سیلاب: اسباب، آزمائش، عذاب اور نجات

مولانا محمد الیاس گھمن  جمعـء 9 ستمبر 2022
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

اﷲ تعالیٰ نے قدرتی آفات سیلاب، طوفان، زلزلے، تیز ہواؤں اور وباؤں کے کچھ ظاہری و عارضی اسباب اور کچھ باطنی و حقیقی اسباب مقرر فرمائے ہیں۔

ظاہری اسباب سے بحث کا تعلق ہمارے علم سے ہو سکتا ہے ہمارے عمل سے نہیں جب کہ باطنی اسباب کا تعلق ہمارے علم کے ساتھ عمل کے ساتھ بھی ہے، اس لیے کہ ظاہری اسباب بھی تبھی ظاہر ہوتے ہیں جب باطنی و حقیقی اسباب پائے جاتے ہیں۔

اس وقت تک پاکستان کے اکثر علاقوں میں سیلاب کی وجہ سے تین کروڑ لوگ بے گھر ہوگئے، سیکڑوں کی تعداد میں اموات ہوئی ہیں۔ گھر گر گئے ہیں، مویشی اور گھریلو سامان بہہ گیا ہے، مارکیٹیں تباہ ہوگئی ہیں۔ تعلیمی ادارے منہدم ہو چکے ہیں۔ سیلاب کے حوالے سے قرآن کریم میں دو واقعات موجود ہیں، قرآن نے ان کے اسباب کو بھی ذکر فرمایا ہے۔

حضرت نوحؑ پہلے رسول ہیں جن کو احکام شریعت دیے گئے، آپ سے پہلے بھی انبیائے کرامؑ گزرے ہیں لیکن نبوت کے ساتھ رسالت کی ذمے داری سب سے پہلے آپ کو دی گئی۔ آپؑ ساڑھے نو سو سال تک نہایت درد مندی سے اپنی قوم کو تبلیغ فرماتے رہے، چند لوگوں نے آپ کی بات کو مانا اس کے علاوہ باقی لوگ اپنے کفر اور بداعمالیوں پر قائم رہے۔ آپ علیہ السلام کو فریضہ تبلیغ کی پاداش میں انتہائی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ اذیتیں اٹھانا پڑیں، صعوبتیں جھیلنا پڑیں۔

آخر کار آپؑ نے قوم پر بددعا کی، اﷲ نے اسے قبول فرمایا اور سیلاب کی صورت میں عذاب نازل فرمایا۔ حضرت نوحؑ کو کشتی بنانے کا حکم دیا کہ آپ اور آپ پر ایمان لانے والے اس میں سوار ہو کر سیلاب کی تباہی سے بچ جائیں۔

چناں چہ تنور سے پانی اُبلنا شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے ساری زمین پر پھیل گیا، جمہور مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ عالمی سیلاب تھا، نیچے سے سیلاب کا پانی جب کہ اوپر سے طوفانی بارش کا پانی، گویا اوپر نیچے سے عذاب آیا۔ اس عذاب سے صرف وہی لوگ بچے جنہوں نے حضرت نوحؑ کی بات کو مانا آپ پر ایمان لائے۔ جن لوگوں نے حضرت نوحؑ کی بات کو نہیں مانا وہ اس سیلاب میں غرق ہوئے جن میں حضرت نوح علیہ السلام کا کافر بیٹا کنعان بھی شامل تھا۔ ان پر آنے والے عذاب کے اسباب درج ذیل ہیں۔

انکار توحید و رسالت: سب سے بنیادی سبب کفر تھا، انہوں نے توحید باری تعالیٰ اور حضرت نوحؑ کی نبوت و رسالت کو تسلیم نہیں کیا بل کہ آپؑ کی تکذیب کی، مجنون کہا اور آپ کو دھمکیاں دیں۔ قرآن کریم میں ہے کہ نوحؑ کی قوم نے ہمارے بندے (نوح) کو جھٹلایا، اور کہا کہ یہ دیوانے ہیں اور آپ کو دھمکیاں دیں۔

قرآن کریم میں دوسرے مقام پر ہے: نوحؑ کہنے لگے: اے میرے رب! ان کافروں میں سے کوئی ایک کافر بھی روئے زمین پر باقی نہ رہنے دیجیے، آپ کی طرف سے عطا کیے ہوئے علم شریعت کی روشنی میں میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر آپ نے ان کو عذاب سے بچا لیا تو یہ آپ کے باقی بندوں کو بھی گم راہ کریں گے اور ان سے جو اولاد پیدا ہوگی وہ بدکار اور پکی کافر ہوگی۔

شرک: دوسرا بڑا سبب شرک تھا، انہوں نے پانچ اولیاء (ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر) کے مجسمے بنائے۔ پہلے کچھ عرصہ ان کی صرف تعظیم کی، بعد میں انہیں خدا کا شریک ٹھہرا کر انہی کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے۔ جسے قرآن کریم نے ان الفاظ میں ذکر کیا ہے: اس قوم کے سرداروں نے اپنے لوگوں سے کہا کہ اپنے معبودوں کو کبھی بھی مت چھوڑنا، نہ وَدّ اور صواع کو کسی صورت چھوڑنا اور نہ ہی یغوث و یعوق اور نسر کو چھوڑنا۔

تمسخر و تکبّر: تیسرا بڑا سبب تمسخر و تکبر تھا جس کا نقشہ قرآن کریم نے الفاظ میں ذکر کیا ہے: حضرت نوحؑ نے اﷲ سے بد دعا کرتے ہوئے عرض کیا: اے میرے رب میں نے اپنی قوم کو رات اور دن آپ کے دین کی طرف بلایا، لیکن میری دعوت کا نتیجہ میں وہ مجھ سے اور دور بھاگنے لگے، جب بھی میں انہیں ایسے دین کی طرف دعوت دیتا تاکہ وہ اس پر عمل کریں اور آپ ان کی مغفرت فرمائیں تو انہوں نے تمسخر اور استہزاء کے طور پر اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لیں، اپنے سروں پر کپڑے لپیٹ لیے تاکہ وہ مجھے نہ دیکھ سکیں اور اپنی ضد پر اڑے رہے اور ایمان قبول کرنے سے تکبر اختیار کیا۔

مکاری: چوتھا بڑا سبب وہ مکاری ہے جسے قرآن کریم نے مکر کہا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام اور ان کے ماننے والوں کے خلاف سازشیں کرتے اور انہیں اذیتیں دیتے تھے۔

گم راہی پھیلانا: پانچواں بڑا سبب یہ ہے جسے قرآن کریم نے گم راہی پھیلانے کے الفاظ سے ذکر کیا ہے یعنی لوگوں میں گم راہی پھیلاتے تھے، حضرت نوح علیہ السلام کی شریعت میں شکوک و شبہات پیدا کر کے لوگوں کو ان سے دور کرتے تھے۔

قرآن کریم نے جن اقوام کا تذکرہ کیا ہے ان میں ایک قوم سبا بھی ہے۔ یہ یمن میں آباد تھی، اپنے زمانے میں تہذیب و تمدن، سائنس و ٹیکنالوجی اور انجینیرنگ میں اپنی مثال آپ تھی۔ قومِ سبا جن بستیوں میں آباد تھی ان میں زراعت کے لیے ندی نالوں کا پانی کام آتا تھا، 70 چھوٹے بڑے ندی نالے ایسے تھے جن میں خاص اوقات میں پانی آتا تھا۔ سال کے سال جو پانی آتا تھا وہ کم ہوتا تھا، جس کی تقسیم پر ان میں باہمی لڑائی جھگڑا اور قتل و قتال پایا جاتا تھا۔

برسات کے دنوں میں پانی کی فراوانی اور تیزی کی وجہ سے ان کے جان، مال، عمارات اور زراعت کا بہت نقصان ہوتا تھا۔ ملکہ بلقیس نے جب اقتدار سنبھالا تو یہاں کے لوگوں نے سالانہ سیلاب کی تباہ کاریوں کی ملکہ سے شکایت کی، اس نے قوم سبا کے انجینیرز اکٹھے کیے، ان کے سامنے صورت حال رکھی اور اس کا حل پوچھا۔ انہوں نے تین منزلہ ڈیم بنانے کی تجویز دی، دو پہاڑوں کے درمیانی درّے کو جس کی لمبائی اور چوڑائی3 مربع میل تھی، انہوں نے بڑی چٹانوں کو سیسہ اور لوہے کے ذریعے جوڑ کر مضبوط دیوار بنائی۔

اس ڈیم کے نیچے بہت بڑے رقبے پر ایک حوض بنایا۔ پہلے درجے کی ضرورت کے مطابق ڈیم کی سب سے اوپر والی منزل کے دروازے کھولتے وہاں سے پانی حوض میں آجاتا، جب مزید ضرورت ہوتی تو دوسری منزل کے دروازے کو کھول دیتے اور پانی حوض میں آجاتا۔ مورخین نے لکھا ہے کہ عام طور پر تیسری (سب سے نچلی) منزل کے دروازے کھولنے کی نوبت نہیں آتی تھی۔ ملک کو بارہ برابر حصوں میں تقسیم کیا، پھر اس کے رہنے والوں کے لیے اس حوض سے بارہ نہریں نکالیں اور ان میں ایسی کاری گری دکھائی کہ بارہ کی بارہ نہروں میں پانی ایک ہی رفتار کے مطابق جاتا اور اس کا تجربہ انہوں نے حوض میں خشک مینگنیاں ڈال کر کیا، سب کی رفتار کو برابر پایا۔ یہ ڈیم یمن کے شہر ’’مآرب‘‘ میں بنایا گیا، اسی کو ’’سدِّ مآرب‘‘ کہتے ہیں۔

اﷲ کی نعمتیں: اﷲ رب العزت نے ان پر اپنی نعمتوں کے دروازے کھول دیے، ان کی زمینیں بہت زرخیز بنا دیں، ا ن کی سڑکوں کے دونوں اطراف میں پھل دار درختوں (جن میں الائچی، دار چینی، سیب) کے باغات پیدا فرما دیے، ان سے کہا گیا کہ اﷲ کے دیے ہوئے رزق سے کھاؤ پیو اور اس کا شکر ادا کرو کیوں کہ اﷲ نے تمہیں بہترین شہر عطا کیا ہے اور تمہاری لغزشوں کو رب تعالیٰ بخشنے والا ہے۔ پھلوں کی اتنی کثرت تھی کہ اگر کوئی سر پر خالی ٹوکری رکھ کر باغ کے ایک حصے سے دوسرے حصے تک جاتا تو درختوں سے توڑے بغیر اس کی ٹوکری پھلوں سے بھر جاتی۔

شہر مآرب کی آب و ہوا: آب و ہوا ایسی فرحت بخش، روح پرور اور صحت افزاء کہ کوئی موذی جانور (سانپ، بچھو، پِسّو، کھٹمل، جوئیں اور حشرات الارض یا درندے) اس میں زندہ نہیں رہ سکتے تھے۔

اگر باہر کے کسی علاقے کا کوئی شخص اس شہر میں داخل ہوتا اور اس کے کپڑوں میں کھٹمل پسو یا اس کے سر میں جوئیں ہوتیں تو اس شہر کی حدود میں داخل ہوتے وہ سب چیزیں مر جاتیں۔ ان کے منہ کے ذائقے خراب نہیں ہوتے تھے، بدہضمی اور معدے کی تکالیف کی شکایات بھی نہیں ہوتی تھیں۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کو خوش حالی، صحت، امن و امان اور سیاسی استحکام جیسی سب نعمتوں سے خوب نوازا تھا۔ لیکن رفتہ رفتہ یہ لوگ ان نعمتوں پر شکر ادا کرنے کے بہ جائے عیاشیوں میں مگن ہوگئے۔ اﷲ کے احکامات کو بھلا بیٹھے، ناشکری پر اتر آئے، یہاں تک کہ شرک کرنے لگے۔

اﷲ تعالیٰ نے ان کی اصلاح و فلاح کے لیے یکے بعد دیگرے 13 انبیائے کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا۔ لیکن یہ قوم اپنی خوش حالی، امن و امان، صحت اور مال و دولت پر اترانے لگی، انبیاء کرام علیہم السلام نے انہیں سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن یہ نہ مانے۔

بالآخر ان پر عذاب آیا اور وہ ڈیم ٹوٹ گیا ایک زبردست سیلاب آیا اور سارا علاقہ زیر آب آکر صفحۂ ہستی سے مٹ گیا۔ اب خوش حالی نہ امن و امان، شادابی نہ سیاسی استحکام، فراوانی نہ تجارت و زراعت۔ سب لٹ گیا، سب سیلاب نے بہا دیا۔

اﷲ رب العزت نے اس کی وجہ قرآن کریم میں یہ ذکر فرمائی کہ انہوں نے ہمارے احکامات سے منہ پھیرا، اِعراض کیا۔ جس کی وجہ سے ہم نے ان پر بند کا سیلاب چھوڑ دیا پہلے ان کے دونوں اطراف میں پھل دار درختوں کے باغات تھے اب ان کی جگہ بدمزہ پھلوں، جھاؤ کے درختوں اور جنگلی کڑوی کسیلی بیریاں اُگ آئیں۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ ان کی ناشکری کی سزا تھی اور ایسی سخت سزا ہم بڑے ناشکروں کو دیا کرتے ہیں۔

مذکورہ حقائق سے معلوم ہوا کہ عذاب کے کئی اسباب اور مختلف وجوہات ہوتی ہیں، عذاب کی کئی شکلیں ہوتی ہیں اور ان کا حل صرف یہی ہے کہ انسان اﷲ کی طرف متوجہ ہو جائے۔

آزمائش اور عذاب: مفہوم آیت: ’’اور اس وبال سے ڈرو جو تم میں سے صرف ان لوگوں پر نہیں پڑے گا جنہوں نے ظلم کیا ہوگا۔ اور اس بات کا یقین رکھو کہ اﷲ کا عذاب بڑا سخت ہے۔‘‘

آج جن علاقوں میں تیز طوفانی بارشیں ہو رہی ہیں یا سیلاب آیا ہوا ہے۔ یہ نہیں کہنا چاہیے کہ ان علاقوں میں رہنے والے تمام لوگوں کے گناہوں کی وجہ سے ہے بل کہ گناہ گار اور خدا کے غضب کو دعوت دینے والے لوگ تعداد میں کم ہوں گے ان پر عذاب بہ صورتِ عذاب جب کہ باقی لوگوں پر عذاب بہ صورتِ آزمائش ہے۔

ہماری اسلامی اور قومی ذمے داری ہے کہ بے آسرا، متاثرہ لوگوں کا سہارا بنیں۔ قرآن و سنت میں اس ذمے داری کی ادائی پر بہت زور دیا گیا ہے۔

سیلاب سے بچنے کی مسنون دعا، مفہوم: حضرت عائشہ بنت قدامہؓ سے مروی ہے کہ میں نے اﷲ کے رسول ﷺ کو یہ دعا مانگتے ہوئے سنا، مفہوم: ’’اے اﷲ! میں آپ سے دو اندھی آفات کے شر سے پناہ مانگتا ہوں۔ پوچھا گیا کہ دو اندھی بلائیں کون سی ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: سیلاب اور کاٹنے والا اونٹ۔‘‘

اﷲ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ عافیت والا معاملہ فرمائے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔