ضمنی انتخابات: نتائج نے کیا پیغام دیا ہے؟

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 21 اکتوبر 2022
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

تین صوبوں میں16اکتوبر کے11ضمنی انتخابات کا عمل مکمل ہو چکا ہے۔ الیکشن کمیشن کامیابیوں اور ناکامیوں کے نوٹس بھی جاری کرچکا ہے۔عمران خا ن نے حسبِ توقع 6سیٹوں پر شاندار کامیابی حاصل کرکے ایک بار پھر اپنی مقبولیت کی دھاک بٹھا دی ہے، حالانکہ آرٹی ایس بھی نہیں بیٹھا۔ اتحادی حکومت میں شامل نون لیگ، اے این پی اور جے یو آئی ایف کو بڑی اور بُری شکست ملی ہے۔

پیپلز پارٹی نے البتہ ملتان اور کراچی کی دو قومی سیٹیں جیت کر پھر بھی اپنی ساکھ اور عزت قائم رکھی ہے ۔ نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز اور پوری نون لیگ کو شکست کا زبردست دھچکا لگا ہے۔اے این پی کے غلام احمد بلور اور نون لیگ کے عابد شیر علی نے نتائج کے فوراً بعد کھلے دل سے اپنی شکست تسلیم کر کے اچھے اور بہادر کھلاڑیوں کا ثبوت دیا ہے ۔ اطمینان بخش بات یہ ہے کہ کسی بھی جگہ کسی کاجانی نقصان نہیں ہُوا ہے۔

البتہ ننکانہ صاحب(این اے 118)، ملتان (این اے157)،فیصل آباد(این اے108)، پشاور  (این اے31) اور کراچی(این اے239) میں تصادم بھی ہوئے ، مار کٹائی بھی ہوئی ،سر پھوڑنے کے سانحات بھی سامنے آئے اور فائرنگ کے واقعات نے بھی جنم لیا۔ٹرن آوٹ توقعات کے مطابق خاصی کم رہی۔ FAFENاورECPکے مطابق:مجموعی طور پر صرف 35فیصد ووٹ کاسٹ ہُوئے۔جب ووٹروں کو یہ معلوم ہی نہ ہو کہ اسمبلیوں کا مستقبل کیا اور کتنا ہے تو وہ کیسے اور کیونکر ووٹ کاسٹ کرنے باہر نکلیں گے؟

یہ11 ضمنی انتخابی حلقے پی ٹی آئی ہی کے خالی کردہ تھے کہ قومی اسمبلی سے اُن کے استعفے منظور کر لیے گئے تھے۔ جہاں ضمنی انتخاب ہوئے ہیں ، وہاں زیادہ تر حلقے ایسے تھے جہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔

اِن حلقوں میں وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی اور وزیر اعلیٰ محمود خان کو سیاسی اور اقتداری لحاظ سے بالا دستی حاصل ہے۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ انتظامی طور پر زیادہ تر حلقے عمران خان کی مقتدر پارٹی کے زیر اثر اور زیر نگرانی تھے۔

اِن ضمنی انتخابات کے دوران کئی نکتہ دانوں نے نکتہ آفرینی کرتے ہوئے یہ بنیادی نکتہ بھی اُٹھایا کہ آیا عمران خان ایم این اے ہو کر بھی ایم این اے کا انتخاب لڑ سکتے تھے؟ اور وہ بھی اس حالت میں کہ وہ اسمبلی میں بھی جانا نہیں چاہتے۔ گویا خان صاحب کے لیے سیاست اور الیکشن محض شغل کے سوا کچھ بھی نہیں؟ کیا یہ تماشہ نہیں ہے کہ خان صاحب نے نصف درجن سے زائد ایسے حلقوں سے ضمنی انتخاب لڑا ہے جہاں کے ووٹروں اور اُن کے بنیادی مسائل سے وہ قطعی بے بہرہ اور ناآشنا ہیں۔

کیا وہ سات حلقوں میں اکیلے ہی انتخاب لڑ کر یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ پوری پارٹی میں اُن کے سوا کوئی دوسرا شخص نہ حلقوں میں کھڑا ہونے کی سکت رکھتا تھا اور نہ ہی صلاحیت سے متصف تھا؟ یا وہ اِن سات ، آٹھ حلقوں میں بیک وقت تنہا انتخابات لڑ کر اپنے حریفوں اور سیاسی معاندین کو شرمندہ کرنے کے خواہش مند تھے؟

خان صاحب کی جیتی چھ سیٹوں میں سے ایک وہ خود رکھیں گے اور باقی پانچ پر دوبارہ ضمنی انتخابات کرانا پڑیں گے۔عجب تماشہ ہے!یہ لمحہ فکریہ اس لیے بھی ہے کہ الیکشن کمیشن کے ایک اندازے کے مطابق ایک حلقے میں انتخاب کرانے کے لیے حکومت کو پانچ کروڑ روپے سے زائد کا خرچہ کرنا پڑتا ہے ۔

یہ دراصل قوم سے سنگین مذاق ہے کہ خان صاحب ایک طرف تو قومی اسمبلی کا مقاطعہ کیے بیٹھے ہیں اور دوسری طرف اِسی اسمبلی کے آٹھ حلقوں میں ضمنی انتخاب بھی لڑا ہے۔اِن ضمنی انتخابات کے دوران نون لیگ کا رویہ بھی حیران کن رہا۔ضمنی انتخابات کا چیلنج اور حساسیت جانتے ہوئے بھی نون لیگ کی نائب صدر، محترمہ مریم نواز، کا لندن روانہ ہو جانا اور وہاں اپنے والد گرامی اور برادران کے پاس ڈیرے ڈالنا کسی بھی طرح اُن سے بلند توقعات رکھنے والوں کے لیے ناقابلِ فہم تھا۔

وہ اگر چند روز مزید صبر کر لیتیں اور بعد ازاں لندن روانہ ہوتیں تو اس کا فائدہ یقینی طور پر نون لیگ کو پہنچتا کہ اس دوران وہ ضمنی انتخابات کے لیے لیگی اُمیدواروں کی بہتر کمپین کر سکتی تھیں۔مگر انھوں نے ضمنی انتخابات میں نون لیگی اُمیدواروں کے انتخابی مفاد پر لندن جانے کو ترجیح دی۔ حمزہ شہباز بھی گھر ہی میں بیٹھے رہے۔

مریم نواز صاحبہ کے عجلت میں کیے گئے اِس اقدام اور حمزہ شہباز شریف کے گھر بیٹھے رہنے کا نون لیگ کو بڑا نقصان ہُوا ہے۔ اس نقصان کو ہم سب نے تازہ ترین ضمنی انتخابات میں اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی لیا ہے۔ مجموعی طور پر نون لیگ ان ضمنی انتخابات میں غیر متعلق سی رہی۔

حتیٰ کہ فیصل آباد کا حلقہ بھی نون لیگی سینئر قیادت کی محبتوں اور دلچسپیوں سے محروم ہی رہا۔حالانکہ فیصل آباد کے حلقے کے اُمیدوار، عابد شیر علی، نون لیگ کے قائد جناب نواز شریف کے عزیزوں میں سے ہیں۔

فیصل آباد ہی سے ہمارے وزیر داخلہ اور نون لیگ کی معروف دبنگ شخصیت، رانا ثناء اللہ، بھی تعلق رکھتے ہیں اور بار بار یہیں سے منتخب ہوتے آ رہے ہیں۔

پنجاب حکومت نے مگر گرفتاری کے وارنٹ جاری کرکے فیصل آباد کے ضمنی انتخاب میں رانا صاحب کی ہر ممکنہ مداخلت کے راستے مسدود کر دیے۔ یوں اس حوالے سے وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی اور پی ٹی آئی کے چیئرمین جناب عمران خان کی انتخابی و سیاسی اسٹرٹیجی کی داد دینی چاہیے۔

اِن11 ضمنی انتخابات کے نتائج کا ایک پیغام یہ ہے کہ عمران خان کا یہ بیانیہ کہ میں موروثی سیاست کا مخالف ہُوں، بنیادی طور پر غلط ہے۔وجہ؟ملتان میں انھوں نے خاص طور پر اپنے سابق وزیر خارجہ،شاہ محمود قریشی،کی بیٹی،مہر بانو قریشی، کو پارٹی ٹکٹ دے کر دراصل موروثی سیاست پر یقین رکھنے اور اِسے بڑھاوا دینے پر مہرِ تصدیق ثبت کی ہے۔مہربانو قریشی کا مقابلہ موروثی سیاست کی ایک اور نشانی،سید علی موسیٰ گیلانی،سے تھا۔مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا کے مصداق ، مہربانو قریشی میدان میں رہیں مگر ہار گئیں۔

اُن کی شکست دراصل عمران خان کی شکست ہے ۔اِن11 ضمنی انتخابات اور ان کے نتائج کا ایک پیغام یہ بھی ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان اور چیف الیکشن کمشنر غیر جانبدار ہو کر، فری اینڈ فیئر،الیکشن کروا رہے ہیں، چنانچہ اُمید یہی تھی کہ اب عمران خان الیکشن کمیشن کے سربراہ پر انگشت نمائی کرنے سے باز آجائیں گے ، لیکن ایسا نہیں ہو سکا ہے۔ اُلٹا پی ٹی آئی نے چیف الیکشن کمشنر،سکندر سلطان، کے خلاف جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر دیا ہے ۔

یہ بھی اُمید کی جارہی ہے کہ شاید اب خان صاحب نئی فتح کی سرشاری میں اتحادی حکومت کے خلاف لانگ مارچ بھی نہ کریں اور قومی اسمبلی میں بھی واپس آجائیں۔ان 11 ضمنی انتخابات کے نتائج کا پیغام یہ بھی ہے کہ اب اصل فیصلہ ساز قوتوں اور اتحادی حکومت کو عمران خان کے بنیادی مطالبات تسلیم کر لینے چاہیئں۔ یہ مطالبات کیا ہیں،اِن سے قریباً سبھی آگاہ اور آشنا ہیں۔ عوام نے پچھلے 6 ماہ کے دوران دوسری بار عمران خان کے حق میں واضح فیصلہ سنا یا ہے۔ دونوں بار کے ضمنی انتخابات میں اصل خسارہ نون لیگ کا ہُوا ہے۔

تازہ خسارے پر لندن میں براجمان نواز شریف بھی مبینہ طور پر برہم سنائی دے رہے ہیں۔ اگرنون لیگ کے قائدین لندن کی نشاط انگیز فضاؤں سے یونہی لطف اندوز ہوتے رہیں گے تو انھیں ایسے ہی خساروں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔