امکانات پر نظر رکھیں

قاسم علی شاہ  اتوار 23 اکتوبر 2022
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

جوتے بنانے والی ایک کمپنی نے افریقہ کے کسی دور دراز ملک میں اپنا نمائندہ بھیجا تاکہ وہ وہاں کاجائزہ لے اور کمپنی کے لیے کاروبار کے مواقع تلاش کرے۔

نمائندہ وہاں پہنچا، اس نے جو رپورٹ لکھ کر کمپنی کو بھیجی وہ کچھ یوں تھی: ’’جوتے پہننا یہاں کارواج نہیںسارے لوگ بغیر جوتوں کے پھر رہے ہیں، اس لیے یہاں بزنس نہیں چل سکتا۔‘‘ کمپنی نے کچھ عرصہ بعد ایک اور نمائندہ بھیجا تاکہ وہ ایک بار پھر وہاں کا وزٹ کرے اور بزنس کے مواقع کا جائزہ لے۔

اس نے بھی کچھ دنوں بعد رپورٹ بھیجی لیکن وہ پہلی رپورٹ سے بالکل مختلف تھی۔ اس نے لکھا: ’’پورے علاقے میں کسی کے پاس بھی جوتے نہیں ہیں۔ ہم یہاں بڑے پیمانے پر جوتے بیچ سکتے ہیں۔ یہاں کاروبار کا شاندار موقع ہے۔‘‘

امکانات کو دیکھنا اور بندگلی میں سے بھی راستہ نکالنا، وہ سوچ ہے جس کی بدولت انسان بڑے بڑے بحرانوں میں بھی سرخرو ہو جاتا ہے۔

ہر وہ انسان جس کی سو چ وسیع ہو جاتی ہے وہ زندگی میں ترقی کرنا شروع ہو جاتا ہے لیکن اس کے برعکس جس نے ہر وقت آنکھوں پر ناامیدی کے چشمے لگا رکھے ہوں اور حالات و واقعات میں صرف رکاوٹوں کو دیکھتا ہو تو ایسا شخص انجماد کا شکار ہو جاتا ہے اور کبھی بھی آگے نہیں بڑھ پاتا۔

روزامونڈ اسٹون زینڈر، لیڈرشپ کوچ اور بنجامین زینڈر، ایک میوزیکل ڈائریکٹر ہیں۔ ان دونوں نے مل کر 2000ء میں ایک کتاب لکھی جس کا نام “The Art of Possibility” ہے۔ یہ ایک شاندار کتاب ہے جو انسان کی تخلیقی صلاحیت کو اُجاگر کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ ہم اپنی زندگی کے مسائل اور مشکلات کو کیسے بہترین انداز میں حل کرسکتے ہیں۔

انسان کے اردگرد کئی طرح کے منفی اور مایوس کن حالات ہوتے ہیں، حالات کے اس سخت بھنور کے باوجود خودکو مثبت رکھنا اور اپنی تخلیقی صلاحیت کو مسائل کے حل میں استعمال کرنے کاگر یہ کتاب سکھاتی ہے۔اس کتاب میں 12ابواب ہیں جو قاری کو عملی انداز میں زندگی گزارنے کاڈھنگ سکھاتے ہیں۔آئیے ان کا جائزہ لیتے ہیں۔

(1) ہر چیز ایجادکردہ ہے

ہم اپنی دنیا میں جو کچھ بھی دیکھتے ہیں اور جو بھی کہانیاں ہمارے کان سنتے ہیں یہ سب چیزیں ایجاد کردہ ہیں۔ انسانی ذہن نے ان چیزوں کو پہلے سوچا، پھر اس کو عمل میں لانے کی کوشش کی، بار بار کوشش کی اور آخر کار وہ چیز وجود میں آگئی۔

مثال کے طوپر آپ کے ہاتھ میں موجود موبائل، آپ کی ناک پر لگی عینک، آپ کا لباس، آپ کی میز پر موجود قلم اور کاغذ وغیرہ۔ یہ سب ذہن کی تخلیقات ہیں۔

زمانے کی ترقی کے ساتھ ہر چیز نے ترقی کی۔ ایک زمانے کی کہانی دوسرے زمانے میں بدل جاتی ہے۔ ایک زمانے کی تحقیقات کو دوسرے زمانے کے لوگ جھٹلادیتے ہیں۔ آپ اگر کسی بلڈنگ کے گراؤنڈ فلور پر ہوں تو آپ کو چند ہی چیزیں نظر آئیں گی لیکن اگر آپ اس بلڈنگ کی پندرھویں منزل پر جاکر نیچے دیکھیں تو وہاں کا نظارہ ہی الگ ہوگا۔اس دنیا میںہر نظریہ اور ہر کہانی نے بدلنا ہے۔

آپ ہر چیز کو اپنے بہترین مستقبل کے تناظر میں دیکھیں۔امکانات پر نظر رکھیں اور خود کوایک شاندار کہانی سنائیں تاکہ یہ آپ کے جذبوں کوتازگی دے اور پھر اس کہانی کو وجود میں لانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔

(2) امکانات والی دنیا کی طرف بڑھیں

ہم ایک مشروط زندگی گزاررہے ہیں۔ یہاں ہر چیز کو ماپا اور تولاجاتاہے۔ ’’آپ یوں کروگے تو کامیاب ہو جاؤ گے۔ آپ کے پاس یہ چیزیں ہیں تو آپ کی زندگی آسان ہے۔‘‘ یہ وہ باؤنڈری ہے جس نے انسان کو گھیر لیا ہے۔

ہمیں چاہیے کہ ایسی شرائط کے بجائے امکانات کی طرف دیکھیں۔ امید پسند بنیں۔ اپنے آپ سے پوچھیں کہ میرے لیے بہترین امکانات کیا کیا ہوسکتے ہیں اور مایوسی کا وہ کون سا خیال ہے جو میری سوچ کو محدود بنارہا ہے۔ اپنے دل کو امکانات کے لیے کھول دیںاور ان کی طرف بڑھنا شروع ہوجائیں۔

 (3) Aگریڈ دیں

قدرت نے آپ کو جو صلاحیتیں اور قابلیتیںدی ہیں ان کی بدولت دوسروں کی مدد کریں۔ آپ کے اردگرد جو لوگ ہیں انھیں Aگریڈ دیں یعنی اپنا بہترین آپ۔ اگر ان میں سے کوئی کمزور انسان ہے تو اس کی عزت کریں.

اس کوبہتر بنائیں اور اس کو Aگریڈ تک لانے کی کوشش کریں۔ جب آپ کسی کواس کی منزل پر پہنچائیں گے تو وہ دل و جان سے آپ کی عزت کرے گا۔

(4) اپنا حصہ ڈالیں

روز صبح اٹھ کرایک نئے دن کا شکریہ ادا کریں اور یہ عزم کریں کہ قدرت نے صلاحیت، قابلیت اور بہترین شخصیت کی صورت میں مجھے جو تحفہ دیا ہے۔

اس کی بدولت میں اپنے کام کو شاندار کیسے بنا سکتا ہوں۔ مثال کے طور پر آپ نے اگر کہیں پریزنٹیشن دینی ہو تو آپ کو یہی فکر ہوگی کہ معلوم نہیں لوگوں کو یہ کیسی لگے گی اوریہ چیز آپ کو تناؤ میں ڈال دیتی ہے لیکن اگر آپ اپنی تمام قابلیت اپنے کام کو بہتر کرنے میں لگا دیں گے اور خود کو پرسکون کرلیں گے تو آپ اس پریشانی سے بچ سکتے ہیں۔

روزانہ یہ سوچیں کہ میراکام کس قدر اہمیت کا حامل ہے۔ اپنے کام کوکمال کے ساتھ تکمیل تک پہنچاناکس قدر ضروری ہے اور اگر میں اپنے کام کو بہترین انداز میں مکمل کر لوں تو اس کا میری شخصیت پر کیا اثر ہوگا؟

یاد رکھیں کہ آپ بہترین پرفارمنس تب دے سکتے ہیں جب آپ ماضی کو بھلادیں، مستقبل کے اندیشوں کو ذہن سے نکال دیں اورلمحہ موجود میں رہیں۔ وہ کون سی رُکاوٹ ہے جو آپ کی زندگی میں آنے والی ہے، اس سے ٹمٹنے کی تیاری پہلے ہی کر لیں اور اس رکاوٹ کوتوڑ کر رکھ دیں تاکہ آپ آسانی سے آگے بڑھ سکیں۔

(5) حوصلہ افزائی بھری قیادت

اپنی صلاحیت اور قابلیت کے مطابق لیڈرشپ کا کردار ادا کریں۔ یہ بات یادرکھیں کہ رہنما کی حیثیت سے آپ نے اپنی قابلیت کواپنی ذات کے لیے بھی استعمال میں لانا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے ماتحت افراد یا اپنے دوست احباب کے بہترین کاموں کی بھی حوصلہ افزائی کرنی ہے۔

لوگوں کے اندر کا بڑا پن باہر نکالنے کی کوشش کریں۔ ہر ایک کو اپنے ساتھ ملائیں۔کوئی بھی مسئلہ ہو تو اکھٹا ہوکر اس کو حل کرنے کی کوشش کریں۔

(6) اصول نمبر6

یہ اس کتاب کا ایک بہترین اصول ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی میں حد سے زیادہ سنجیدہ نہیں ہونا چاہیے۔ ’’یہ کیا ہو رہا ہے، میرے ساتھ ہی کیوں، پتا نہیں کیا بنے گا‘‘جیسے جملے انسان کی انرجی کو مسلسل ختم کرتے جاتے ہیں۔

زندگی میں کچھ نہ کچھ شگفتہ مزاجی اور ہنسی مذاق بھی ہونا چاہیے۔ اگر آپ زندگی کو بوجھ بناکر گزاریں گے تو بہت جلدآپ کے اعصاب تھک جائیں گے۔ جیسے بھی حالات ہوں، اپنے مزاج میں مزاح کا پہلو زندہ رکھیں۔ بدترین حالات کو بھی ہلکا پھلکا بنانے کی کوشش کریں۔ اس عادت سے لوگ بھی آپ کو پسند کریں گے اور آپ کے قریب آنا چاہیں گے۔

(7) حالات کو قبول کریں

زندگی کے وہ حالات اور چیزیں جنھیں آپ تبدیل نہیں کرسکتے تو انھیں اسی طرح جانے دیں۔ ان چیزوں کو دیکھیں جو آپ کے دائرہ اختیار میں ہیں اور جو اس دائرے سے باہر ہیں، ان کے لیے فکر مند نہ ہوں۔ جب آپ اس چیز کوتسلیم کرلیں گے تو آپ کے اندر آگے بڑھنے کاجذبہ مزید بڑھ جائے گا۔

یادرکھیں! معاشرے کے لیے فائدہ مند چیزتخلیق کرنا آپ کی صلاحیتوں کا بہترین استعمال ہے۔ اپنادل امکانات کے لیے کھول دیں، صرف اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ معاشرے اور پوری قوم کے لیے سوچیں۔ آپ اپنی سوچ کے دائرے کو جس قدر بڑا کریں گے آپ کے کاموں کا اثر بھی اسی قدر بڑا ہوگا۔

(8) جذبہ تازہ دم رکھیں

آپ نے پہاڑوں سے نکلتے دریا کو دیکھا ہوگا۔ وہ کس قدر زور و شور کے ساتھ نیچے کی طرف بہہ رہا ہوتا ہے۔ وہ پیچ در پیچ راستہ بناتے ہوئے اور نشیب کی طرف بڑی روانی کے ساتھ بہتا ہے۔ دراصل وہ اپنی پچھلی زندگی چھوڑکر نئی زندگی کی طرف بڑھتا ہے۔

آپ بھی زندگی کے ہر پل کوجوشیلے انداز میں گزاریں۔ اپنی منزل کی طرف پورے جذبے کے ساتھ بڑھنا شروع کریں، مستقل مزاجی کے ساتھ لگے رہیں اور اپنے اندر دریا کی سی روانی پیدا کریں تو آپ یقینی طور پر اپنی منزل تک پہنچ جائیں گے۔

 (9) مشعل روشن کریں

قدرت نے آپ کو ایک زبردست قسم کی مشعل دی ہے۔ اس مشعل سے آپ نہ صرف اپنی زندگی کا رستہ ڈھونڈسکتے ہیں بلکہ دوسروں کی زندگی میں اُجالابھی لا سکتے ہیں۔ کسی کام میں اپنا جنون (passion) دریافت کرنا آسان کام نہیں۔

شاید آپ کو بھی یہ مشکل لگے لیکن آپ یہ تو کرسکتے ہیں کہ اپنی مشعل سے دوسروں کے چراغوں کو روشن کریں۔ ان کا جنون دریافت کرنے میں مددکریں۔ انھیں اپنے کردار و اخلاق سے انسپائر کریں اورانھیں ہمت و حوصلہ دیں تو عین ممکن ہے کہ ان کی زندگی ہی بدل جائے۔

(10) بِساط بن جائیں

دوسروں کو الزام دینا بند کریں۔ انھیں جانچنا اور پرکھنا چھوڑیں۔ زندگی کے اچھے برے حالات کی ذمہ داری خود قبول کریں۔ اپنے وژن کو بڑھائیں۔

جب آپ انسانو ں کو اچھے برے کے لیبل کے بغیر تصورکرنا شروع ہو جائیں گے تو آپ کی مثال شطرنج والے بورڈ کی طرح ہو جائے گی جس پر امکانات کی پوری دنیا موجود ہوتی ہے۔ اب آپ خود کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتے ہیں لیکن اگر آپ نے خود کو محدود کرلیا یا دوسروں کو الزام دینا شروع کر لیا تو آپ کی تخلیقی صلاحیتیں ماند پڑجائیں گی۔

(11) امکانات کی دنیا بنائیں

لوگ زندگی میں کچھ بڑا کرنا چاہتے ہیں ، وہ آگے بڑھنا چاہتے ہیں، وہ مشین کی طرح ایک لگی لپٹی زندگی نہیں چاہتے۔ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ انھیں ایک عظیم وژن کے لیے انسپائر کریں، انھیں متحد کریں، ان کے لیے امکانات کی دنیا بنائیںاورانھیں معاشرے کی خدمت کے لیے تیار کریں۔ آپ انھیں یہ تصور دیں کہ جب انسان ایک دوسرے کے ساتھ مددگار بنتے ہیں تو ان کے مسائل حل ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔

(12) ’’میری کہانی‘‘ کی جگہ ’’ہماری کہانی‘‘ بنائیں

ہمارے معاشرے میں ہر شخص ’’میں‘‘ اور’’تو‘‘ کی گردان کر رہا ہوتا ہے۔ یہاں انفرادیت کی سوچ زیادہ جبکہ اجتماعیت کی سوچ بہت کم ہے۔

آج انسانیت کو اجتماعیت کی بہت ضرورت ہے۔ اگرکسی انسان کے گھٹنے میںشدید درد ہو تو اس کی ساری توجہ درد والی جگہ پر ہوتی ہے۔ اس کا ذہن اسی کے بارے میں سوچتاہے۔ آنکھیں درد کی دوا تلاش کر رہی ہوتی ہیں۔ ہاتھ بھی اسی جدوجہد میں ہوتا ہے کہ کچھ ایسا کیا جائے جس سے گھٹنے کادرد کم ہو جائے۔ ہم سب انسانوں کی مثال بھی ایک جسم کی طرح ہے۔

ایک کے دردکو سب کا درد ہونا چاہیے اور یہ احساس تب ہی مضبوط ہوگا جب ہم اپنی بول چال میں ’’میں‘‘ کی جگہ ’’ہم‘‘ کا لفظ استعمال کرنا شرو ع کردیں۔ ’’میری کہانی‘‘ کے بجائے ’’ہماری کہانی‘‘ بنائیں۔

کتاب پر مشہور شخصیات کے تاثرات
٭ The Art of Possibilityایک حقیقی طاقت ہے، ہر اس شخص کے لیے جو شخصی تعمیر اور اطمینان بھری زندگی چاہتاہے۔ (کلاس سکواب، بانی: ’’ورلڈ اکنامک فورم‘‘)

٭ یہ کتاب ایک شاندار مستقبل بناتی ہے۔ یہ اپنے پڑھنے والے پر اس کی نایاب قابلیت کھولتی ہے جس کی بدولت وہ نئی چیزیں تخلیق کر سکتا ہے۔ یہ ایسی سرگرمیاں ہیںجو انسانی تخیل کو ایک لامحدود توانائی میںداخل کر دیتی ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ ہر انسان یہ کتاب پڑھے۔ (مارگریٹ جے وائیٹلے،لیڈرشپ آتھر)

٭ یہ کتاب مجھے پسند ہے۔یہ ایک سبق آموز، تحریک دینے والی اور ترقی دلانے والی کتاب ہے۔ اس کتاب میں موجود آئیڈیاز انسان کی زندگی میں نئے امکانات لاتے ہیں اور اس کی تخلیقی صلاحیت کوبیدارکرتے ہیں۔ شخصیت سازی پررہنمائی دینے والی یہ کتاب قاری کے لیے ایک نعمت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسروں کی رہنمائی کرنے کاایک بہترین ذریعہ بھی ہے۔ یہ کتاب حقیقی معنوں میں ایک جوہر ہے۔ (پیٹر جے فروسٹ، یونیورسٹی آف برٹس کولمبیا)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔