پاکستان کو درپیش چیلنجز

مزمل سہروردی  بدھ 30 نومبر 2022
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اپنے عہدے کا چارج سنبھال لیا ہے۔ کمان کی تبدیلی کی پروقارتقریب میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے جادو کی چھڑی نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے حوالے کر دی ہے۔اس چھڑی کو ملاکا سٹک کہتے ہیں اورکہا جاتا ہے کہ ساری طاقت اور سارا جادو اس چھڑی میں ہی ہے۔

یہی چھڑی آرمی چیف کو طاقت اور اختیار دیتی ہے اور افواج پاکستان کا ہر سپاہی اور جنرل اپنے چیف کے حکم پر عمل کرنے کا پابند ہوجاتا ہے ۔ اس چھڑی کی اسی طاقت کی وجہ سے آرمی چیف کے عہدے کو ملک کا طاقتور ترین عہدہ سمجھاجاتا ہے۔

ہر آرمی چیف نے اس چھڑی کو اپنی سوچ کے مطابق استعمال کیا ہے۔ کچھ نے اس کی مدد سے اقتدار سنبھال لیا۔ چند نے مدت ملازمت میں توسیع حاصل کی ہے اور کئی نے ادارے کو غیر سیاسی کیا ہے۔ بہر حال کمان کی تبدیلی اور عہدے کا چارج سنبھالنے کے بعد اب جنرل عاصم منیر پاکستان کی سب سے طاقتور شخصیت بن گئے ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ ویسے تو پاکستان کے مخصوص حالات اسٹیبلشمنٹ کو مداخلت مجبو رکر دیتے ہیں۔ جب سیاسی اور معاشی معاملات آپ کی میز پر پہنچ جائیں ، سیاست و جمہوری کے دعویدار ان معاملات کو خود حل کرنے میں ناکام ہوجائیں اور ان معاملات کو حل کرنے کی درخواست کی جائے تو ایسے میں دنیا کی کوئی بھی اسٹیبلشمنت حالات سے لاتعلق کیسے رہ سکتی ہے۔

اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنت کو غیرسیاسی رکھنے کی سب سے زیادہ ذمے داری سیاسی قیادت کی ہوتی ہے، اگر سیاسی قیادت ذمے دار ہو، آئین کی پاسداری کرتی ہو، سیاسی و معاشی مسائل کو خود حل کرنے کا شعور و قوت رکھتی ہو تو اسٹیبلشمنٹ کو کیا پڑی ہے کہ وہ سیاست میں مداخلت کرے۔

لیکن پاکستان کی سیاسی قیادت کی غیرذمے داری ، کم فہمی ، خود غرضی پر مبنی سیاست ملک کو ایسے تنازعات و معاملات پھنسا دیتی ہے جو چھڑی کی طاقت کے بغیر حل ہو ہی نہیں سکتے۔ اس لیے اسٹیبلشمنٹ بھی مجبور ہو جاتی ہے، پھر ایک دفعہ جب آپ سیاست کی اس دلدل میں پھنس جاتے ہیں تو پھر دھنستے ہی چلے جاتے ہیں۔

اس وقت ملک کے حالات کچھ یوں ہیں کہ ایک سیاسی جماعت فوری انتخابات کی راہ ہموار کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پورا زور لگا رہی ہے ، اس جماعت کی لیڈرشپ کھلے عام اسٹیبلشمنٹ سے مدد بھی طلب کررہی ہے جب کہ دوسری طرف اتحادی حکومت کی کوشش ہے کہ وہ اپنی آئینی مدت پوری کرے اور وہ چاہتی ہے کہ ان کی حکومت گرانے کی کوئی کوشش نہیں ہونی چاہیے۔ ملک میں فوری انتخابات کے لیے انھیں مجبور نہ کیا جائے۔

ایک فریق چاہتا ہے کہ مجبور کیا جائے اور دوسرا فریق چاہتا ہے کہ مجبور نہ کیا جائے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے آخری مہینوں میں فریقین کو ساتھ لے کر چلنے کی بہت کوشش کی لیکن ان کی اس مخلصی و حب الوطنی کو کمزوری بھی مانا گیا۔

کیونکہ جب آپ فریقین کو لے کر چلنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ خاصا مشکل کام ہوتا ہے، ایک کو منائیں تو دوسرا ناراض ہوجاتا ہے اور دوسرے کو منائیں تو پہلے والا خفا ہوجاتا ہے اور یہی ہوا ہے۔

یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ پاک فوج کے سربراہ کو آئین و قانون نے اتنی طاقت دے رکھی ہے کہ کوئی ان کی حکم عدولی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔

جو حضرات ایسی باتیں پھیلاتے رہے اور کھلم کھلا باتیں شروع ہو گئیں کہ کون کدھر ہے،ان کی تسلی کے لیے عرض ہے کہ بھئی! جہاں چیف ہوتا ہے وہاں سب ہوتے ہیں۔ دراصل ایسی باتیں کرنے والوں کو پاک فوج کے انٹرل سٹسم، ٹریننگ ، ڈسپلن اور پروفیشنل ازم کے معیار کا علم ہی نہیں ہے۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جدھر چیف دیکھتا ہے، پوری فوج ادھر ہی دیکھتی ہے۔

پاکستان میں میں عدم استحکام سب کے سامنے ہے ، بلاشبہ سرحدوں کی حفاظت فوج کی اولین ذمے داری ہے، اس کے بعد یہ بھی ایک سوال ہے کہ پاکستان کے اندر سے پاکستان کی حفاظت کرنا کس کی ذمے داری ہے؟ سیاسی ومعاشی عدم استحکام جب ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ بن جائے تو اسٹیبلشمنٹ کس حد تک خود کو لا تعلق رکھ سکتی ہے۔

اس لیے ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام لانا بھی ایک چیلنج ہے۔ ویسے تو دہشت گردی بھی دوبارہ سر اٹھا رہی ہے۔ ٹی ٹی پی نے سیز فائر ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جس کی وجہ سے خدشہ ہے دہشت گردی دوبارہ سر اٹھائے گی۔

دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اس حوالے سے اسٹیبلشمنٹ کی کیا پالیسی ہوگی؟ کیا ٹی ٹی پی سے بات چیت کا دروازہ پھر کھولا جائے گا یا ان کے خلاف فیصلہ کن آپریشن شروع کردیاجائے گا۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے لیے یہ چیلنج نیا نہیں ہے، وہ ان سب کو جانتے ہیں۔ لیکن پہلے پالیسی کچھ اور تھی، اب ہوسکتا ہے کہ پالیسی بدل جائے۔ یہ بھی آیندہ چند دنوں میں سامنے آجائے گا۔ کیا پاک بھارت سرحد دوبارہ گرم ہو جائے گی یا سیز فائر چلے گا۔

مجھے لگتا ہے کہ سیز فائر چلے گا۔ نہ بھارت ایسا کرے گا نہ گرم سرحدیں پاکستان کے مفاد میں نہیں ہیں۔ حالیہ چھ سات ماہ میں قومی سلامتی کے ادارے اور اس کی قیادت کے خلاف زہرناک تنقید اور گالم گلوچ کا کلچر پروان چڑھ گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر مخصوص سیاسی ایجنڈا رکھنے والے گروپ مسلسل منفی پروپیگنڈہ میں مصروف ہیں۔

کیا سوشل میڈیا پر قومی سلامتی کے ادارے اور اس کی قیادت کے بارے زہریلا پراپیگنڈا جاری رہنے دیا جائے گا اور اسے آزادی اظہار کے خانے میں رکھ کر نرم پالیسی پر عمل کیا جاتا رہے گا یا پھر ایکشن کی پالیسی اختیار کی جائے گی ۔ ویسے دونوں پالیسیاں اکٹھی چلانے کے کوئی اچھے نتائج سامنے نہیں آئے ہیں، ایک ہی پالیسی ہونی چاہیے۔ اگر گالیاں برداشت کرنی ہیں تو کہہ دیں کہ ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر برداشت نہیں کرنی تو پھرکسی کی بھی نہیں کرنی ۔ ویسے ان تمام چیلنجز سے نبٹنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔