دستانوں والے ہاتھ!

رئیس فاطمہ  جمعـء 21 اکتوبر 2022
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

ہر طرف ایک مایوسی کا سماں ہے۔ ہر شخص پریشان ہے اور ہر ایک کی زبان پر ایک ہی سوال ہے کہ ’’ملک کا کیا ہوگا؟‘‘ حالات کدھر جا رہے ہیں۔ ملک کے بڑے آپس میں لڑ رہے ہیں، ایک دوسرے پر الزامات کی بارش ہو رہی ہے۔ بالکل ایسا لگتا ہے جیسے انیس و دبیر، انشا اور مصحفی، غالب اور ذوق کی یادیں تازہ ہو رہی ہیں۔

ان تمام معتبر شعرا کے مقابلے اور معرکوں سے ادب کی تاریخ بھری پڑی ہے۔یہ اصحاب اپنے اپنے شاگردوں کی فوج رکھا کرتے تھے جو باقاعدہ ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے تھے، لیکن یہ معرکے ادبی تاریخ کا حصہ اس لیے ہیں کہ ان میں تہذیب و شائستگی ہوتی تھی، جب کہ ہمارے سیاست دان اور ان کے لے پالک مخالفین پر ایسی کیچڑ اچھالتے ہیں کہ جس کی کوئی حد نہیں۔ گالم گلوچ والا کلچر فروغ پا رہا ہے۔

پاکستان کیوں وجود میں آیا، دو قومی نظریہ جس میں بتایا گیا کہ ہندو مسلم ساتھ نہیں رہ سکتے، کیونکہ ایک گائے کھاتا ہے اور دوسرا گؤ ماتا کی پوجا کرتا ہے جب کہ دونوں قوموں کا کلچر کافی حد تک ایک تھا۔ مسلمان ایک اللہ کے ماننے والے اور ہندو بت پرست۔ چلو ٹھیک ہے، بٹوارہ ہو گیا، حصے میں کیا آیا؟ دو علیحدہ سرزمینیں پاکستان کہلائیں۔ بیچ میں وہی ملک جس میں رہنا مسلمانوں کے لیے ایک عذاب تھا۔

ساری سرکاری ملازمتیں ہندو لے جاتے تھے کہ وہ تعلیم میں آگے تھے۔البتہ دفتری اور چپراسی کی ملازمتیں مسلمانوں کے حصے میں آتی تھیں۔

چلیے پاکستان بن گیا، قتل و غارت گری ہوئی، لڑکیوں نے اپنی عصمتیں بچانے کے لیے کنوؤں میں چھلانگیں لگادیں، ان بدنصیبوں میں میری خالہ زاد بہن بھی شامل تھی۔ لٹے پٹے خاندان اپنے گھر، سرمایہ سب کچھ چھوڑ کر وطن کی محبت میں پاکستان آگئے۔ لیکن یہاں کیا ہوا؟ قائد اعظم بیمار تھے، ٹی بی تھی، وہ چل بسے اور زمام حکومت ان دستانے پہنے ہوئے ہاتھوں میں آگئی۔

یہ وہی ہاتھ تھے جنھوں نے سب سے پہلے منتخب وزیر اعظم نواب زادہ لیاقت علی خان کو لیاقت باغ میں کرائے کے قاتل سید اکبر ببرک نے شہید کردیا۔ فوراً ہی موقع پر ایک پولیس افسر نے سید اکبر کو گولیاں مار کر ہلاک کردیا۔ آخر کیوں ایسا کیا گیا؟ سیانے بتاتے ہیں کہ ملک کے لیے پہلے وزیر اعظم ’’خفیہ ہاتھوں‘‘ کا کردار سیاست سے الگ کرنا چاہتے تھے۔

شہادت کے وقت ان کی جیب میں صرف 20روپے تھے اور جب میت اسپتال لائی گئی اور ان کی شیروانی اتاری گئی تو اندر پھٹی ہوئی بنیان تھی۔

سوال یہ ہے کہ انھوں نے مال کیوں نہ بنایا؟ لیکن اس کا جواب بہت آسان ہے اور وہ یہ کہ وہ خاندانی نواب زادے تھے، خاندانی آدمی کبھی پیسہ دانتوں سے نہیں پکڑتا، نہ ہی وہ بے ایمان ہوتا ہے،اگر انھیں زندہ رہنے دیا جاتا اور حکومت بھی ان کی جماعت کی ہوتی تو حالات دگر ہوتے، لیکن اس نوزائیدہ ملک کو سنبھالنے والی قیادت نہیں ملی۔ سب نے باری باری کھایا، کسی نے بینک بنا لیے، کسی نے گیس اسٹیشن اور کسی نے پٹرول پمپ۔ ملک سے کسی کو محبت نہیں، محبت تو بڑی چیز ہے ذرہ برابر خیال بھی نہیں، بس الیکشن کروا لو، ووٹ لے لو اور پھر جیت کا جشن مناؤ اور پھر کہو ’’ میں بھی کھاؤں، تو بھی کھا۔‘‘ یہی اب تک ہو رہا ہے۔

لوگ جہاں بھی اکٹھے ہوتے ہیں یہی بات دہرائی جاتی ہے کہ ملک کا خدا ہی حافظ ہے۔ واقعی اﷲ ہی کا کرم ہے کہ ملک دولخت ہونے کے باوجود اب تک قائم ہے۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ ان کا ’’ٹاکا‘‘ ہمارے روپے سے زیادہ قیمتی ہے۔ ان کی فوج کا سیاست میں کوئی عمل دخل نہیں اور ہمارے ہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔

کبھی آپ نے سوچا کہ آج تک نہ تو لیاقت علی خان کے قتل کا معمہ حل ہوا، نہ بے نظیر کے قتل کا۔ قائد ملت کے قاتل کو زندہ گرفتار کرنے کے بجائے اسے وہیں موقع پر ہی مار دیا گیا، تاکہ خفیہ ہاتھ بے نقاب نہ ہو جائیں۔ ایسا کب تک ہوتا رہے گا؟ سب ایک دوسرے پر ملبہ ڈالتے رہیں گے؟

میں نے شہباز شریف پر دو کالم بھی لکھے تھے، جن کا عنوان تھا ’’کراچی کو شہباز شریف کی ضرورت ہے‘‘ اور ایک ملاقات میں ان سے کہا بھی تھا کہ’’ ان کی توجہ صرف لاہور پر کیوں فوکس رہتی ہے؟ کراچی بھی تو اسی ملک کا ایک ایسا شہر ہے جو 70 فیصد کما کر دیتا ہے۔‘‘ اس پر شہباز شریف نے جواب دیا تھا کہ’’ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، اس لیے وہ کچھ نہیں کرسکتے۔‘‘میں سمجھ گئی تھی کہ یہاں یہ معاملات چل رہے ہیں کہ ہر ایک اپنے صوبے کا مالک ہے، جیسا سلوک چاہے وہ کرے، وفاق دخل اندازی نہیں کرے گا۔

اس ملاقات میں ہمارے بہت سے ساتھی تھے، عقیل عباس جعفری ہمارے ساتھی تھے اور شہباز شریف کی باتیں بھی سن رہے تھے اور ناشتہ بھی کرتے جا رہے تھے۔ عطا الحق قاسمی ہمارے میزبان تھے اور بہت اچھے میزبان تھے۔ جیساکہ میں نے کہا کہ مجھے شہباز شریف بحیثیت ایک لیڈر بہت پسند تھے۔ انتھک محنت اور کوشش کرکے لاہور کو باغوں کا شہر بنانے والے۔

بات ہو رہی تھی دو قومی نظریے کی، جن باتوں کو بنیاد بنا کر برصغیر کی تقسیم ہوئی تھی وہ تو لیاقت علی خان کے قتل کے بعد اپنی موت آپ مر گئیں۔ جہاں تک بت پرستی اور وحدانیت کا تعلق ہے تو ماشا اللہ سارے مسلمان ہیں، پھر کیوں آئے دن بم دھماکے ہوتے ہیں، ایک دوسرے کے گلے کاٹے جاتے ہیں۔

ایک اللہ اور رسول کے ماننے والے کیوں باہم دست و گریباں ہیں، اتنے ہنگامے تو غیر منقسم ہندوستان میں بھی نہیں ہوتے تھے۔ وقت نے ثابت کیا کہ کلچر کی طاقت سب سے زیادہ ہوتی ہے، معاشی طور پر ملک کمزور ہو رہا ہے، مہنگائی آسمان سے بھی اوپر چلی گئی ہے۔

سب سے زیادہ درمیانی طبقہ متاثر ہے کہ ان کا شعور بھی دوسروں کی بہ نسبت زیادہ بیدار ہوتا ہے۔ رہ گئے طبقہ امرا اور وہ طبقہ جو غریب ہے تو انھیں روزی روٹی کے علاوہ کسی اور بات کی فکر نہیں۔ طبقہ امرا اپنی پرتعیش زندگیوں کے ساتھ عیاشیوں میں مگن ہے۔ دستانے والے ہاتھ بھی درمیانے طبقے پر زیادہ نظر رکھتے ہیں، جس کو چاہا اٹھوالیا، تشدد کیا، جان سے مار دیا۔ کس کی مجال کہ ان سے سوال جواب کرے۔

سچ بولنا ممنوع ٹھہرا، جھوٹ بول کر اور خوشامد کرکے صحافیوں نے بڑے بڑے گھر بنا لیے۔ غربت سے نکلنے اور عیش و آرام کی زندگی جینے کا واحد حل خوشامد ہے۔ اسمگلروں، صحافیوں اور دیگر طبقوں کے ان افراد کو دیکھ لیجیے جو خاندانی امیر نہ تھے۔ وہ راتوں رات گھر بیٹھے کیسے امیر بن گئے۔ انھوں نے سمجھ لیا کہ حکمرانوں کو عزت دو، ان کے ہر فعل کو صحیح ثابت کرو اور جان لو کہ آج کا پاکستان شورش کاشمیری کے اس شعر کا مظہر ہے۔

میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو

گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔