موسمی امراض

ایم اسلم کھوکھر  جمعـء 14 اکتوبر 2022

تنگ دستی گر نہ ہو غالبؔ

تن درستی ہزار نعمت ہے

اس شعر میں مرزا اسد اللہ خان غالب المعروف مرزا غالب نے بڑے سادھے انداز میں بیان کیا ہے کہ ایک نعمت تن درستی ہزار نعمتوں کے مساوی ہے۔ البتہ شرط یہ ہے کہ تنگ دستی نہ ہو ، مگر حقیقت تو یہ ہے کہ ایک تو اردو زبان کے یہ مایہ ناز شاعر بڑے سادہ لوح و سادہ مزاج تھے دوم یہ کہ غالب کے دور کا انسان عصر حاضر کے انسان کی طرح اس قدر مشکلات کا شکار نہ تھا۔

اس دور میں انسان جن امراض کا شکار ہوتا تھا ان امراض میں موسمی بخار ، کسی انسان کو سردی لگ جانا ، موسمی کھانسی ، نزلہ ، زکام ، پیٹ کے امراض ، سر درد وغیرہ البتہ ایک مرض ایسا ضرور تھا تپ دق (T.B) جوکہ اس وقت لاعلاج مرض تھا۔

البتہ عصر حاضر میں رب کریم کا احسان ہے کہ اس مہلک مرض کا علاج بھی انسان نے دریافت کرلیا ہے اور اب یہ مہلک مرض لاعلاج نہیں رہا۔ ایک صداقت یہ بھی ہے کہ غالب کے دور کے معالجین یا حکما حکمت کے امور فقط انسانی خدمت کے جذبے کے تحت انجام دیتے تھے ان حکما کے نزدیک زر کی وقعت نہ ہوتی تھی بلکہ انسانی خدمت ہی ان کا نصب العین ہوتا تھا نہ کہ حصول زر۔ اسی باعث طب کے پیشے کو مقدس ترین پیشہ قرار دیا جاتا تھا۔

ایک حقیقت اور بھی ہے غالب کے زمانے میں یورپ و چند دیگر ممالک میں سرمایہ داری نظام ضرور فروغ پا چکا تھا البتہ ایشیا میں یہ وبا اس وقت تک نہیں پھیلی تھی۔ پھر وقت کا پنچھی پرواز کرتا رہا، زمانے کے انداز بدلتے گئے، برصغیر آزاد ہوا دنیا کے نقشے پر ایک نیا ملک پاکستان نمودار ہوا۔ چنانچہ آزادی کے بعد پاکستان میں طب کی دنیا میں جو ایک نمایاں ترین تبدیلی دیکھنے میں آئی وہ یہ تھی کہ ہمارے ملک میں یورپی یا مغربی طریقہ علاج فروغ پانے لگا۔

اس طریقہ علاج کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس طریقہ علاج کے اثرات انسانی صحت پر فوری اثرانداز ہوتے ہیں۔ یوں یہ طریقہ علاج اب ہمارے ملک میں رائج ہو چکا ہے ، جہاں ہم نے اس طریقہ علاج کی ایک خوبی کا ذکرکیا ہے وہاں اس طریقہ علاج کی ایک خرابی بھی ہے وہ خرابی یہ ہے کہ یہ طریقہ علاج بہت مہنگا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ عصر حاضر میں یہ جدید طریقہ علاج عام آدمی کی دسترس سے باہر ہو چکا ہے۔

مہذب معاشرے کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ اس معاشرے میں تمام شہری ریاست کی ذمے داری ہوتے ہیں۔ مطلب یہ کہ ریاست کے تمام شہریوں کی تمام بنیادی ضروریات کا خیال رکھنا، ریاست کے لیے لازم ہے۔

البتہ عصر حاضر میں ماسوائے چند ممالک کے کوئی بھی ریاست اپنے شہریوں کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کے معاملے میں لاتعلق ہو چکی ہے، ہمارے اپنے ملک میں جہاں کیفیت یہ ہے کہ ہمارے حکمران چھوٹی سے چھوٹی بیماری کے علاج کے لیے فوری لندن ، امریکا روانہ ہو جاتے ہیں اور سرکاری اخراجات پر اپنا علاج کرواتے ہیں، البتہ یہی حکمران اپنے ملک کے شہریوں کو علاج کی سہولیات فراہم کرنے سے مکمل قاصر ہیں۔ البتہ جب سے صحت کا شعبہ نجی اداروں کے حوالے کیا گیا ہے۔

اس وقت سے عام آدمی کے لیے عام سے مرض کا علاج بھی ناممکن ہو چکا ہے۔ نجی شعبہ کوئی بھی ہو بہ شمول علاج کی سہولیات اس شعبے میں جو سرمایہ کاری ہوتی ہے وہ خالص تجارتی بنیادوں پر ہوتی ہے ناکہ انسانی خدمات کے جذبے کے تحت۔ ان اداروں کی کارکردگی کا عالم یہ ہے کہ اگر کوئی مریض ایک مرض کی تکلیف کے باعث ان نجی اداروں کا رخ کرتا ہے تو اگرچہ وہ مریض ایک مرض کے علاج کی غرض سے آتا ہے مگر ان نجی اسپتالوں میں اس مریض کے 12 سے 15 ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔

میں یہ بات پوری ذمے داری سے عرض کر رہا ہوں۔ اب اس قسم کے طریقہ علاج یا طریقہ کار پر کس قدر اخراجات آتے ہیں یہ تو مریض ہی جانتا ہے۔ اسی تناظر میں نام ور ماہر معاشیات تھائری کا یہ جملہ بیان کیا جائے تو بے محل نہ ہوگا کہ’’ علاج مرض سے زیادہ اذیت ناک ہوتا ہے۔ ‘‘

یوں تو ڈینگی ایک موسمی سا مرض ہے مگر حقیقت میں یہ مرض انتہائی جان لیوا، مہلک مرض ہے۔ اس مرض کے بارے میں تھوڑی سی جان کاری کرلیں تو مناسب ہوگا۔ یہ ایک مخصوص قسم کے مچھر کے کاٹنے سے ہوتا ہے اور اگر یہ مچھر کاٹ لے تو چار سے پانچ یوم میں اس مرض کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ یہ پہلا حملہ دفاعی نظام پر کرتا ہے اور دفاعی نظام کو متاثر کرتا ہے۔

ڈینگی کی چار اقسام ہیں۔ اول درجے میں اگر ڈینگی کا مریض مکمل آرام کرے، وقت پر ادویات لیتا رہے، پانی زیادہ سے زیادہ پیتا رہے تو ڈینگی کا مریض صحت یاب ہو جاتا ہے، لیکن اگر مریض مکمل آرام نہ کرے، وقت پر ادویات نہ لے، ڈاکٹر سے رجوع نہ کرے تو پھر یہ مرض شدت اختیار کر جاتا ہے۔ پھر جو علامات ظاہر ہوتی ہیں۔

ان میں اول تیز بخار، دوم تھوک سے معدے یا پاخانے سے خون آنا، پلیٹ لیٹس کا کم ہونا۔ عرض کردیں کہ ایک صحت مند انسانی جسم میں ساڑھے چار لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ تک پلیٹ لیٹس لازمی ہوتے ہیں البتہ اگر یہ پلیٹ لیٹس پچاس ہزار سے کم ہو جائیں تو مریض کی جان کو تو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں ایسے مریض کو پیشاب کم سے کم آتا ہے ۔

یہ بھی ممکن ہے کہ پیشاب آنا بالکل بند ہو جائے، دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے اور کمزور ہو جاتی ہے۔ فشار خون اگرچہ اوپر کا 120 فیصد و نیچے کا 80 فیصد ہوتا ہے مگر ڈینگی کے مریض کا فشار خون کم ہو جاتا ہے۔ اگر یہ 40 فیصد کم ہو جائے تو مریض کی جان کو شدید خطرات لاحق ہو جاتے ہیں اور ایک علامت یہ ہوتی ہے کہ مریض کی رنگت پیلی پڑ جاتی ہے۔

البتہ چند احتیاطی تدابیر اختیار کر لی جائیں تو اس مرض سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ اول اپنے آس پاس کے ماحول کو صاف ستھرا رکھیں، دوم پانی زیادہ سے زیادہ پئیں، سوم سوتے وقت مچھر دانی لازمی استعمال کریں، چہارم روزانہ غسل کرنے کی عادت اپنا لیں، پنجم جگہ جگہ تھوکنے سے گریز کریں، ششم دھلے ہوئے کپڑے استعمال کریں۔ ہفتم بلاوجہ لوگوں سے ملنے و عوامی مقامات پر جانے سے گریز کریں۔ ایسی صورت حال میں فیس ماسک لازمی استعمال کریں۔

آخر میں ہم وفاقی و صوبائی حکومتوں سے بھی درد مندانہ گزارش کریں گے کہ موسمی امراض سے بچاؤ کے لیے خصوصی اقدامات اٹھائیں۔ ایسے مریضوں کو مفت ادویات کا اہتمام کریں، آبادی والے علاقوں میں امراض سے محفوظ رکھنے والا مچھر مار اسپرے لازمی کروائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔