لانگ مارچ یا شارٹ مارچ

ڈاکٹر منصور نورانی  پير 31 اکتوبر 2022
mnoorani08@hotmail.com

[email protected]

جس لانگ مارچ کا چرچا گزشتہ چھ ماہ سے بڑے شد و مد کے ساتھ کیا جا رہا تھا اور جس کی تیاری بھی بڑے زور شور سے کی جا رہی تھی وہ ابھی تک اپنا رنگ نہیں جما پایا ہے۔

خود تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اپنے ہر جلسے میں شرکاء سے اس مارچ میں بھر پور شرکت کی غرض سے باقاعدہ حلف بھی لیتے رہے مگر اس مارچ کا یہ حال کہ بعد دوپہر شروع ہوتا ہے اور رات نو بجے اس کے اختتام اس اعلان کے ساتھ کر دیا جاتا ہے کہ کل پھر کسی اور مقام سے اس مارچ کا اجرا ہوگا۔

یعنی یہ پاکستان کی تاریخ کا عجیب و غریب لانگ مارچ ہے جس کے ’’ لانگ ‘‘ ہونے کا دور دور تک کوئی شائبہ تک نہیں ہے۔ یہ شہر کے کسی ایک مقام سے شروع ہوتا ہے اور چند میل کا فاصلہ طے کر کے خود بخود دم توڑ دیتا ہے۔

مارچ کی اس خامی کو بھی ایک حکمت عملی اور اسٹرٹیجی قرار دے کر اپنی خفت مٹانے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔ خان صاحب کو اپنے اوپر بہت فخر اور ناز تھا کہ اُن سے اچھا اور بہتر جلسہ اور مارچ کوئی نہیں کرسکتا ہے ، حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ اس ملک میں بہت سے لانگ مارچ بھی ہوئے ہیں جو کراچی سے شروع ہو کر مسلسل سفر کرتے ہوئے اپنی مقررہ منزل پر کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر بھی ہوئے۔

2009 میں عدلیہ بحالی کے لیے کیا جانے والا لانگ مارچ میاں نوازشریف کی قیادت میں اسلام آباد پہنچنے سے پہلے ہی کامیابی سے ہمکنار ہوگیا تھا۔

اسی طرح 2019 میں مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں نکالا جانے والا لانگ مارچ بھی کراچی سے روانہ ہو کر اسلام آباد میں اپنی منزل مقصود تک ضرور پہنچا اور کئی دن تک وہاں ڈیرہ بھی ڈالے رکھا۔ خان صاحب دراصل ابھی تک اپنے اس دور کے سحر سے باہر نہیں نکلے ہیں جب 2014 میں وہ کسی غیبی قوت کی مدد سے لانگ مارچ لے کر نکلے تھے اورجس میں شرکت کرنے والوں کی بہت بڑی تعداد علامہ طاہر القادری کی پارٹی پاکستان عوامی تحریک اور اُن کے مدرسوں کے طلبہ کی تھی۔

خان صاحب کی حمایت کرنے والے تو اس طرح کی تکالیف برداشت کرنے والے ہرگز نہیں ہیں۔ وہ ایک تفریح کے طور پر سر شام کسی جلسہ میں شرکت تو کرسکتے ہیں لیکن میدان یا سڑکوں پر پڑاؤ ڈال کر رات دن وہاں رہ نہیںسکتے۔ اُن کی حمایت کرنے والے بیشتر افراد اس ملک کے امیر اور آسودہ طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں جو اس قسم کی تکالیف کبھی برداشت کر ہی نہیں سکتے ہیں۔

وہ خان صاحب کے جلسوں میں بھی شرکت محض تفریح اور انجوائے منٹ کے طور پر کرتے ہیں ، وہ تو پہلے ہی آزاد ہیں اور مراعات یافتہ بھی ہیں، انھیں آزادی مارچ سے بھلا کیا لینا دینا۔

انھیں خان صاحب کی سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں ہے وہ تو صرف خان صاحب کی پرسنلٹی کے دلدادہ ہیں اور وہ اُن کی چکنی چپڑی باتیں سننے کے لیے اُن جلسوں میں شرکت کرنے کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔ وہ کسی قربانی کے لیے نہ پہلے کبھی تیار تھے اور نہ کبھی ہونگے۔

وہ آرام پسند لوگ ہیں انھیں سڑکوں پر رلنے سے کوئی سروکار بھی نہیں ہے۔ خود خان صاحب کی طبیعت بھی یہ تکالیف اور عذاب برداشت نہیں کرسکتی ہے۔ 2014 کے دھرنے میں بھی وہ رات اپنے گھر بنی گالا پہنچ کر آرام کر لیا کرتے تھے اور اُن کے حامی بھی اُن کی یہ حرکت دیکھ کر ڈی چوک سے غائب ہو جایا کرتے تھے۔

اسی چیز کو دیکھتے ہوئے علامہ صاحب نے بھی دھرنے سے واپسی کا اعلان کر ڈالا تھا اور جس کے بعد خان صاحب کے پاس اس دھرنے کو لپیٹ دینے کے سوا کوئی چارہ باقی نہ رہا تھا۔

لانگ مارچ اور دھرنا دینا اس ملک کے غریبوں اور مصائب زدہ لوگوں کا تو مشن ہوسکتا ہے امیر اور آسودہ لوگوں کا نہیں۔ پرسکون اور پر آسائش گھروں سے نکل کر پتھریلی زمین اور میدانوں میں راتیں گذارنا PTI کی حمایت کرنے والوں کے مزاج اور طبیعت کو کبھی گوارہ نہیں ہوسکتا۔

خان صاحب کو یہ بات اب سمجھ لینی چاہیے۔ ویسے بھی اس ملک میں یہ بات ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ جب تک کسی سیاسی پارٹی کو پس پردہ قوتوں کی حمایت اور سپورٹ حاصل نہیں ہوگی وہ کبھی بھی کسی تحریک کے ذریعہ کامیاب نہیں ہوسکتی ہے۔

یہاں یہ بتانا بھی بہت ضروری ہے کہ 25 مئی کے اپنے لانگ مارچ کی ناکامی کے بعد خان صاحب بڑے سوچ و بچار کے ساتھ قدم اُٹھانا چاہ رہے تھے اور کسی ایسے موقع کی تلاش میں تھے کہ کوئی انہونا واقعہ ہوجائے اور قوم کے غم وغصہ کو وہ فوراً کیش کروا سکیں۔

اسی لیے پہلے اعلان کیا گیا کہ جمعرات یا جمعہ کو وہ لانگ مارچ کی حتمی کال کی تاریخ دے دیں گے لیکن جیسے ہی مرحوم ارشد شریف کی ناگہانی موت کا افسوسناک واقعہ ہوتا ہے اور خان صاحب منگل کو یعنی اپنے وعدے سے دو تین دن پہلے ہی مجوزہ لانگ مارچ کا اعلان کر ڈالتے ہیں۔

وہ سمجھ رہے تھے کہ عوامی غم و غصہ اُن کے اس لانگ مارچ کو زبردست طاقت اور قوت بخش دیے گا ، مگر انھیں پتا نہیں تھا کہ انسان پلاننگ تو بہت کرتا ہے لیکن جب خدا کو منظور ہی نہ ہو تو انسانوں کی بنائی ہوئی ساری پلاننگ دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔

پچھلا ہفتہ سیاسی منظر نامے میں پریس کانفرنسوں کے حوالے سے بہت اہم رہا اور خان صاحب جو سوچ رہے تھے وہ ممکن نہ ہوسکا۔ بلکہ اُلٹا لانگ مارچ میں عوام کی عدم دلچسپی نے اس مارچ کو لانگ کے بجائے شارٹ مارچ میں تبدیل کر دیا۔

خان صاحب اب ایک مقام پر لوگوں کو جمع کرتے ہیں اور ایک تقریر کر کے پتلی گلی سے واپس نکل جاتے ہیں۔ پیچھے رہ جانے والے اُن کے رفقاء بھی بعد ازاں اس مارچ کو لپیٹنے اور دوسرے روز ایک نیا مارچ شروع کرنے کا اعلان کر کے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ لگتا ہے اب وہ اپنا بھرپور پاور شو اسلام آباد میں اگلے جمعہ کو ہی دکھائیں گے۔ اس کے لیے وہ تازہ دم ہوکرایک زبردست اجتماع کر کے حکومت کو ٹف ٹائم بھی دیں گے۔

انھیں اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ اس معرکہ میں عوام کی کتنی جانیں جاتی ہیں یا اس سے اس ملک کو کتنا نقصان ہوتا ہے۔ مارشل لاء بھی لگ جائے تو وہ اسے اپنی کامیابی ہی تصور کریں گے ۔

اُن کے اس طرز عمل اور خیال کے حامی اُن کے سارے ساتھی بھی ہیں ۔ ان کے حامی کچھ سیاستدان تو پہلے دن سے ہی یہی چاہتے ہیں کہ خون خرابہ ہو اور وہ عوامی غیض وغضب سے فائدہ اُٹھا کے اس حکومت کو چلتاکر پائیں ، حالانکہ اگر مقصد صرف نئے الیکشن کروانا ہی ہوتا تو خان صاحب کے پاس KPK اور پنجاب کی اسمبلیاں توڑنے کا آپشن ہی بہت کارآمد ثابت ہوسکتا تھا ، لیکن وہ اس آسان آپشن کو استعمال کر کے بلاوجہ حکومت کی مدد کرنا نہیں چاہتے تھے ، وہ تو فساد اور ہنگامہ آرائی کر کے عوام کی اپنے حق میں حمایت اور حکمرانوں کے لیے نفرت پیدا کرنے کے مشن کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔

علی امین گنڈاپور کی مبینہ حالیہ آڈیو لیک اس بات کی اور اُن کے ایسے ارادوں کی واضح نشاندہی کرتی دکھائی دیتی ہے کہ اگلے جمعہ کو ہونے والے مارچ کی تیاری زوروں پر ہے ، جو مقاصد ارشد شریف کے شہادت سے حاصل نہ ہو پائے ہیں وہ اس خون خرابے سے حاصل کیے جائیں۔

انسان اپنے طور پر کیا کیا پلاننگ کرتا ہے لیکن آسمانوں پر موجود ایک قوت کی پلاننگ کے آگے ساری ہیچ اور بے وقعت ہو کر رہ جاتی ہیں۔ اس بار بھی خدا نے چاہا تو انشاء اللہ ایسا ہی ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔