نقار خانے میں…

اطہر قادر حسن  بدھ 26 اکتوبر 2022
atharqhasan@gmail.com

[email protected]

معلومات کے تیز ترین زندگی میں بہت زیادہ اہمیت اختیار کر گئے ہیں ، بعض اوقات یہ چیختی چنگھاڑتی معلومات انتہائی تکلیف دہ بھی ہوتی ہیں ۔ اچھے وقتوں میں صبح اخبارات کا انتظار ہوتا تھا اور جب تک ہاکراخبار گھر پہنچا نہیں دیتا تھا صبح کا آغاز نہیں ہوتا تھا۔

مدتوں یہی معمول رہا اور صبح کا آغاز اخبارات کی آمد پر ہی ہوتا تھا، اگر کسی روز اخبارات کی چھٹی ہوتی تھی تو گزشتہ روز کے کچھ اخبارات سنبھال کر رکھ دئے جاتے تھے تاکہ ان کا مطالعہ اخبار کی چھٹی والے روز کیا جا سکے ۔

ہر پاکستانی کی طرح میں بھی ایک انتہائی غیر یقینی کیفیت سے دوچار ہوں حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ میرے ملک کا مستقبل کیا ہوگااور ہمیں ناکردہ گناہوں کی اور کتنی سزا بھگتنی پڑے گی۔

کسی ملک کا نظام حکومت صدارتی ہو یا پارلیمانی اس میں آئیڈیل سیاسی صورتحال یہ سمجھی جاتی ہے کہ اس میں دو بڑی پارٹیاں کار فرما ہوں جس طرح امریکا اور برطانیہ میں یہ صورتحال موجود ہے ۔ عوام کے لیے بڑی آسانی ہوتی ہے کہ وہ دوپارٹیوں کا موازنہ کریں اور ان کے بارے میں اپنی رائے کو پختہ کر سکیں۔

پاکستان میں گزشتہ کئی دہائیوں تک یہی صورتحال رہی جب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز دو بڑی سیاسی پارٹیاں تھیں لیکن قومی سیاست میں جب بھی غیر سیاسی قوتوں نے بے جامداخلت کی تو پاکستان میں سیاسی استحکام کا خاتمہ ہو گیااور سیاسی زندگی انتشار کا شکار ہو گئی۔

آج مسلم لیگ کے نام کی جماعتوں کی اچھی خاصی تعدادسیاسی میدان ہے۔ علماء حضرات کی سیاسی میدان میں موجودگی بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ انہوں نے درس و تدریس سے نکل کر سیاسی میدان میں اپنی جگہ بنا لی ہے ۔لیکن ہماری یہ دینی جماعتیں کبھی ایک نظام حکومت پر متفق نہ ہو سکیں اور انہوں نے ہمیشہ بڑی جماعتوں کے طفیلیوں کا کردار ہی ادا کیا ہے۔

دو پارٹی نظام سے بات شروع کی تھی جو خیالات کی پریشانی کی وجہ سے کہیں اور نکل گئی۔ عمران خان نے پاکستان کے دو جماعتی نظام میں کامیاب نقب لگائی اور عوام کو اپنی جانب راغب کیا۔ پاکستان کے عوامی سیاسی حلقوں میں جب ماضی میں ملک کی سیاسی پارٹیوں کے رجحانات اور پالیسیوں کا تجزیہ کیا جاتا تو ایک بات عام طور پر کہی جاتی رہی کہ پاکستان کے تین لیڈروں میاں نواز شریف، عمران خان اور جماعت اسلامی کے منتخب امیر کے سیاسی خیالات بہت ملتے ہیں۔

یہ رہنماء بائیں بازوں کی نمائندگی کا پرچار کرتے ہیں اس لیے ایک عمومی خیال یہ کیا جاتا رہا کہ انہیں مل کر پاکستانی سیاست میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

عوام میں ان کا سیاسی اثر ورسوخ اور خیالات کی ہم آہنگی عوام کی رہنمائی کر سکتی ہے لیکن ان تینوں ہم خیال شخصیات نے اپنی سیاسی راہیں جدا کر لیں اور اپنے لیے الگ الگ سیاسی راستوں کا انتخاب کیا جس میں عمران خان تو طویل سیاسی جدو جہد کے بعد وزیر اعظم کی کرسی تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تھے لیکن وہ اپنی اس کامیابی کو سنبھال نہ پائے اور آج توشہ خانہ ریفرنس میں اپنی سیٹ سے بھی نااہل ہو چکے ہیں۔

جس کے بعد ان کا نئے انتخابات کا مطالبہ مزید زور پکڑرہا ہے اور وہ لانگ مارچ اور اسلام آباد پر چڑھائی کی دھمکیاں دے رہے ہیں جبکہ میاں شہباز شریف اور ان کے حلیف اس بات پر بضد ہیں کہ آئنی مدت مکمل ہونے کے بعد ہی انتخابات ہوں گے ۔ عمران خان جو طعنے اور طنزکے نشتر میاں صاحبان اور زرداری پر گزشتہ کئی برس سے برسا رہے ہیں نااہلی کے بعدوہیں نشتر اب عمران خان پر برسائے جا رہے ہیں، محسوس یوں ہوتا ہے کہ حساب برابر کیا گیا ہے اور سب کر رہے ہیں آہ و فغان سب مزے میں ہیں والا معاملہ ہو گیا ہے۔

جماعت اسلامی نے جداگانہ طرز سیاست کو ترجیح دی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اپنے قدرتی سیاسی حلیفوں سے الگ ہو کر سیاسی میدان میں تنہائی کا شکار ہو گئی ہے۔نواز لیگ کے قائدمیاں نواز شریف وزیر اعظم کے منصب سے معزولی کے بعد خرابی طبیعت کی بنا پر لندن چلے گئے اور آج وہ پاکستان واپسی کا ٹکٹ تھامے پرواز کے منتظر ہیں جبکہ پاکستان میں ان کے بردارخورد میاں شہباز شریف پیپلز پارٹی کی حمایت سے وزرات عظمیٰ کی کرسی پر متمکن ہیں اور تنہا سیاسی بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں ۔

ملک کے پریشان کن معاشی اورسیاسی حالات میںتوقع اور قیاس آرائیاں یہ کی جارہیں کہ مارچ یا اپریل میں قومی الیکشن منعقد کر کے نئی حکومت کو بجٹ بنانے کا موقع دیا جائے تا کہ نئی حکومت روز اول سے ہی معیشت کی بحالی کی ذمہ دار ہو، ماضی کی کسی حکومت کو مورود الزام ٹھہرا کراس کے کندھے پر رکھ کر بندوقیں نہ چلائی جائیں اوریہ بوجھ نئی منتخب حکومت خود اٹھائے‘ سیاسی لیڈر ایک دوسرے کا مینڈیٹ تسلیم کریںلیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔