پیاسا جنگل اور چرندے

سعد اللہ جان برق  ہفتہ 11 فروری 2023
barq@email.com

[email protected]

آج ہم آپ کو ایک خوبصورت کہانی سنانا چاہتے ہیں جو اس بات کا ایک زبردست استعارہ ہے کہ قدرت کے اس عظیم خود کار نظام کو کس ذہانت اور مہارت سے انجینئرڈ کیا گیاہے اور جس میں ہر ایک پرزہ، گراری اور نٹ بولٹ کس کمال سے اپنا کام کر رہاہے بلکہ یہ بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ یہ ایک باقاعدہ زنجیر ہے جس کی کوئی کڑی بیکار اور بے مقصد یا فالتو نہیں، ہرقسم کی مخلوقات چرندے، پرندے، خزندے، گزندے اور حشرات تک اپنا اپنا کام کر رہے ہیں اوراگر ان میں سے کوئی بھی کڑی نکل جائے تو بہت بڑ ی خرابی جنم لیتی ہے ۔

کہانی یوں ہے کہ ایک بہت بڑا جنگل تھا جس میں ہر طرح کے جانور تھے لیکن علاقے کے لوگوں کو شکار کا شوق ہوگیا اور انھوں نے جنگل کے سارے درندوں کو ختم کر ڈالا ،شیر، بھیڑئیے اور دوسرے سارے درندے ختم ہوگئے تو سبزہ خور جانوروں کی تعداد بہت زیادہ بڑھ گئی۔

ہرن، خرگوش، بھیڑ، بکریاں، گائے، بھینس روز بروز بڑھتی رہیں، چرتی رہیں یہاں تک کہ اس جنگل کا سارہ سبزہ ختم ہوگیا، درخت کم ہوگئے ،جو رہ گئے وہ ٹنڈ منڈ رہ گئے اور جانورکہیں ایک پتہ ایک کونپل بھی نہیں چھوڑتے، جنگل ختم ہوگیا تو موسم بھی بدل گیا، بارشیں رک گئیں، ہوائیں چلنا بند ہوگئیں اور بہت سخت سوکھا پڑگیا، لوگ ایک ایک دانے اور ایک بوند پانی کے لیے ترسنے لگے ۔

پھر وہاں کے لوگ ایک دانا شخص کے پاس گئے اوراس سے مسئلے کاحل پوچھا ،دانا آدمی نے سارے حالات سنے تو ان لوگوں سے کہا،کسی دوسرے جنگل سے درندوں کا ایک ایک جوڑالاکر جنگل میں چھوڑدو، لوگوں نے ایسا ہی کیا، شیر،بھیڑیوں دوسرے درندوں کے جوڑے لاکر جنگل میں چھوڑتے گئے تو انھوں نے سبزہ خور جانوروں کو کھانا شروع کیا۔

آہستہ آہستہ سبزی خور جانور کم ہوگئے اور درندے بڑھ گئے، درندے چونکہ کم بچے دیتے ہیں اور ان کاشکار ہونے والے چرندے زیادہ بچے دیتے ہیں اس لیے تھوڑے ہی عرصے میں توازن برابر ہوگیا، جنگل ہرا بھرا ہوگیا اور بارش برسنا شروع ہوگئیں۔

قصہ سنانے والے بزرگ نے خودکشی کرنے والے نوجوان سے کہا کہ خودکشی کرکے فرار ہونے سے بہتر ہے کہ تم اس جنگل کا شیر بن جاؤ اور جنگل کا ستیاناس کرنے والے چرندوں کو کم کردو ، بات نوجوان کی سمجھ میں آگئی وہ واپس گھر پہنچا ،چند لوگوں سے بات کی تو وہ پہلے سے تیار بیٹھے تھے۔

پہلے ٹولی بنی پھر گروہ پھر پارٹی پھر تحریک اور پھر انقلاب ۔ یوں اس جنگل کے چرندے کم ہوتے ہوتے اعتدال پر آگئے ۔دراصل  جس جنگل کی ہم بات کرتے ہیں یہاں اگر انقلاب بھی آتا ہے تو پر امن آتا ہے حالانکہ لفظ انقلاب کامطلب ہے نیچے کی مٹی اوپر اور اوپر کی مٹی نیچے ہونا ۔

یہاں کتنے انقلابی آئے جو ’’شیر ‘‘ لگتے تھے لیکن کچھ دنوں بعد پتہ چلا کہ وہ شیر کی کھال پہنے’’ چرندے‘‘ تھے اور چرندوں میں مل کر چرتے آئے تھے اور بعد میں ان کے الگ جھنڈ اور گلے بھی بنتے چلے گئے کیوں کہ یہ جنگل بنیادی طور پر ہی سبز تھا ،سبز خوروں کے سبزقدم جب سے اس میں پڑے ہیں تب سے جو بھی آتا ہے، اپنی سبزہ خوروں کی سبزی لیے ہوئے ہوتاہے ،نام بدل جاتے ہیں ،نعرے بدل جاتے ہیں، جھنڈے بدل جاتے ہیں لیکن ’’سبز‘‘ رنگ سب میں شامل ہوتا ہے ۔

پہلا شیرایوب خان تھا بہت گھن گرج کے ساتھ آیا تھا اور ایسا لگتا تھا جیسے سبزہ خوروں کو نگل جائے گا لیکن کچھ دنوں بعد ہی اس نے شیر کی کھال اتاری تو اندر سے سبزی خور نکل آیا اورسبزہ خوروں کا ایک جھنڈ بنا کر چرنے اور چرانے لگا۔

اس کی جڑوں سے ایک اور شیر نکل آیا تو پورا جنگل ہلنے لگا لیکن دیکھاگیاکہ وہ جدی پشتی سبزہ خور تھا بلکہ سبزہ خوروں کا سردار تھا اورابھی ابھی تازہ تازہ جو ببر شیردکھائی دینے والا آیا تو اس نے تو جنگل کی واٹ لگا دی ،سبزہ اور پتے تو کیا ایسے بھوکے سبزہ خور اپنے ساتھ لایا تھا کہ ٹہنیاں تک چباگئے اسے تو کسی بھی کام سے کام نہیں تھا بس۔

میں تو ہیلی کاپٹر میں بیٹھوں گا

مجھے ہیلی کاپٹر دو ۔ مجھے ہیلی کاپٹر میں بٹھا دو

چاہے جنگل کو آگ لگ جائے، بارشیں رک جائیں، مرطوب ہوائیں چلنا بند ہوجائیں مگر۔ میں تو ہیلی کاپٹر میں بیٹھوں گا، ہیلی کاپٹر میں بیٹھنا میرا حق ہے۔ ہیلی کاپٹر ،ہیلی کاپٹر، ہیلی کاپٹر اور پھر ہیلی کاپٹر۔

نیا کی تمنا ہے کہ ہیلی کاپٹر مل جائے

چاہے کسی کی جان چاہے کسی کادل جائے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔