کراچی کے بہتر حالات

عثمان دموہی  جمعـء 16 دسمبر 2022
usmandamohi@yahoo.com

[email protected]

ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب کوئی شخص سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کراچی میں جاری دہشت گردی، خون ریزی اور ہڑتالیں ختم ہو جائیں گی اور عوام کو سکون میسر آجائے گا مگر اب کراچی جسے پہلے دہشت گردی کا منبع قرار دیا جاتا تھا اور پاکستان بھر میں جاری دہشت گردی کو کراچی سے جوڑا جاتا تھا پرسکون ہو گیا ہے۔

اب یہ حال ہے کہ کراچی کو پاکستان کے دوسرے شہروں سے زیادہ محفوظ شہر سمجھا جانے لگا ہے۔ عوام کا ڈر خوف ختم ہو چکا ہے کاروباری سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری ہیں کارخانوں میں کام چل رہا ہے کیونکہ اب بھتوں کی آفت بھی ختم ہو چکی ہے ۔اب کراچی میں سماجی اور ادبی سرگرمیاں پھر سے بھرپور طریقے سے منعقد ہو رہی ہیں لوگ ان میں بھرپور حصہ لے رہے ہیں اور کراچی کو امن پسند شہر ہونے کا رجحان عام کر رہے ہیں۔

سال رواں میں کراچی میں کئی بڑے فنکشن یا تقریبات منعقد ہوئیں جو بہت ہی شان و شوکت سے چلیں جن میں بڑی تعداد میں لوگوں نے حصہ لیا۔ ان تقریبات میں کراچی کے فریئر ہال میں منعقد ہونے والا ادبی و ثقافتی فیسٹیول، آرٹ کونسل کی پندرھویں عالمی اردو کانفرنس، کراچی ایکسپو سینٹر میں فوجی ساز و سامان کی نمائش اور آخر میں انٹرنیشنل بک فیئر قابل ذکر ہیں۔

امینہ سید پہلے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس میں بحیثیت سربراہ کئی برس تک نئی نئی کتابیں شایع کرتی رہی ہیں وہ وہاں رہتے ہوئے ہر سال آصف فرخی کے ساتھ مل کر ایک ہوٹل میں ادبی میلہ سجاتی رہی ہیں۔ یہ بہت ہی کامیاب رہتا تھا جس میں ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کے علاوہ عوام کی بہت بڑی تعداد ذوق و شوق سے شرکت کرتی تھی۔

اب جب سے وہ آکسفورڈ پریس سے ریٹائر ہوئی ہیں اپنی ذاتی کوشش سے ادبی و ثقافتی میلہ سجا رہی ہیں اس سال یہ میلہ فریئر ہال میں منعقد ہوا بہت کامیاب رہا اس میں کتابوں کی رونمائی مذاکرے اور کئی تفریحی پروگرام پیش کیے گئے۔ کراچی آرٹس کونسل میں کئی سالوں سے اردو کانفرنس منعقد ہو رہی ہے۔

اس دفعہ پندرہویں کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ملکی ادیبوں شاعروں اور دانشوروں کے علاوہ غیر ملکی شخصیات نے بھی شرکت کی۔

اس کانفرنس میں اردو کی ترویج کے لیے تو کام کیا ہی جا رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ علاقائی زبانوں کی ترویج کے لیے بھی کام کیا جا رہا ہے ان زبانوں کے ادیبوں شاعروں اور دانشوروں کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ اس طرح یہ کانفرنس پورے ملک کی زبانوں کی نمایندہ بن گئی ہے۔

اس کے شاندار انعقاد میں آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ کا کردار مثالی رہا۔ یہ چار روز تک جاری رہی جس سے شہر کی رونق دوبالا ہوگئی اور اس نے نہ صرف کراچی بلکہ ملک بھر کے ادیبوں شاعروں اور دانشوروں کو نیا جوش اور ولولہ دیا ہے۔

نومبر کے ہی مہینے میں حربی نمائش ایکسپو سینٹر میں منعقد ہوئی۔ یہ ماضی کی طرح اس دفعہ بھی بہت کامیاب رہی اس میں کئی ممالک نے حصہ لیا۔ اس نمائش میں شرکت کے لیے کئی ممالک کے فوجی وفود آئے۔ پاکستان کا تیار کردہ حربی سامان انھیں بہت پسند آیا اور ان کی خرید کے سودے کیے گئے۔ اس کے بعد 8 دسمبر سے 12 دسمبر تک بین الاقوامی کتاب میلہ ایکسپو سینٹر میں منعقد ہوا۔ اس میں ملکی پبلشرز کے علاوہ غیر ملکی پبلشرز نے بھی حصہ لیا۔

اس میلے میں چھ لاکھ کے قریب لوگوں نے اپنی حاضری رجسٹر کرائی۔ اس میلے میں اسکول اور کالج کے بچوں کی ذوق شوق سے شرکت قابل دید تھی۔

یہ میلہ بہت کامیاب رہا۔ یہ 5 دن تک چلتا رہا اور صبح سے رات تک اس کے تینوں ہالوں میں کھچا کھچ پبلک دیکھی گئی۔ اس نمائش سے کراچی کے عوام اتنے متاثر ہوئے ہیں کہ ان کا کہنا ہے کہ اسے کم سے کم ایک ہفتے تک ضرور جاری رہنا چاہیے۔

بہرحال اس نمائش کا انعقاد کرنے والے اب آیندہ اسے ایک ہفتے تک جاری رکھنے کے انتظامات کریں تاکہ عوام کی فرمائش پوری کی جاسکے۔ یہ تمام تقریبات نہایت پرامن رہیں اور عوام نے بے خوف و خطر ان میں شرکت کی۔

کراچی میں امن کے قیام میں جہاں سیکیورٹی فورسز کا اہم کردار ہے وہاں ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس امن کے ماحول کو پیدا کرنے میں سابق میئر کراچی مصطفیٰ کمال کی کاوشوں کا اہم حصہ ہے۔ ان کی اپنی پرانی پارٹی سے بغاوت کراچی کے امن کا وسیلہ ثابت ہوئی۔

دراصل ان کے دل میں بزرگوں کی وطن سے محبت کی رمق زندہ ہے وہ پرانی پارٹی کے سربراہ کی طرح غلط راستے پر کیوں چلتے۔ انھوں نے اپنے وطن کو فوقیت دی اور ’’را‘‘ کے آگے جھکنے سے گریز کیا۔ وطن کی حرمت پر کسی قسم کی آنچ آنے سے قبل ہی اپنا راستہ جدا کرلیا اور پھر ’’را‘‘ کے پرستاروں کا بھانڈا پھوڑ کر شہر کو دہشت گردی کے عذاب سے بچا لیا۔

اب پی ایس پی پہلے سے بہت بہتر انداز سے چل رہی ہے گوکہ قومی یا صوبائی اسمبلی تک اس کی رسائی نہیں ہے مگر یہ باہر رہ کر بھی اپنا حق ادا کر رہی ہے۔ اب مہاجروں کی نہ پنجابی پٹھانوں سے لڑائی ہے اور نہ سندھیوں بلوچوں سے کوئی مخاصمت ہے۔

سب ایک ہیں سب پاکستانی ہیں۔ پی ایس پی کی جیو اور جینے دو کی پالیسی نے مہاجروں کی لاج رکھ لی ان پر جو ایک شخص کی وجہ سے شک و شبہ کیا جانے لگا تھا وہ اب ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ مہاجر بزرگ ہی پاکستان کے اصل معمار تھے۔

وہ ہندوستان کے ہر صوبے میں ہندو اکثریت سے بے خوف پاکستان کی تحریک چلاتے رہے اور ہندو مہاسبھا اور آر ایس ایس کے غنڈوں کا مقابلہ کرتے رہے۔ ان کا نعرہ تھا بٹ کے رہے گا ہندوستان اور بن کے رہے گا پاکستان۔ اس نعرے کی گونج نے کام کر دکھایا اور واقعی ناممکن ممکن ہو گیا۔

اس وقت ملک معاشی بدحالی کی تصویر بنا ہوا ہے مگر یہ دن بھی نکل جائیں گے کاش کہ ہمارے حکمران ملک سے سچی محبت کریں عوام کے مسائل کو اہمیت دیں اور اپنے ذاتی مفادات پر ملکی مفادات کو ترجیح دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ملک کے حالات نہ سدھریں اور ہم دنیا میں ایک باوقار قوم کے طور پر نہ دیکھے جائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔