بجلی کی قیمت اور ٹیکس معاملات

مزمل سہروردی  بدھ 8 فروری 2023
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

لاہور ہائی کورٹ نے بجلی کے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے اور اس کے ساتھ نیپرا کو پانچ سو یونٹ تک سبسڈی دینے کا حکم بھی دیا ہے۔

عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ بجلی کی بڑھتی قیمتیں ناقابل برداشت ہو جائیں گی، ٹیرف صارفین کی گنجائش سے زیادہ نہ رکھا جائے، نیپرا ذہن میں رکھے کہ کمپنیاں بھاری منافع نہ کمائیں، لائن لاسز کی بنیاد پراوور چارجنگ کا مسئلہ حل کیا جائے، مالی بوجھ کمپنیوں پر جائز تناسب سے تقسیم کریں۔

مفاد عامہ کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ اچھا ہے اور معزز عدالت نے جو کہا ہے ، وہ غلط نہیں ہے کیونکہ بجلی کے صارفین پہلے ہی زائد بلز سے پریشان ہیں اور ان پر مزید بوجھ ڈالنا مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق ہے، تاہم اس فیصلے کو جیوڈیشل ایکٹوازم کے تناظر میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

ملک میں کہاںکتنے ٹیکس لگنے ہیں، بجلی، گیس یا پٹرول کی کیا قیمت ہونی چاہیے، فیول ایڈجسٹمنٹ چاجز لگنے چاہیے یا نہیں لگنے چاہیے، یہ طے کرنا حکومت اور انتظامیہ کا کام ہے، جب جوڈیشری انتظامی نوعیت کے معاملات پر کوئی فیصلہ دیتی ہے تو ایگز یکٹو اسے اپنے اختیارات میں مداخلت سمجھتی ہے، اسی لیے اسے جیوڈیشل ایکٹوازم کہا جاتا ہے۔

ایک اچھا نظام حکومت وہی ہوتا ہے جہاں تمام ادارے اپنی اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کریں۔ اختیارات کی اوور لیپنگ نظام کو مضبوط نہیں بلکہ کمزور کرتی ہے۔

آپ ریکوڈیک کا معاملہ دیکھیں! عالمی عدالت انصاف نے پاکستان کے خلاف فیصلہ دے دیا اور عالمی عدالت انصاف نے پاکستان کا یہ موقف ماننے سے بھی انکار کر دیا کہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے ریکوڈیک کے معاہدے کو منسوخ کرنے کا فیصلہ دیا ہے۔ اب ریکوڈیک کا دوبارہ معاہدہ ہوا تو اس میں شرط عائد کی گئی کہ آپ اپنی سپریم کورٹ سے اس کو منطور کرائیں، یہ کوئی اچھی شرط نہیں تھی۔

دنیا میں کہیں بھی کاروبار ی معاہدوں کے لیے عدالتی توثیق کی شرط نہیں رکھی جاتی۔ آئی ایم ایف حکومت کو بجلی قیمت بڑھانے اور سبسڈی ختم کرنے کا کہہ رہا ہے۔ ایسے میں حالیہ فیصلے کو کیسے دیکھا جائے۔

گزشتہ بجٹ میں حکومت نے پاکستان میں بہت زیادہ منافع کمانے والی کاروباری کمپنیز پر ایک سپر ٹیکس لگایا تھا۔ پاکستان کے خر اب معاشی حالات کے باعث منافع بخش کمپنیوں سے ایک دفعہ یہ سپر ٹیکس لینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ لیکن تمام امیر کمپنیاں اور امیر لوگ اس معاملے کو لے کر عدالت چلے گئے اور حکم امتناعی حاصل کر لیا۔

اب سپریم کورٹ نے یہ سپر ٹیکس آدھا جمع کرانے کا حکم دیا ہے،جس سے حکومت کو ایک سو ارب روپے اکٹھے ہوںگے، اگر پورا ٹیکس ہوتا تو حجم دو سو ارب روپے ہوتا، اس وقت ڈالر کا ریٹ بھی کم تھا، بہرحال عدلیہ کے فیصلوں کو تسلیم تو کرنا پڑتا ہے۔

میرا تھیسس تو صرف یہ ہے کہ جمہوری نظام مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے ستونوں پر کھڑا ہوتا ہے۔ اگر یہ ستون اپنے مقررہ فاصلے پر نہ ہوں، ان کی اونچائی اورگولائی میں فرق ہو تو نظام کی عمارت کمزور ہوجائے گی، اس کے گرنے کا خطرہ پیدا ہوجائے گا۔

یوں پاکستان میں سسٹم شکست و ریخت کا شکار ہوگیا، حکومت کے ہاتھ پاؤں باندھ کر انتظامی مشینری نہیں چلائی جاسکتی۔ اب کیا آئی ایم ایف بھی کہے گا کہ آپ نے ہم سے جو بھی معاہدہ کرنا ہے، اسے سپریم کورٹ اور اپنے تمام ہائی کورٹس سے منظور کرا کر لائیں کیونکہ کیا پتہ کب کس ٹیکس کے خلاف حکم امتناعی جاری ہوجائے،کون عدلیہ کو روک سکتا، وہ عوامی مفاد میں کوئی بھی فیصلہ دے سکتی ہے۔

ہم نے دیکھا ہے ملک میں دکانیں کھولنے اور بند کرنے کے کیا اوقات کا فیصلہ بھی عدلیہ کو ہی کرنا پڑا ہے۔بلاشبہ ایگزیکٹو کو ملک چلانے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے۔

ٹیکس لگانے اور مراعات دینے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے۔پارلیمنٹ کو قانون سازی کی مکمل آزادی ہونی چاہیے، یہ پارلیمان کا کام ہے کہ وہ جو چاہے قانون بنائے۔عدلیہ کو قانون بنانے اور پارلیمان کے بنائے ہوئے قانون میں ترمیم اور اسے ختم کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے، البتہ اسے قانون کی تشریح کا اختیار حاصل ہے تاکہ ابہام دور ہوسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔