مکالمہ

امجد اسلام امجد  اتوار 11 ستمبر 2022
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

مجھے اچھی طرح یاد ہے ستر کی دہائی میں جب میں بطور شاعر زیادہ اور بطور ڈرامہ نگار قدرے کم مشہور ہو رہا تھا اور بوجوہ میڈیا سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی طرح زیادہ اور ہر جگہ بولنے کو اپنا حق اور ضرورت سمجھنے لگا تھا لیکن تین خوش گفتار لوگ ایسے تھے جن کے سامنے دوزانوں ہوکر بیٹھنا، ان کو سننا اور ان جیسا بننے کی آرزو کرنا مجھے تب بھی پسند تھا اور اب بھی ہے۔

یوں تو زندگی میںاپنے اپنے شعبے کے کئی بے مثال ماہرین سے ملنے اور ان کی صحبت میں بیٹھنے کا موقع ملا ہے مگر اعجاز حسین بٹالوی مرحوم کے لہجے کی مخصوص گرمی اور بشاشت اشفاق صاحب کی ہر موضوع پر سحرطرازی اور ایس ایم ظفر صاحب کی خوش آہنگ علمیت، بھرپور شخصیت اور خوش گفتاری کا اپنا ہی مقام تھا، سو آج جب برادرم وقار ملک کے اُن سے پچیس برس پر محیط مکالمات کا مجموعہ دیکھنے کا موقع ملا تو یوں سمجھئے ایک بار پھر اپنی ایک محبوب ترین شخصیت کی صحبت حاصل ہوگئی۔ یہ ضحیم کتاب’’قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل‘‘ کی طرف سے برادرم علامہ عبدالستار عاصم نے شایع کی ہے۔

ایس ایم ظفر صاحب کے خیالات، نظریات کی گہرائی ا ور وسعت تو اس کی بنیادی خوبی ہے ہی مگر جس محنت، جانفشانی اور سلیقے سے وقار ملک صاحب نے اپنے سوالات ترتیب دیے ہیں ان کی داد بھی واجب ہے۔ انھوں نے ا یس ایم ظفر صاحب کو ایک بہت بڑے قانون دان کے حوالے سے ہی نہیں دیکھا بلکہ عالمی سیاست، حقوقِ انسانی، فنون لطیفہ اور وطنِ عزیز کے بعض بہت سنجیدہ اور اہم سوالات کے ایک سنجیدہ پارکھ اور تاریخ وطن کے ایک اہم قائد کے طور پر بھی مکالمہ آرا کیا ہے ۔

اس کتاب کے مختلف حصوں اور اس کی گونا گوں خوبیوں پر بات کرنے سے پہلے میں ظفر صاحب کے ’’مکالمے‘‘ کی گہرائی، جامعیت اورموضوعاتی گرفت پر اپنے ابتدائی تاثر کی بات بھی کرنا چاہوں گا۔ غالباً 1975 میں گریجوایٹ ایوارڈ کونسل کی طرف سے تقسیم ایوارڈ کی تقریب تھی جو واپڈا ہاؤس کے ہال میں منعقد ہو رہی تھی اور جس میں پہلی بار بطور ڈرامہ نگارمجھے ایوارڈ مل رہا تھا، حاضرین میں فن کاروں کی موجودگی اور پرستاران فن کی کثر ت کی وجہ سے ایک میلے کا سا سماں تھا کہ اسٹیج سے اعلان ہوا کہ اب کونسل کے صدر اور سرپرست بیرسٹر ایس ایم ظفر اختتامی کمالات اور صدارتی خطاب سے نوازیں گے۔

عام طور پر اس نوع کی تقریر میں محض ایک رسمی کارروائی ہوتی ہے مگر جونہی ظفر صاحب کی زبان سے پہلا جملہ ادا ہوا، یک دم جیسے شور مچاتے ہوئے ہال پر جادو سا طاری ہوگیا اور پہلی بار اس مصرعے کی عملی تصویر دیکھنے میں آئی کہ ’’وہ کہیںاور سنا کرے کوئی‘‘ ان کا انداز اس قدر دلچسپ اور گفتگو ایسی دلچسپ اور معلومات افزا تھی کہ فنون لطیفہ کے ساتھ ساتھ زندگی کے بہت سے دیگر معاملات بھی صاف ہوتے چلے گئے۔ فلم اور ڈرامے کے زوال کے بعد اب یہ ایوارڈز بھی ا پنا تسلسل کھو چکے ہیں مگر ان کی جگہ اب حقوقِ انسانی کی تقریب انعامات میں ظفر صاحب کو سننے کی وجہ سے ان کی آوازاور شخصیت کا جادو پہلے سے بھی زیادہ سرچڑھ کر بول رہا ہے۔

جہاں تک اس کتاب ’’مکالمہ‘‘ کا تعلق ہے جیسا کہ وقار ملک اور خود ایس ایم ظفر کے علاوہ مجیب الرحمن شامی، ڈاکٹر مہدی حسن، داکٹر مجاہد کامران اور مرحومہ بشریٰ رحمن نے بھی اپنے مضامین میں اس کی تصدیق کی ہے کہ ان مکالماتی ملاقاتوں کا سلسلہ 25برس سے زیادہ عرصے پر پھیلا ہے، یہی وجہ ہے کہ بنیادی، اہم اور مخصوص گہرے سوالات کے ساتھ ساتھ ان میں آپ کو اس گزرتے ہوئے وقت کی جھلکیاں بھی نظر آئیں گی۔

وقار ملک صاحب نے کتاب کو 16حصوں میں تقسیم کیا ہے اور ہر حصے میں اس کی مطابقت سے کیے گئے مکالمات کو ایک جگہ پر جمع کر دیا ہے جس کی وجہ سے کسی مخصوص موضو ع کے بارے میں ایک سے زیادہ پہلوؤں کو جگہ مل گئی۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ظفر صاحب کے والد کشفی مرحوم ایک درویش طبع خوددار اور محنت کش آدمی تھے اور ان کے اِن اوصاف کے ساتھ مذہب سے محبت اور تصوف کے تحفے بھی ایس ایم ظفر کوو رثے میں ملے ہیں۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے غربت پرفخر، خود داری اور خوداعتمادی کو ایک دوسرے کے سامنے صف آرا کرنے کے بجائے انھیں اپنی شخصیت کے مستقل پہلو بنا لیا ہے اور جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں انھیں بہت کم عمری میں مرکزی وزیرِ قانون بننے کا شرف بھی حاصل رہا ہے جس کی وجہ سے انھیں اردگرد کی دنیا، بین ا لاقوامی طاقتوں، اجارہ داری کے ظلم، غریب ملکوں کی مجبوریوں اور اعلیٰ انسانی اقدار کو بین الاقوامی سطح پر قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے جس کا مثبت اور قیمتی اثر اُن کی تحریروں اور تقریروں میں ہر جگہ موجود نظر آتا ہے۔ اُن کے مطالعے اور علمیت کی وسعت کو دیکھنے کے لیے آیئے پہلے ہم موضوعات پرایک نظر ڈالتے ہیں اور یہ بھی یاد رہے کہ بعض موضوعات پندرہ سے پچیس تیس تک مکالمے شامل کتاب ہیں۔

(1) حالاتِ زندگی (2) تصور پاکستان (3) انسانی حقوق، حقوقِ نسواں (4) عدلیہ (5) جمہوریت (6) مذہب (7) سائنسی امور (8) مسئلہ کشمیر پاک بھار ت تعلقات (9) مسئلہ فلسطین اسرائیل (10) بین الاقوامی امور (11) اہم قومی مسائل (12) دہشت گردی (13) کالا باغ ڈیم (14) ذرایع ابلاغ (15) طنزو مزاح (16) تفریح (17) متفرق۔

کالم کی تنگیٔ داماں کی وجہ سے میں خواہش کے باوجود ضمنی عنوانات کو درج نہیں کرسکوں گا لیکن مجھے امید ہے کہ اس کتاب کے قارئین اس کے ہر صفحے کو صرف قابل مطالعہ ہی نہیں بلکہ اپنے علم وشعورمیں ایک اہم ا ور گہرا اضافہ محسوس کریں گے سو آخر میں میں ایک دو باتیں بطور نمونہ ہی درج کرپاؤں گا جن سے ظفر صاحب کا مطالعہ، حاضر دماغی اور خوش طبعی تینوں ظہور کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بتاتے ہیں کہ کسی بین الاقوامی قانون دانوں کی کانفرنس میں انھیں ایک بڑے ملک کے جج سے گفتگو کا موقع ملا جو اپنے ملک میں انصاف کے عمل میں رکاوٹوں اور تاخیر پر پریشانی کا اظہار کرر ہا تھا۔

استفسار پر معلوم ہوا کہ یہ سارا نوحہ اس بات کا تھا کہ بعض مقدمات کا فیصلہ ہونے میں پورا ایک سال لگ جاتا ہے جس سے کئی لوگوں کو انصاف وقت پرنہیں مل پاتا۔ ظفر صاحب کہتے ہیں کہ اب میرے لیے یہ مسئلہ تھا کہ اسے کیسے بتایا جائے کہ ہماری طرف تو بعض اوقات دادے کے کیس کا فیصلہ دو نسلوں کے بعد پوتا سنتا ہے۔ میں نے حاضر دماغی اور زبان کے استعمال کا فائد اٹھایا اور اسے بتایا کہ ہمارے یہاں یہ دورانیہ ایک سال سے بھی زیادہ ہوجاتا ہے۔ مقدمے بازی کی قبیح عادت بلکہ لت کے حوالے سے ایک جگہ کہتے ہیں: ’’رہی یہ بات کہ ہم مقدمہ بازی سے گریز کریں، ابھی تک کلچر یہی ہے کہ بات سے بات نکلتی ہے مگر ا ب وقت آگیا ہے کہ بات سے بات نکالنے کے بجائے نئی بات کی جائے‘‘۔

ہالینڈ میں ڈاکٹر عبدالقدیر کے مقدمے کے حوالے سے اُن کی یہ آخری بات انتہائی قابل غور وعمل ہے ’’ا ور مجھے ا ن کے یہ الفاظ یاد بھی آتے ہیں اور تنگ بھی کرتے ہیں کہ ہمارے قائدین نے رسل کی اس خواہش کو پورا نہیں کیا کہ پاکستانی قوم ایک بہتر مستقبل کی حق دار ہے‘‘۔

ظفر صاحب کے اس مکالمے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ واقعی ایک مکالمہ ہے ورنہ ہمارے بیشتر صاحب الرائے لوگ بھی مکالمے کی آڑ میں ’’خود کلامی‘‘ ہی پر زور دیتے ہیں۔ ظفر صاحب جیسے لوگ بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں بہت زیادہ نہیں ہیں، سو ان کی زیادہ عزت کرنا ہم سب پر فرض ٹھہرتا ہے کہ

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔