خانہ پُری؛ ’’کراچی کہیں بھی نہیں۔۔۔؟‘‘

رضوان طاہر مبین  اتوار 20 نومبر 2022
فوٹو: ایکسپریس نیوز

فوٹو: ایکسپریس نیوز

 کراچی: ’ادارہ بین الاقوامی امور پاکستان‘ یا ’پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز‘ (پی آئی آئی اے) شہرِقائد کے قلب میں واقع ایک ایسا ’گوشہ نشیں‘ ادارہ ہے، کہ جو گاہے گاہے مختلف اہم موضوعات پر مختلف دانش وَروں، سابق سفیروں اور بین الاقوامی امور کے ماہرین سے سجی ہوئی ایسی اہم بیٹھکیں سجاتا رہتا ہے۔

جنھیں بدقسمتی سے اس طرح خبروں میں جگہ نہیں دی جاتی، جس طرح دی جانی چاہیے۔ ستم تو یہ ہے کہ شہر کراچی میں ایوان صدر روڈ اور دین محمد وفائی روڈ کے عین سنگم پر واقع ہونے کے باوجود طلبہ اور لکھنے پڑھنے والے افراد کی ایک بہت بڑی تعداد اس ادارے اور اس کے وسیع وعریض کتب خانے سے قطعی طور پر بے خبر ہے۔ اور کسی کو کیا کہیں صاحب، ہم خود بھی ایک عرصے تک انھی ’بے خبروں‘ میں شامل رہے ہیں۔

خیر، گذشتہ دنوں ’پی آئی آئی اے‘ کی روح و رواں ڈاکٹر معصومہ حسن کی یادداشتوں کی ایک بھرپور تقریب رونمائی منعقد ہوئی، جس میں صاحبِ کتاب ڈاکٹر معصومہ حسن کے ساتھ ساتھ سینٹیر میاں رضا ربانی، معروف صحافی زبیدہ مصطفیٰ اور سندھ بار کونسل کے سابق صدر شہاب سرکی نے بھی اظہار خیال کیا۔

کسی ہال یا آڈیٹوریم کے بہ جائے کتابوں کے درمیان سجنے والی محفل یوں بھی منفرد تھی کہ یہاں کتابیں کسی بھی قسم کی بندشوں یا قفل سے یک سر آزاد تھیں، اب یہ کتب خانے کی فراخ دلی اور اپنے قارئین پر اعتماد کا عالم تھا یا اس بات کی خبر کہ اس سماج میں اب کم از کم کتاب کو ’اُٹھ جانے‘ کا کوئی خطرہ نہیں۔۔۔! دوسری والی بات اگر ایک قاری کی نظر سے دیکھیے تو بڑے المیے میں گنی جائے!

حسب توقع مسند گاہیں پُر ہوگئیں اور تقریب شروع ہونے سے پہلے ہی یہ ’کتب خانہ‘ تنگیٔ دامن کا شکوہ کرنے لگا۔۔۔ ڈاکٹر معصومہ حسن کی یادداشتوں پر مشتمل کتاب ’پاکستان اِن این ایج آف ٹریبلونس‘ (Pakistan in an age of turbulence) کے حوالے سے تمام مقررین نے اظہارخیال کیا۔

بالخصوص پیپلزپارٹی کے سنیئر راہ نما اور سینٹیر میاں رضا ربانی نے بھی یہ اعتراف کیا کہ کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے وہ خود اُن مناظر کو محسوس کرتے چلے گئے۔ مصنفہ کی جانب سے ’پانی پت‘ کے حوالے سے لکھے گئے، مندرجات کو دیگر مہمانان کے ساتھ رضا ربانی نے بھی خوب سراہا، ساتھ ہی ملک کی موجودہ صورت حال پر اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ ’’افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج ملک کی تمام ہی سیاسی جماعتیں طاقت حاصل کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھ رہی ہیں!‘‘ ساتھ ہی انھوں نے تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اگر ملک کو جمہوری طریقے سے نہ چلایا گیا تو وفاق کو خطرات ہو سکتے ہیں۔

پھر حسب سابق اس ذیل میں انھوں نے بلوچستان کی شورش کا تذکرہ کیا اور کچھ ایسے ہی خیبرپختونخواہ کے مسائل مذکور کیے۔۔۔ لیکن عجیب بات یہ رہی کہ جس شہر میں وہ موجود تھے، اس شہر میں برسوں سے جاری سیاسی جبر پر اشاروں کنایوں میں بھی ایک لفظ تک کہنا گوارا نہیں کیا۔

جنرل ایوب اور جنرل ضیا کے آمرانہ دور کے بدترین جبر کی ضرور بات ہوئی، اور اس جبر کے بھینٹ چڑھنے والے مختلف سیاسی کارکنان کے نام بھی پکارے گئے، لیکن شومئی قسمت شہرِقائد میں حالیہ سیاسی جبر کے دوران ملنے والے لاپتا سیاسی کارکنان کی لاشوں پر کوئی صدا سننے کو ہماری سماعت ترستی ہی رہ گئی۔

یہ بہت عجیب بات ہے کہ ہمارے ملک کے بہت سے دانش وَر کراچی کی ایک سیاسی جماعت کے جبر کے حوالے سے تو بلندآہنگ ہوکر آواز بلند کرتے تھے، لیکن اس جبر کے بعد ایک دوسری طرح سے یہ جبر آج بھی موجود ہے، لیکن چوں کہ اس جبر کی سمت الٹ چکی ہے، تو سارے ملک میں اس حوالے سے مکمل سناٹا ہے۔ یعنی کیا اس کا یہ مطلب نکالا جائے کہ کسی کو بھی جبر سے کوئی مسئلہ نہیں، بس جابر ہمارے موافق ہونا چاہیے؟

اس تقریب میں بھی معزز سینٹیر رضا ربانی صاحب نے ماضی میں لاہور کے ساتھ کراچی کے ’کافی ہاؤس‘ میں آزادی کے ساتھ پروان چڑھنے والے سیاسی اور جمہوری بیانیے کا ذکر کرنے کے باوجود آج اس شہر پر طاری سیاسی گھٹن پر لب سیے رکھے، کہ جیسے کوئی بات ہی نہیں۔۔۔! یہ ایک رضا ربانی صاحب کا معاملہ نہیں ہے۔

ہم نے گذشتہ کچھ عرصے میں آرٹس کونسل کراچی میں ’عالمی اردو کانفرنس‘ میں بھی یہی منظر دیکھا تھا کہ جب معروف صحافی حامد میر، عاصمہ شیرازی، وسعت اللہ خان، مظہر عباس، عامر ضیا اور اویس توحید جیسے نمایاں صحافیوں کی موجودگی میں ملک بھر کے مظلوموں کے لیے صدائیں بلند ہوتی رہیں، یہاں تک کہ ’پشتون تحفظ موومنٹ‘ کے اراکین قومی اسمبلی پر ’پابندیوں‘ پر ہمارے معزز مقررین نے تشویش ظاہر کی، لیکن اگر بات نہیں ہوئی تو صرف اس شہر کی سیاسی آزادی کی، جہاں یہ پروگرام ہو رہا تھا۔

ایسی کیا وجہ ہے کہ ملک بھر کے دانش ور، صحافی، تجزیہ کار اور بڑے بڑے مقررین اس شہر والوں کے مساوی بنیادی حقوق کے لیے کچھ کہنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔۔۔؟ کیا ’انسانی حقوق‘ اور ’مساوات‘ کے لیے بھی مزید کسی درجے تک پہنچنے کی ضرورت پڑتی ہے، جس کے لیے یہ شہر اہلیت نہیں رکھتا۔۔۔؟ کیا اس شہر کے باسی انسان اور اس ملک کے مکمل اور برابر کے شہری نہیں ہیں۔۔۔؟ آخر کیوں ملک بھر کی طرح اس شہر اور اس شہر والوں کی برابری کے لیے آواز بلند نہیں ہوتی۔۔۔؟ کیا جبر اور ظلم کے بھی کئی رنگ ہوتے ہیں، اور وہ کسی پر جائز اور کسی پر ناجائز قرار پاتا ہے۔۔۔؟

ہم ’خانہ پری‘ کو اکثر ہلکے پھلکے موضوعات میں آباد رکھنا چاہتے ہیں، لیکن جب مسلسل ایسے ماحول سے گزرتے ہیں تو قلم برداشتہ رقم کر جاتے ہیں۔ ’خانہ پری‘ ملک بھر میں شایع ہوتا ہے، ممکن ہے دیگر شہروں کے قارئین اِسے اپنا مسئلہ نہ سمجھیں، یا یہ ان کے لیے اتنی اہمیت نہ رکھتا ہو، لیکن یہ بات بطور اس ریاست کے شہری آپ کے گوش گزار کرانا بھی ضروری ہے کہ ملک کے سب سے بڑے شہر اور معاشی دارالحکومت کے ساتھ کیا گزر رہی ہے اور وہ اپنے کلیجے پر کیسے کیسے گھاؤ سہہ رہا ہے کہ جس کی اگر ایک آہ بھی سرزد ہو جائے تو جانے اَن جانے آسیب منڈلانے لگتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔