زمین چلا گیا اور زیر زمین پانی کی سطح کافی حد تک بہتر ہوئی جب کہ یہ پانی سٹرکوں وغیرہ پر پریشانی پیدا کرنے کا باعث بھی نہیں بنا۔ یقیناً اس شہری نے اپنی ذہانت اور محنت سے ایک اچھا کام کیا اور ثابت کیا کہ مسائل سے کس طرح نمٹا جا سکتا ہے اور فائدہ بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ایسی مثبت سوچ رکھنے والے لوگوں کی تعداد کم نہیں ہے۔زندگی کے ہر شعبہ ہائے زندگی میں ایسے افراد مل جائیں گے جواس ملک کے مسائل کو حل کرنے کے لیے بہتر مشورے دے سکتے ہیں، ایسے ماہرین مل سکتے ہیں جو اپنے شعبوں میں بہترین منصوبہ بندی پیش کر سکتے ہیں۔

اس وقت دیہی اور شہری علاقوں میں بارش کا پانی جو مسائل پیدا کر رہا ہے اسے کئی طریقوں سے استعمال میں لاکر پانی کی قلت کو بھی دور کیا جا سکتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے ڈیم اور جھیل، تالاب یا گڑھوں وغیرہ کی صورت میں بھی مستقبل کے ا ستعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ شہروں میں سرکاری تعلیمی اداروں اور پارکوں میں کنویں کھود کر بھی پانی کا ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔ راقم کی گزارش اور مشورہ ہے کہ ملکی کو حل کرنے کے لیے ایسے لوگوں سے فائدہ اٹھا یا جائے ان کے قیمتی مشوروں سے منصوبہ بندی کی جائے تاہم اس منصوبہ بندی کو سیاست سے بچا کر رکھا جائے، یہ غیر سیاسی خطوط پر ہو جس میں مختلف اداروں کے اور عام با صلاحیت لوگوں سے فائدہ اٹھایا جائے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیسے ممکن ہے؟ راقم کی تجویز ہے کہ جس طرح کوویڈ کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک پلٹ فارم ’’ نیشنل کمانڈ آپریشن سینٹر‘‘کے نام سے بنا کر اس چیلنج سے نمٹا گیا، اسی طرز پر ایک پلٹ فارم تشکیل دیا جائے تاکہ کوئی بھی حکومت آئے یا جائے اس کا اثر اس پلٹ فارم پر نہ پڑے اور یہاں سے ملکی مسائل سے نمٹنے کے لیے ماہرین اور اسٹیک ہولڈرز سے مشوروں لے کر طویل اور مختصر مدت کے منصوبے بنائی جائیں ۔مثلاً اس وقت ایک بڑا مسئلہ موسمیاتی تبدیلوں سے آنے والے مسائل اور تباہی کا ہے تو اس کے لیے منصوبے بنائیں جائیں۔

اسی طرح دیگر اہم مسائل پر بھی منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے اور اس کے لیے زندگی کے مختلف شعبوں سے ماہرین اور اسٹیک ہولڈرزکو شامل کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح بہت سے مسائل سے بھی نمٹا جا سکتا ہے اور منصوبے بھی بغیر کسی سیاسی مداخلت کے پایائے تکمیل تک بروقت پہنچ سکتے ہیں۔

گرین، اورنج وغیرہ کے نام سے بسوں اور ٹرین کے منصوبے ہمارے سامنے ہیں کہ محض سیاسی محاذ آرائی کے باعث کس قدر پیسہ اور وقت ان پر برباد ہوا اور فائدہ بھی کوئی خاص نہیں! ہم نے مغربی ممالک کی نقل میں یہ منصوبے بناڈالے ،اگر اپنے ماحول اور کلچر کے مطابق عوام کو سفر کی سہولیات کی فراہمی پر غور و فکر کرتے تو یقیناً اس سے کم لاگت میں اس سے بہتر منصوبے بنائے جاسکتے تھے۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنے ترقیاتی منصوبوں سمیت تمام منصوبوں کو غیر سیاسی اور مستقبل بنیادوں پر تشکیل دینے کے لیے حکمت عملی بنالیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔