راجہ سے حکومت کیوں چھنی؟

سلیم خالق  جمعـء 23 دسمبر 2022

’’سیٹھی صاحب آنے والے ہیں، گلدستے لاؤ،ہار لاؤ، سردی کو بھول جاؤ، صبح ہی قذافی اسٹیڈیم پہنچ جاؤ‘‘

لاہور میں پی سی بی ہیڈ کوارٹرز میں بدھ سے ہی یہ باتیں شروع ہو چکی تھیں،وہ لوگ جو سابق چیئرمین سے دور بھاگنے لگے تھے، ان کے خلاف مقدمے میں سہولت کار بنے وہ بھی استقبال میں آگے آگے رہے، یہی دنیا ہے، یہاں آنے والے کو سلام اور جانے والے کو ’’آپ کون‘‘ ہی کہا جاتا ہے، پی سی بی میں تو یہ کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے۔

کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ 4 برس قبل یہاں سے جانے کے بعد نجم سیٹھی اورشکیل شیخ فاتحانہ چال سے دوبارہ قذافی اسٹیڈیم میں داخل ہوں گے مگرایسا ہو گیا،اب ان کے کندھے پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ملکی کرکٹ کے بگڑے حالات بہتر کریں،انسان جب کسی بڑے عہدے پرپہنچے تو اسے لگتا ہے کہ بس اب ہمیشہ وہیں رہے گا۔

وہ تکبر کرتے ہوئے دوسروں کو حقیر سمجھنے لگتا ہے،دوست بھی دشمن لگتے ہیں لیکن وقت کا پہیہ گھومتے دیر نہیں لگتی،پھر جب وہ آسمان سے زمین پر گرتا ہے تو آس پاس کوئی موجود نہیں ہوتا،کاش لوگ یہ بات سمجھ جایا کریں مگر طاقت کا نشہ ایسا ہوتا ہے جس میں اپنے سامنے کوئی نظر نہیں آتا،راجہ سے حکومت کیوں چھنی؟ اس کی مختلف وجوہات ہیں۔

وہ جب کمنٹیٹر اور یوٹیوبر تھے تو لوگوں سے اچھے انداز میں ملتے تھے پھر جب چیئرمین بنے تو اطوار ہی بدل گئے،ایسے میں دوست بھی ان سے دور ہونے لگے، ایک سابق کرکٹر نے میٹنگ میں انھیں رمیز کہا تو غصے میں ٹوکتے ہوئے جواب دیا کہ ’’رمیز  نہیں چیئرمین صاحب کہو‘‘ مجھے یاد ہے جب عہدہ سنبھالنے کے بعد میری رمیز راجہ سے ملاقات ہوئی تو میں نے پوچھا کہ آپ کو رمیز بھائی کہوں یا چیئرمین صاحب تو ان کا کہنا تھا کہ رمیز بھائی ہی کہو۔

اس وقت ان سے میری بڑی اچھی باتیں ہوئی تھیں،مجھے لگا کہ وہ ملکی کرکٹ کو ٹھیک کر دیں گے مگر آہستہ آہستہ توقعات ختم ہوتی گئیں،ان کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ  اپنی اچھی ٹیم نہیں بنائی اور پرانے لوگوں پر ہی بھروسہ کیا جو ان کے کان بھرتے رہے،اسی کے ساتھ رویہ بڑا مسئلہ بنا،غصے سے بھی نقصان ہوا۔

فرنچائز اونرز سے پہلی ہی ملاقات میں انھوں نے کہہ دیا تھا کہ ’’آپ لوگ کرائے دار ہیں وہی بن کر رہیں خود کو مالک نہ سمجھیں‘‘ میڈیا سے انھوں نے خود کو دور رکھا،جب بات کرتے تو بھی رویہ تحکمانہ ہوتا، ماضی میں ان سے دوستی کا دعویٰ کرنے والے صحافی بھی یہ کہنے لگے تھے کہ اب رمیز بدل گئے ہیں۔

زیادہ تر ’’اپنوں‘‘ کو ہی انھوں نے انٹرویوز دیے جس میں من پسند سوال اور جواب ہوتے تھے، سابق کرکٹرز کی ان کے دور میں یہ عزت تھی کہ شعیب محمد کراچی ٹیسٹ میں ٹکٹوں کیلیے مارے مارے پھرتے نظر آئے، پینشن کو بطور ٹول استعمال کرتے ہوئے سابق اسٹارز کو زبان بندی پر مجبور کیا گیا۔

عاقب جاوید جیسے سچے انسان کی باتوں سے ناراض ہوکر انھیں لاہور قلندرز سے نکلوانے کیلیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا مگر سلام ہے قلندرز اور رانا برادرز پر جو کسی دباؤ میں نہیں آئے،تاریخ میں کبھی پی سی بی آفس میں شاید ہی کسی کی ہاتھا پائی ہوئی ہو مگر ڈائریکٹر میڈیا سمیع الحسن برنی پر ڈائریکٹر کمرشل نے زدوکوب کرنے کا الزام لگا دیا۔

اس پر بھی کوئی سخت ایکشن نہیں لیا گیا اور علامتی سزا دے کر چھوڑ دیا گیا، قومی ٹیم کا حال بھی سب کے سامنے ہے، تاریخ میں پہلی بار ہوم گراؤنڈ پر کلین سوئپ ہو گیا،ڈسپلن کا یہ عالم ہے کہ کھلاڑی کپتان کے حق میں سوشل میڈیا مہم چلا رہے ہیں۔

کپتان ناراض ہو کر ٹیسٹ میچ کے دوران فیلڈ میں نہیں گیا،ڈومیسٹک کرکٹرز 5 ماہ سے معاوضوں کیلیے ترس گئے،ڈیڈ پروجیکٹ جونیئر لیگ پر ایک ارب روپے پھونک دیے گئے، اپنی پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کو پروموٹ کیا،اکیلے لائم لائٹ میں رہے، ان کے دور میں پچز کا تیا پانچہ ہو گیا،ڈراپ ان پچز کا شوشا چھوڑا گیا۔

آسٹریلیا سے مٹی منگوانے پر رقم مٹی میں ملائی گئی،بلینک چیک ملنے کا دعوی کیا جو نجانے کیوں نہیں آیا،ان سے پہلے احسان مانی کے دور میں ڈپارٹمنٹل کرکٹ ختم کر کے کھلاڑیوں کو بے روزگار کر دیا گیا تھا، موجودہ وزیر اعظم اور پی سی بی کے پیٹرن شہباز شریف صاحب نے رمیز راجہ کو بالکل لفٹ نہیں کرائی، کوئی ملاقات نہ ہی فون پر بات کی۔

واحد سامنا کرکٹرز کے اعزاز میں تقریب کے دوران ہوا، عدم اعتماد کے باوجود سابق چیئرمین کو نہ ہٹانے کی وجہ ایک اعلیٰ شخصیت کو یقین دہانی تھی وہ جیسے ہی گئے رمیز کا کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہو گیا تھا، اب وہ دوبارہ سے یو ٹیوب پر ویڈیوز بنائیں گے اور کمنٹری کا کام ڈھونڈیں گے،البتہ تاریخ میں ان کا نام ایک ناکام چیئرمین کے طور پر درج ہو گا جو خود کو پچز کی تیاری سے لے کر سلیکشن تک کا ماہر سمجھتا تھا مگر حقیقت اس کے برعکس تھی۔

اب نجم سیٹھی آئے ہیں،ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی اور پی ایس ایل کے آغاز میں ان کا اہم کردار رہا، دیکھتے ہیں کیسا کام کرتے ہیں،انھوں نے حکومت کی ہدایت پر سابقہ نظام اور ڈپارٹمنٹس کی بحالی کا اچھا اعلان کیا ہے،اس سے یقینا ملک میں کرکٹرز کی حالت زار بہتر ہوگی، کمیٹی میں شاہد آفریدی اور ثنا میر جیسی شخصیات کی موجودگی اچھی لگی البتہ ہارون رشید کو نجانے کیوں رکھا گیا ہے۔

کرکٹ نظام کی تبدیلی میں ان کا اہم کردار تھا اب وہ پھر سیٹ اپ میں آ گئے ہیں،کپتان جتنا بھی اچھا ہو اگر ٹیم مضبوط نہ ملے تو کامیابی ممکن نہیں،نجم سیٹھی کو سب سے پہلے پی سی بی میں آپریشن کلین اپ کرنا ہوگا،کام سے زیادہ تنخواہیں لینے والے اور نااہل آفیشلز کی چھٹی کر کے میرٹ پر اچھے لوگ لائیں،انہی کو رکھا تو پھر نجم سیٹھی بھی کچھ نہیں کر سکیں گے۔

نیوزی لینڈ سے سیریز جاری اور پی ایس ایل بھی قریب ہے ظاہر ہے ایک ساتھ پورا بورڈ تبدیل نہیں کیا جا سکتا لیکن آہستہ آہستہ یہ کام شروع کرنا ہوگا،پی سی بی میڈیا ڈپارٹمنٹ کی تشکیل نو ضروری ہے،آئی سی سی کے انداز میں چلانے والے ڈائریکٹر میڈیا کو خداحافظ کہنا چاہیے،باقی خود کو سپراسٹار سمجھنے والا چار کا جو ٹولہ ہے اس کو بھی گھر بھیجیں،پھر ان کو اپنی قابلیت پتا چلے گی۔

سائیڈ لائن ہوئے پرانے لوگوں کو سامنے لائیں،ویسے جو پہلے دوسروں کی دستاویزات لیک کرتے تھے اب اپنی فکر کریں،ان کا نمبر بھی آنے والا ہے،حکومت کی جانب سے آڈٹ میں بہت سی ریڈ لائنز آ گئی ہیں، کئی نام نہاد شریفوں کے چہروں سے بھی نقاب اٹھیں گے، سلیکشن کمیٹی میں بھی محمد وسیم کی جگہ کسی سابق بڑے کرکٹر کو لانا چاہیے۔

ٹیم سے باہر باصلاحیت کرکٹرز کی فریاد سنیں، اگر سچی لگن کے ساتھ کوشش کریں تو ملکی کرکٹ میں بہتری ممکن ہے، ٹیم کی کارکردگی بھی اچھی ہو جائے گی،امید ہے نجم سیٹھی مایوس نہیں کریں گے اور ان کے دور میں کرکٹ کو فروغ حاصل ہوگا۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔