یکساں انصاف، ٹارگٹڈ انصاف، غیر معمولی انصاف کی بحث

مزمل سہروردی  منگل 6 ستمبر 2022
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

کسی بھی ملک میں نظام انصاف کی بنیاد یکساں انصاف کے فلسفہ پر ہی ہوتی ہے۔ اگر نظام انصاف یکساں انصاف کے اصول پر قائم نہ ہو تو انصاف نہیں ہو سکتا۔ یکساں نظام انصاف کی بنیاد پر ہی کہا جاتا ہے کہ عدالتیں اندھی ہوتی ہیں۔ وہ ملزم کا چہرہ نہیں جرم دیکھتی ہیں۔

ان کی نظر میں تمام ملزم برابر ہیں۔ یکساں انصاف میں اہم اور غیر اہم کی کوئی تمیز نہیں ہوتی۔ امیر و غریب کی کوئی تمیز نہیں ہوتی۔ مقبول اور غیر مقبول کی کوئی تمیز نہیں ہوتی۔ یہ بہت اہم ہے کیونکہ آجکل عدالتیں اس کو بہت اہمیت دے رہی ہیں۔ پڑھے لکھے اور جاہل کی کوئی تمیز نہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ قانون سے ناآشنائی کوئی دفاع نہیں۔ نظام انصاف کے لیے عدالتوں کے سامنے سب برابر ہیں۔ اور توقع یہی کی جاتی ہے کہ عدالتیں سب کے ساتھ برابر سلوک ہی کریں گی۔یہی انصاف کی بنیاد ہے۔

لیکن پاکستان میں یکساں انصاف کے ساتھ ٹارگٹڈ انصاف کی ایک شکل بھی سامنے آئی ہے۔ ویسے تو قانونی ماہرین کی نظر میں ٹارگٹڈ انصاف چاہے انصاف کے تقاضوں سے کتنا ہی قریب کیوں نہ ہو پھر بھی ٹارگٹڈ انصاف کو انصاف نہیں کہا جا سکتا۔ یہ انتقام کی ایک بری شکل ہی سمجھا جاتا ہے۔ اس کی ویسے تو ہماری عدالتوں میں بہت سی مثالیں مل جائیں گی۔ لیکن پھر بھی بڑی مثالوں میں بھٹو اور نواز شریف کے مقدمات بتائے جا سکتے ہیں۔ جب عدالتوں نے بھٹو کے بعد کسی کو بھی اعانت جرم میں اتنی بڑی سزا نہیں دی اور صرف بھٹو کو ہی اعانت جرم میں پھانسی کی سزا دی تو یہ ٹارگٹڈ انصاف کی ایک بد ترین شکل بن گئی۔

اسی لیے اس کو عدالتی قتل کہا جاتا ہے۔ اسی طرح پاناما میں چار سو سے زائد لوگوں کے نام تھے۔ آپ نے صرف ایک کے خلاف جے آئی ٹی بنائی۔ ایک کے مقدمات کو جلد نبٹانے کے لیے مانیٹرنگ جج لگایا گیا تو اسے بھی ٹارگٹڈ انصاف ہی کہا جاتا ہے۔ عدلیہ نے جب بھی ٹارگٹڈ انصاف کیا ہے اس کے کوئی اچھے نتائج سامنے نہیں آئے۔ ٹارگٹڈ انصاف میں اور بھی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔کسی ایک گرفتاری پر کمیشن بنانا بھی یکساں انصاف کی نفی ہی سمجھا جائے گا۔

یکساں انصاف کے فلسفہ کی جہاں بھی نفی کی جائے گی وہاں انصاف کی ہی نفی ہوگی۔اسی طرح پاکستان میں غیر معمولی انصاف کی بھی ایک شکل موجود ہے۔ جب کوئی مقدمہ تیزی سے سنا جائے اور باقی مقدمات سست روی کا شکار ہوں تو اسے بھی غیر معمولی انصاف ہی کہا جائے گا۔

جب کسی کو فوری انصاف دے دیا جائے اور باقی ملک میں انصاف سست رفتار سے مل رہا ہو تو اسے بھی غیر معمولی انصاف کہا جاتا ہے۔ جب باقی ملزمان کو ضمانت دیر سے دی جائے اور کسی ایک ملزم کو فوری ضمانت دے دی جائے تو اسے بھی غیر معمولی انصاف ہی کہا جائے گا۔ عدلیہ کے ذمے داران چاہے جتنی بھی توجیح پیش کریں کہ قانون میں اس کی گنجائش موجود ہے لیکن پھر بھی اس کو یکساں انصاف کی نفی ہی سمجھاجاتا ہے۔ راتوں کو عدالتیں کھولنا بھی غیر معمولی انصاف ہے۔ اس کی جتنی بھی توجیح پیش کی جائے غلط ہی ہوگا۔ جب ملک کی تمام عدالتیں رات کو بند ہوتی ہیں تو کوئی ایک جج صاحب رات کو عدالت کھول کر یکساں انصاف کی نفی ہی کریں گے اور وہ غیر معمولی انصاف ہی ہوگا۔

آج کل انصاف کے لاڈلے کا بھی بہت ذکر ہے۔ کسی بھی شخص کے ساتھ نظام انصاف خاص رعایتی سلوک کرے اسے انصاف کا لاڈلا کہا جائے گا۔ چاہے یہ سلوک انصاف کے مطابق ہی کیوں نہ ہو۔ چاہے عدالت اپنے قانونی اختیار کے اندر ہی یہ سلوک کیوں نہ کرے تب بھی لاڈلے کا تاثر مضبوط ہی ہوتا ہے۔

اگر ماضی میں توہین عدالت کے مقدمات میں ملزمان کو ترمیمی جواب داخل کروانے کی اجازت نہیں دی گئی اور کسی ایک ملزم کو خاص رعایت دیتے ہوئے ترمیمی اور نیا جواب داخل کروانے کی اجازت دے دی جائے تو اسے لاڈلے کا سلوک کہاجاتا ہے۔ باقی ملزمان کے اندر یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں تو یہ اجازت نہیں دی گئی تو اسے کیوں دی گئی۔ جب سابق وزیر اعظم توہین عدالت میں جا سکتے ہیں تو کسی کے مقبول ہونے سے خاص سلوک جائز نہیں ہو سکتا۔

اسی طرح اگر ماضی میں عدلیہ نے توہین عدالت پر سخت سزائیں دی ہوں اور پھر اب کسی ایک ساتھ رعایت کی جائے تو اسے لاڈلے کا انصاف ہی سمجھا جائے گا۔ اگر اب جج صاحب یہ کہہ دیں کہ وہ ذاتی طور پر توہین عدالت کے قانون کے حق میں نہیں تب بھی انھیں ماضی کی سزاؤں کے تناظر میں ہی فیصلہ کرنا ہوگا۔ جج صاحب کا کسی بھی قانون سے ذاتی طور پر متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

قانون بنانا ریاست کا کام ہے۔ عدلیہ کا کام قانون کے تناظر میں یکساں انصاف کے تحت فیصلے کرنا ہے۔ اس لیے جب عدالتوں میں یہ بات کی جاتی ہے کہ فلاں جج صاحب ضمانت لینے میں نرم اور فلاں جج صاحب سخت ہیں تو یہ بھی یکساں انصاف کی نفی ہے۔ جج صاحب کی ذاتی رائے اور ذاتی سوچ ان کے فیصلوں میں نظر نہیں آنی چاہیے۔ فیصلے قانون کے مطابق ہونے چاہیے۔ اگر جج صاحب ذاتی طور پر پسند کی شادی کے خلاف ہیں لیکن قانون میں اس کی اجازت ہے تو وہ عدالت میں اس کے خلاف فیصلے نہیں دے سکتے۔

یہ درست ہے کہ جج ملزم کی مرضی کا نہیں ہو سکتا۔ لیکن جج مدعی اور مخالف فریق کی مرضی کا بھی نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے کہتے ہیں جج کے جھکاؤ کا کسی کو علم نہیں ہونا چاہیے۔ کیا جب کسی جج پر عدم اعتمادکا اظہارکر دیا جائے تو اسے مقدمہ سے الگ ہوجانا چاہیے۔ یہ ایک مشکل سوال ہے ایسے تو جب کسی مقدمہ کا فیصلہ ہونے لگے ایک فریق عدم اعتماد کا اظہارکر دے گا۔

البتہ مقدمہ کے آغاز میں اس کی اجازت دونوں فریقین کو ہونی چاہیے ۔ عدالت کا بھی خاص مقدمات کسی ایک جج کو ہی لگانے کی پالیسی کے کوئی اچھے نتائج سامنے نہیں آئے۔ ایک بنچ کو کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس لیے سیاسی اور آئینی مقدمات سب کو ملنے چاہیے۔ عدلیہ کی اجتماعی رائے سامنے آنی چا ہئے۔ لیکن پھر بھی ایسے میں یکساں انصاف کی نفی نہیں ہونی چاہیے۔ہر جج مرضی کا فیصلہ نہیں کر سکتا۔

پاکستان کی عدلیہ کے ذمے داران کو عدلیہ میں ایسی اصلاحات کرنی ہونگی جس سے عام آدمی کا انصاف کے نظام پر اعتماد مضبوط ہو۔ یکساں انصاف پر عام آدمی کا یقین پختہ ہو۔ تمام مقدمات کو جلد نبٹانے پر سر جوڑ کر بیٹھیں ریمارکس سے عدلیہ کی ساکھ بہتر نہیں ہو سکتی۔ ریمارکس اور فیصلوں میں ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے بھی عام آدمی کنفیوز ہے۔ بے شک ریمارکس مقدمہ سمجھنے کی کوشش ہوتی ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں ریمارکس کے میڈیا میں نشر ہونے پر پابندی کا عدلیہ کو فائدہ ہوگا۔ جج کے ریمارکس نہیں فیصلوں کو بولنا چاہیے۔

ریمارکس جج کی ذاتی رائے بن کر ابھرتے ہیں جو بھی ٹھیک نہیں ہے۔ ججز کو میڈیا سے دور ہنا چاہیے۔ میڈیا کی پبلسٹی دو دھاری تلوار ہوتی ہے۔ اس کا کئی بار فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ ماضی کے جسٹس صاحبان جن کے ریمارکس میڈیا میں ہیڈلائن بنتے تھے ان کی ساکھ کو اس میڈیا کوریج سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوا ہے۔ اس لیے ریمارکس کی اشاعت کو روکنا عدلیہ کے مفاد میں ہے۔ صرف فیصلوں اور عدالتی کارروائی کی رپورٹنگ ہونی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔