عالم عرب اورخلیجی ممالک کے حالات

زبیر رحمٰن  بدھ 9 اپريل 2014
zb0322-2284142@gmail.com

[email protected]

فرانس کے محنت کشوں کی عظیم ہڑتال نے تیونس کے عوام کو آمر زین العابدین کے خلاف لڑنے کی قوت عطا کی اور وہاں کے عوام نے اسے مار بھگایا۔ بعد ازاں حسنی مبارک کی بدترین آمریت کے خلاف بھی تحریر اسکوائر پر لاکھوں عوام کا احتجاج رنگ لایا اور ان انقلابی اقدامات سے عرب بادشاہتوں میں کھلبلی مچ گئی۔ انھوں نے امریکی سامراج سے اس خوف کا اظہار کیا کہ کہیں ان کی لٹیا نہ ڈوب جائے۔ بہرحال امریکی سی آئی اے نے مصری خفیہ ایجسنی کے ایجنٹ اسمٰعیل سے ساز باز کر کے آلہ کار اخوان المسلمون کو 26 فیصد ووٹ سے جتوا کر انقلاب کا رخ موڑ دیا۔ مرسی کے اقتدار میں آنے کے بعد مہنگائی اور بے روزگاری میں اس حد تک اضافہ ہو گیا کہ ایک کروڑ 70 لاکھ عوام مرسی حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔

ایک بار پھر انقلاب کی عظیم لہر دوڑ پڑی۔ اب ڈھکے چھپے انداز میں انقلاب کو روکنا ممکن نہ تھا، اس لیے ایک عرب بادشاہت نے براہ راست مصری فوج کی تائید و حمایت کرتے ہوئے 6 بلین ڈالر کی فوری امداد اور بعد میں مزید6 ارب ڈالر دینے کا اعلان کر دیا۔ مرسی کو قطری بادشاہت کی حمایت جب کہ فوجی حکومت کو سعودی حمایت و آشیرباد حاصل ہے۔ تحریر اسکوائر کی عرب بہار انقلاب سے متاثر ہو کر امریکی ریاستوں کے عوام بھی سڑکوں پر نکل آئے اور یہ نعرہ دیا کہ ’ مصریوں کی طرح لڑو‘۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ اسرائیل کی 77 لاکھ کی آبادی میں 7 لاکھ شہری سڑکوں پر نکل آئے۔ اسی دوران لیبیائی حکومت کی جانب سے اداروں کی نجکاری اور عوام کی بے روزگاری اور مہنگائی کے خلاف عوام میں انقلابی ردعمل شروع ہو گیا، وہ حکومت کے خلاف انقلابی تبدیلی کے لیے نبرد آزما ہو گئے۔ بعد ازاں سامراجی آلہ کار دائیں بازو کے رجعتی عناصر نے اس انقلاب کو سامراجی سازشوں کے ذریعے خانہ جنگی میں تبدیل کر دیا۔ یہی صورت حال عراق کی ہے۔

امریکی سامراج لاکھوں عراقیوں کو قتل اور بے گھر کرنے کے باوجود کچھ حاصل نہ کر پایا۔ آج بھی روزانہ عراق میں 10/15 افراد لقمہ اجل ہو رہے ہیں۔ عوام بھوک، افلاس، مہنگائی اور غذائی قلت سے بلبلا اٹھے ہیں۔ تیل کے بھاری ذخائر کے باوجود عوام غربت کی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ نسبتاً مستحکم عراق آج فرقہ واریت کا شکار ہے۔ عرب بہار انقلاب کی لہر سعودیہ کے پڑوسی ملکوں یمن اور بحرین تک جا پہنچی۔ یہاں تک کہ صالح عبداﷲ کو بھاگنا پڑا، پھر سعودی سہاروں سے پناہ ملی۔ اور یمن کے جنوب میں بایاں بازو عوامی مسائل پر قابل ذکر ہڑتالیں اور مظاہرے کر رہا ہے۔

جب کہ شمال میں رجعتی القاعدہ دہشت گردی اور قتل و غارت گری میں مصروف عمل ہے۔ دوسری جانب بحرینی عوام نے انقلابی جدوجہد شروع کر رکھی ہے۔ سعودیہ نے اپنی فوج بحرین بھیج کر عوامی انقلاب کو وقتی طور پر کچل دیا۔ سعودیہ کا بحرین سے متصل صوبہ جہاں بھاری مقدار میں تیل نکلتا ہے یہاں بھی عوام بغاوت پر اتر آئے اور ہڑتال اور مظاہرے کیے۔ ادھر شام کی حکومت نے نجکاری کا عمل کئی سال سے شروع کر رکھا تھا جس کے نتیجے میں عوام بے روزگار ہو رہے تھے، نتیجتاً عوام نے بشار الاسد کے خلاف میدان میں انقلابی عمل شروع کر دیا، پھر یہاں سامراج اور ان کے آلہ کاروں نے اس انقلاب کو خانہ جنگی میں تبدیل کر دیا۔ قطر، سعودیہ، امریکا، ترکی اور اردن نے شام میں براہ راست مداخلت شروع کر دی۔

اسی دوران سعودیہ اور قطر کی بادشاہتوں میں آپس کے مفادات کی خاطر اختلافات شروع ہو گئے۔ واضح رہے کہ قطر کی 18 لاکھ کی آبادی میں 80 فیصد غیر ملکی ہیں، جب کہ سعودیہ کی ڈیڑھ کروڑ کی آبادی میں بھی 80 فیصد غیر ملکی ہیں۔ سعودیہ  نے حال ہی میں القاعدہ، حماس، حزب اﷲ، اخوان المسلمون، النصرۃ اور ان سے منسلک کئی تنظیموں کو دہشت گر د قرار دیا ہے۔ یہ ایک عجیب و غریب بات ہے کہ طالبان افغانستان اور پاکستان میں امریکا کے خلاف (مفادات کی خاطر) جنگ لڑ رہے ہیں جب کہ انھی طالبان اور القاعدہ کو امریکی سی آئی اے اردن میں شام کے خلاف تربیت دے رہا ہے۔ ادھر شامی حکمران نہتے شہریوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔ وہاں امریکا اور روس اپنے معاشی اور مالی مفادات کی پراکسی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں سعودیہ  نے 1.5 ارب ڈالر پاکستان کو تحفہ دیا ہے۔

انگریزی میں ایک مشہور کہاوت ہے (No lunch without payment) ’کسی ہوٹل میں پیسے ادا کیے کے بغیر کھانا نہیں کھایا جا سکتا ہے۔ پہلے ہی سے بحرین کے انقلابیوں کو کچلنے کے لیے بیرونی فوجی بھرتی کرنے کے لیے ریکروٹنگ کی اطلاعات ہیں، کہا جاتا ہے کہ اب فوج اور اسلحہ براہ راست بحرین اور شام کے لیے بھیجنے کی تجویز لے کر سعودی ولی عہد اور بحرینی فرمانروا پاکستان آئے تھے۔ اب بھلا بھیجا بھی جائے گا تو یہ بات کس کو نہیں معلوم کہ اسے خفیہ رکھا جائے گا۔ کیا یہ لمحہ فکریہ نہیں کہ ہم اردن، سعودیہ، بحرین، اومان کے لیے اور شام کے خلاف کھلے بندوں اور کبھی درپردہ استعمال ہوتے آ رہے ہیں۔ ادھر ایران اپنے دائرہ اثر کو پھیلانے کے لیے شام، لبنان، بحرین، سعودیہ، کویت، اردن، پاکستان یعنی ہر طرف براہ راست اور بالواسطہ مداخلت کر رہا ہے۔

اقتصادی ماہرین کے مطابق 8 سالہ جنگ (ایران عراق) کے بعد یہ ایران کی تاریخ کا سب سے چھوٹا بجٹ ہے۔ کیونکہ ملکی بجٹ 30 فیصد افراط زر کے با وجود 2014ء کے مقابلے میں 8 فیصد سکڑ گیا ہے اور یہ 1990ء سے 2014ء تک کبھی نہیں دیکھا گیا۔ یہی صورت حال سعودیہ کی ہے کہ وہاں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 25 فیصد لوگ بے روز گار ہیں۔ عرب بہار انقلاب شروعات کا ایک جھونکا تھا جس میں سلطنطوں کی چولیں ہلا دیں، تو محنت کشوں، کارکنوں اور شہریوں کو ایک نیا ولولہ اور جوش و جذبہ عطا ہوا ہے۔ اب وہ آیندہ اس جبر، بھوک، طبقاتی تفریق، بے روزگاری، ذلت اور اذیت کے خلاف فیصلہ کن انقلاب کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں اور ان مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی یا امداد باہمی یا پنچایتی یا کمیونسٹ یا نسل انسانی کی عبوری سماجی کمیٹیاں بنانے میں مضمر ہے، جہاں کوئی طبقہ نہیں ہو گا ،  سب مل کر پیداوار کرتے ہیں، تو مل کر بانٹ لینے اور ضرورت کے اعتبار سے تقسیم کرنے کا بھی حق رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔