غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات

سلمان عابد  منگل 1 نومبر 2022
salmanabidpk@gmail.com

[email protected]

پاکستان غیر معمولی حالات سے گزررہا ہے۔ بحران سیاسی و معاشی بھی ہے لیکن اس سے بڑھ کر بڑا بحران باہمی ٹکراو کا بھی ہے۔

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ مکالمہ، مفاہمت او رکچھ لو یا کچھ دو کی بنیاد پر سیاسی مفاہمت کا کھیل ختم جب کہ ایک دوسرے پر سیاسی برتری یا بالادستی کی جنگ عروج پر ہے۔کچھ لوگوں کے خیال میں بحران کی وجہ مختلف فریقین کے سخت گیر مزاج، سخت شرائط یا اپنی مرضی کی شرائط کے بغیر سمجھوتہ نہ کرنا، اناپرستی یا خود کو دوسروں کے مقابلے میں برتری سے جوڑ کر دیکھنا جیسے امور مفاہمت کی سیاست میں رکاوٹ بن گئے ہیں۔

سیاست اور جمہوری عمل میں جو فیصلہ سازی کے تناظر میں ایک سیاسی لچک درکار ہوتی ہے اس کا واضح طو رپر ہمیں فریقین کے درمیان فقدان غالب نظر آتا ہے۔ ٹکراؤکی یہ کیفیت سیاست، جمہوریت اور ملکی ریاست کے مفاد میں نہیں ہے۔ ایک ایسے موقع پر جب ہم بطور ریاست داخلی اور علاقائی یا عالمی مسائل میں الجھے ہوئے ہوں ایسے میں ٹکراؤ کا یہ سیاسی ماحول ہمیں کیسے موجود سنگین بحران سے نکلنے میں مدد کرسکتا ہے۔

بظاہر جو بند دروازے ہیں ان کو کھولنے کے لیے اول تو کوئی تیار نہیں او رجو کھولنا چاہتے ہیں وہ اپنی برتری کو بنیاد بناکر سمجھوتہ کرنا چاہتے ہیں ، جو ممکن نظر نہیں آرہا ۔

کچھ لوگ پاکستان کے بحران کو سیاسی بحران کی آنکھ سے دیکھنے کی کوشش کررہے ہیں جب کہ یہ بحران محض سیاسی نہیں بلکہ ریاستی سطح پر موجود ایک بڑے بحران کی نشاندہی کررہا ہے۔ اس کا علاج اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہم مسائل کی باریک بینی یا حقایق کو مدنظر رکھ ان کی درست سطح کی تشخیص کریں گے ۔

کیونکہ اگر مرض کی درست تشخیص نہ ہو تو اس کا علاج بھی درست طریقے سے نہیں ہوگا اورجو علاج ہم کرنے کی اپنی سطح پر کوشش کررہے ہیں وہ مطلوبہ نتائج نہیں دے سکے گا ۔پس پردہ حکومت ، عمران خان اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان مفاہمت کی جو سنجیدہ کوشش ہورہی تھی وہ بھی نتیجہ خیز نہیں ہوسکی۔

اس کا اعتراف حکومت ، عمران خان او راسٹیبلیشمنٹ نے کرلیا ہے کہ مل جل کر کوئی مفاہمتی ایجنڈے پر متفق نہیں ہوسکے۔ اس کا ایک عملی نتیجہ عمران خان کا اسلام آباد کی طرف جاری لانگ مارچ ہے جس نے ان کے بقول چار نومبر کو اسلام آباد میں داخل ہونا ہے ۔ جب کہ دوسران نتیجہ ہم ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی کی پریس بریفنگ دیکھی ہے ۔

قومی بحران کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس وقت ملک میں ایک بڑی واضح اور صاف سیاسی تقسیم ہے۔ اس تقسیم کی وجہ سے بھی سیاسی محاذ آرائی او رٹکراؤ پہلے انفرادی یا اجتماعی طو رپر افراد یا اداروں کی سطح پر بھی دیکھنے کو مل رہا تھا لیکن اب حالات بدل رہے ہیں۔ اس لیے اسی بحران میں عقل و شعور ، دانش، تدبر اور فہم وفراست کے مقابلے میں جذباتیت کا پہلو نمایاں ہے۔

اس جذباتی سیاسی ماحول میں فریقین ایک دوسرے پر جو سنگین نوعیت کے الزامات لگارہے ہیں ان میں ملک سے غداری ، دشمنی ، غیرملکی طاقتوں کا آلہ کار اور سازشی بیانیہ جیسے سخت جملوں کا تبادلہ بھی شامل ہے۔یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ ہم سیاسی اختلافات ، تحفظات او رمسائل کو ایک بڑی سیاسی دشمنی میں بدل بیٹھے ہیں۔

یہ معاملہ اوپر کی قیادت سے لے کر نیچے موجود افراد تک آتا ہے جو بلاوجہ قومی سیاسی محاذ پر سیاسی کشیدگی کو جنم دینے کا بڑا سبب بن رہا ہے ۔مسئلہ محض عمران خان تک محدود نہیں بلکہ حکومت بھی محاذ آرائی کو بڑھانے میں اپنا پورا کردار ادا کر رہی ہے اورایسے لگتا ہے کہ حکومت کے اپنے اندر بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو سیاسی ماحول میں اشتعال انگیزی پیدا کررہے ہیں۔

اداروں پر جو تنقید ہورہی ہے وہ بھی کوئی اچھی علامت نہیں ۔ حکمران اتحاد کا مسئلہ یہ ہے کہ اتحادی جماعتوں نے مسلم لیگ ن کو سیاسی طو پر تنہا کرکے خود خاموشی اختیار کرکے خود کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں ۔

ایک بات سب فریقین کو سمجھنی ہوگی کہ یہ 80اور 90کی دہائی نہیں بلکہ ہم 2022میں کھڑے ہیں۔ جہاں ففتھ جنریشن وار یا ہائبرڈ جنگ سمیت ڈیجیٹل دنیا او ربیانیوں کی جنگوں کا سامنا ہے ۔ یہ جنگ اس وقت نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہے جو اسلحہ سے زیادہ قلم اور زبان کواپنی طاقت بنا کر اس میں شامل ہیں۔

اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اس کھیل کو محض طاقت یا ڈنڈے کی بنیاد پر روکا یا ختم کیا جاسکتا ہے وہ غلطی پر ہے ۔ پیش نظر رہے کہ سیاسی جنگ میں ایک بیانیہ کے مقابلے میں متبادل بیانیہ درکار ہوتا ہے ۔ یہ ہی عمل لوگوں کی ذہن سازی ، کردار سازی اور سوچ و فکر میں مثبت پہلووں کو اجاگر کرتا ہے ۔

کیونکہ ردعمل یا غصہ کی سیاست کا متبادل بھی منفی ہوتا ہے او ریہ مثبت نتائج کے بجائے ہمیں منفی نتائج دیتا ہے جو درست حکمت عملی نہیں۔اس وقت بڑا چیلنج یہ ہے کہ ہمیں سیاسی او رادار ہ جاتی محاذ پر موجود سیاسی کشیدگی کو کم کرنے اور سیاسی سطح پر موجود شدت پر مبنی سیاسی ٹمپریچر کو کم کرنا ہے۔

یہ کام محض مکالمہ یا بات چیت کے بغیر ممکن نہیں ۔ یہ کہنا کہ بات چیت نتیجہ خیز نہیں ہوسکی یا اب بات چیت کے دروازے بند ہوگئے ہیں درست عمل نہیں۔ سیاست دان یا جمہوریت پر یقین رکھنے والے افراد یا ادارے دروازوں کو کسی بھی صور ت میں بند نہیں کرتے بلکہ ان کی صلاحیت تو یہ ہونی چاہیے کہ وہ بند دروازوں کو کھولنے کا ہنر یا فن رکھتے ہوں۔ کیونکہ سیاسی ماحول میں جتنی بھی کشیدگی یا ٹکراو پیدا ہوجائے اس کا آخری علاج بات چیت ہی ہے۔

بات چیت سے مراد سیاسی ، آئینی او رقانونی فریم ورک میں ہی رہتا ہے ۔البتہ معاملات کو سلجھانے یا طے کرنے کے لیے ہمیں روائتی طو رطریقوں کے بجائے بعض اوقات غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات کی صورت میں Out of Box جاکر مسائل کا حل تلاش کرنا ہوتا ہے۔

اس لیے جو لوگ بھی یہ سمجھ رہے ہیں کہ بات چیت کے امکانات ختم ہوگئے ہیں درست نہیں بات چیت کے عمل کی گنجائش موجود ہے دیکھنا یہ ہوگا کہ ہم اس امکان کو قائم رکھتے ہیں یا حالات کو بند گلی کی طرف لے کر جائیں گے۔کیونکہ اگر حالات بند گلی کی طرف جاتے ہیں او رایک بڑے ٹکراو کا ماحول پیدا ہوتا ہے تو اس کا نتیجہ کسی بھی صورت میں قومی سیاست او رجمہوریت کے حق میں نہیں ہوگا او راس کی بھاری قیمت حکومت یا حزب اختلاف سمیت اسٹیبلیشمنٹ یا ریاست کو دینی ہوگی۔

جو لوگ اس ڈر او رخوف کے پہلو کو نمایاں کررہے ہیں کہ اگر حالات درست نہیں ہوتے تو مارشل لا کے امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ سوال یہ ہے کہ ہم تمام فریقین حالات کو اس نہج پر کیوں لے جانا چاہتے ہیں او رکیوں مل بیٹھ کر کسی مفاہمتی فارمولے پر متفق ہونے کے لیے تیار نہیں۔

اس وقت ایک مسئلہ نئے انتخابات ہیں چاہے وہ فوری ہوجائیں یا اپنے مقررہ وقت پر ہوں اس سے بھی بڑھ کر مسئلہ انتخابات کی شفافیت اور بڑی طاقتوں کی عدم مداخلت سے جڑا ہوا ہے۔ پاکستان کو واقعی شفاف انتخاب درکار ہے اوراسی نقطہ کو بنیاد بنا کر بات چیت کا عمل آگے بڑھنا چاہیے۔

اگر کسی کا خیال ہے کہ اس موجودہ سیاسی وریاستی سطح کے بحران کو ہم بغیر کسی تصفیہ کہ اگلے برس اکتوبر یا نئے انتخابات تک لے کر جاسکتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ کیونکہ اگر موجودہ سیاسی و ریاستی سطح پر جاری بحران یا ٹکرا وکا یہ عمل جتنی جلدی ختم ہوگا اتنا ہی یہ قوم کے مفاد میں ہوگا ۔ لیکن کیا ہماری سیاسی قیادت اوراسٹیبلیشمنٹ بحران کے حل میں کسی نتیجہ پر پہنچ سکیں گے ، یہ ہی اہم سوال ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔