تاریخ ساز انکار

جمیل مرغز  منگل 14 فروری 2023
jamilmarghuz1@gmail.com

[email protected]

چند دن قبل ’’خاموشی جرم ہے‘‘کے عنوان سے محترمہ زاہدہ حنا نے ایک بہترین کالم لکھا تھا‘اس میں ذکر تھا ’’سماج میں دانشوروں‘ سائنسدانوں‘ فلسفیوں‘ تاریخ دانوں‘ ادیبوں اور اہل قلم کے اس کردار کا جس میں انھوں نے ہزاروں برس کے دوران اپنے غور و فکر سے سماج کو تبدیل کیا اور فکری ارتقاء کی نئی راہیں کھولیں‘ ان مرحلوں سے گزرتے ہوئے کچھ اپنی جان سے گئے‘ کچھ جلاوطن ہوئے اور کچھ غدار اور گمراہ ٹھرائے گئے۔

ان میں سقراط‘ ابن رشد‘برونو‘گیلیلو ‘کوپر نیکس‘ روسو‘ والٹئیر‘کارل مارکس ‘اینگلز‘ فرائیڈ‘آئن سٹائن‘ سارتر‘ نوم چومسکی ‘فیض ‘سبط حسن‘جالب‘حسن ناصر‘نذیر عباسی اور دوسرے بہت سے کردار شامل ہیں‘اس کالم سے متاثر ہو کر میں نے سوچا کہ ان کے علاوہ کچھ کردار ایسے بھی ہیں ‘جن کے انکار نے تاریخ کا رخ بدل دیا ۔

میں نے آج کے کالم میں ان تاریخی انکار کے چند واقعات کا ذکر کیا ہے ۔کبھی کبھی زندگی میں ایسے لمحے بھی آجاتے ہیںجب کسی کے ایک جرات مندانہ انکارسے تاریخ کا رخ تبدیل ہو جاتا ہے ‘جر منی کے چانسلر ولی برانڈت نے اوریانا فلاسی سے کہا تھا ’’جب کوئی فردایک مخصوص صورت حال میں ایک صحیح قدم اٹھالے‘ تواسی وقت تا ریخ اپنا رخ تبدیل کر لیتی ہے‘‘۔

جب کسی شخص یا روایت کو کو ئی چیلنج کرنے والا نہ ہو تو اس کو چیلنج کر نے والا اصل میں تاریخ کا پہیہ گھمانے کی کوشش کر رہا ہو تا ہے ‘ تاریخ میں ایسے واقعات مل جاتے ہیں جب کسی کے ’’جرات مندانہ انکار ‘‘سے تاریخ کا راستہ تبدیل ہو جاتا ہے۔

یونانی اساطیری داستانوں کے ہیرو ‘جسے پہلا سیاسی قیدی بھی کہا جاتا ہے ‘پروموتھیوس کو دیوتاؤں نے منع کیا تھا کہ وہ انسانوں کو آگ نہ دے ‘کیونکہ آگ صرف دیوتاؤں کے استعمال کے لیے ہے اور انسان آگ کے استعمال کے قابل نہیں‘پروموتھیوس نے اس حکم کو ماننے سے انکار کردیا اور آگ انسانوں کو دے دی۔

دیوتاؤں کو تاریخی انکار کی وجہ سے انسان کو آگ نصیب ہوئی، اس پر ترقی کے دروازے کھل گئے‘ لیکن پروموتھیس دیوتاؤں کے غضب کا نشانہ بنا، یونانی دیومالا میں بیان کیا گیا ہے کہ اس ناقابل معافی جرم کی پاداش میں پروموتھیوس کو کوہ الپس کی چوٹی پر صلیب پرباندھ دیا گیا‘دن بھر عقاب اس کا دل اور بدن نوچتے ہیں لیکن رات کو وہ پھر زندہ ہوجاتا ہے اور صبح پھر عذاب سے گزرتا ہے اور یہ عذاب ہمیشہ اس پر نازل رہے گا۔

جنوبی افریقہ میں سفید فاموں نے بد تریں نسلی امتیاز (apartheid) پر مبنی حکومت قائم کی تھی‘ ملک کی اکثریت اور اصلی مالکان سیاہ فام لوگوں کو بد ترین ظلم اور نسلی امتیاز کا نشانہ بنایا جاتا‘ان ایام میں بیرسٹر موہن داس کرم چند گاندھی وہاں وکالت کرتے تھے۔

ایک دن وہ پارک میں بنچ پر بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے‘ اچانک دو سپاہی آئے اور ان سے کہا کہ تم نے گیٹ پر بورڈ نہیں پڑھا ‘ بورڈ پر لکھا تھا کہ ’’ کتوں اور سیاہ فام لوگوں کا داخلہ منع ہے‘‘ ((Blacks and dogs are not allowed۔ انھوں نے کہا لیکن میں انسان ہوں نہ میں کتا ہوں اور نہ سیاہ فام ‘ انھوں نے کہا کہ تم نے اپنا چہرہ دیکھا ہے۔

کالے کلوٹے فوراً یہاں سے باہر نکل جاؤ‘ ا نہوں نے بات سنی ان سنی کر دی اور اخبار پڑھنے لگا‘ سپاہی زبر دستی ان کو اٹھانے کی کوشش کر تے لیکن وہ بنچ کے ساتھ چمٹ جاتے ‘ مار پیٹ کے بعد دوبارہ اٹھ کر کپڑے جھاڑ تا اور اخبار کے مطالعے میں مصروف ہو جاتا ‘ گورے سپاہیوں نے دو تین دفعہ اس پر حملہ کیا لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوا‘ آخر کار وہ سپاہی تھک ہار کر واپس چلے گئے ‘ کہتے ہیں کہ جنوبی افریقہ میںگاندھی پہلا غیر سفید فام تھا جس نے نسل پرستی کے قوانین کو ماننے سے انکار کیا اور گوروں کے لیے مخصوص پارک میں جاکر بیٹھا اوراخبار پڑھنے لگا حالانکہ وہ افریقی سیاہ فام نہیں تھے۔

انھوں نے خود کہا ہے ’’ اس واقعے نے مجھے عدم تشدد کی راہ بھی دکھا دی کہ اگر ارادہ مضبوط ہو تو تشدد کے بغیر بھی انسان اپنامقصد حاصل کر سکتا ہے‘‘۔ کہتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد وہاںکے سیاہ فام باشندوں نے جگہ جگہ نسل پرست قوانین کی خلاف ورزیاں شروع کر دیں ‘ یوں جنوبی افریقہ کی آ زادی کی بنیاد گا ندھی کی ایک چھوٹی سی جرات رندانہ سے پڑی۔

یکم دسمبر1955 امریکہ کے شہر منٹگمری میں ایک سیاہ فام خاتون روزا پارکس کلیو لینڈ ایو نیو پر ایک بس میں گھر جارہی تھی ‘ راستے میں ایک سفید فام بس میں سوار ہوا تو سفید فاموں کے لیے مخصوص نشستوں میں کوئی سیٹ خالی نہیں تھی ‘کنڈکٹر نے اس سیاہ فام خاتون سے جو سیاہ فاموں کے لیے مخصوص نشستوں پر بیٹھی تھی۔

کہا کہ سفید فام شخص کے لیے سیٹ خالی کرے اور سب سے پچھلی نشست پر چلی جائے کیونکہ یہ ریاست البامہ کا قانون تھا کہ سفید فام اور سیاہ فام الگ الگ بیٹھ کر سفر کریں گے اور بیٹھنے کا حق سفید فام کو ہوگا‘ اس خاتون نے سیٹ چھوڑنے سے انکار کر دیا، اس پر بڑی لے دے ہو ئی ‘ کنڈکٹر نے پولیس بلائی جو روزا کو گرفتار کرکے لے گئی۔

عدالت نے اس کو دس ڈالر جرمانہ کیا‘ جب سیاہ فاموں کو اس واقعہ کی اطلاع ملی تو ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا ‘ 380 دن تک شہر کے ٹرانسپورٹ سسٹم کابائیکاٹ کیا گیا‘عظیم سیاہ فام رہنما ڈاکٹر مارٹن لو تھر کنگ جونیئر اس تحریک کی رہنمائی کر رہے تھے۔

ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ کی زیر صدار ت نسلی امتیاز کے خاتمے کے لیے ایک تنظیم MIA Montgomery Improvement Association) ( بنائی گئی‘ اس تحریک کے نتیجے میں نومبر1956 میں فیڈرل کورٹ نے یہ قانون ختم کر دیا ‘ پورے ملک میں  یہ تحریک پھیل گئی اور آ خر کار امریکہ میں سیاہ فاموں کے خلاف تمام امتیازی قوانین کا خاتمہ کر دیا گیا ‘ان کو امریکہ کے گوروں کے برابر شہریوں کا درجہ دیا گیا اور تمام آئینی حقوق حاصل ہو گئے۔

اس دن کو امریکہ میں بنیادی حقوق کے دن(Civil Rights Day) کے طور پر منا یا جاتا ہے ‘ا ک سیاہ فام خاتون نے ایک دفعہ روزا پارکس سے کہاکہ ’’جب آپ بیٹھتی ہیں تو ہم سب آپ کے احترام میں کھڑے ہوجاتے ہیں ‘‘ اس عظیم خاتون کے انکار نے تاریخ کا رخ موڑ دیا‘امریکہ اسی ایک انکار کی وجہ سے آج ا یک مہذب ملک ہونے پر فخر کرتا اور دوسروں کو بنیادی حقوق کی تعلیم دیتا ہے۔

9 مارچ2007 کادن بھی تاریخ کے صفحات پر رقم ہو چکا ہے‘ اس مبارک دن چیف جسٹس آف پاکستان جناب افتخار چوہدری نے فوجی وردی کے سامنے جھکنے سے انکار کرکے پاکستانی سیاست اور اسکی تاریخ کا رخ موڑ دیا‘اس نے خوئے غلامی کی عادی قوم کو ایک زبان دے دی ‘ان کو ایک نیا ولولہ عطا کیا‘ چیف جسٹس نے فوجی وردیوں کے نرغے میں استعفا دینے سے انکار کر دیا۔

یہ انکار جنرل پرویز مشرف کے زوال کا سبب بنا‘یہ ایک الگ کہانی ہے کہ اتنی بڑی عدلیہ آزادی کی تحریک کے بعد بھی عوام کو جلدی اور سستا انصاف نہ مل سکا‘ نپولین نے کہا تھا کہ ’’جنگ کے دوران ایسے لمحات آجاتے ہیں ’ جب تھوڑی سی بہتر حکمت عملی فتح دلاسکتی ہے‘ کبھی کبھی پانی کا ایک قطرہ بھی جہاز کو ڈبو سکتا ہے۔

آج پاکستان کے 22 کروڑ مسلمانوں کی ایٹمی قوت رکھنے والی حکومت کے حکمرانوں میں یہ جرات نہیں کہ آئی ایم ایف کے افسروں کے سامنے کچھ کہہ سکے اور اپنے عوام کی حالت زار بیان کر سکے۔

حکمران ان کو یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ عوام میں مزید مہنگائی برداشت کرنے کی سکت نہیں ہے۔ملک کے سرمایہ داروں نے اربوں ڈالر ذخیرہ کیے ہیں لیکن مجال ہے کہ کسی کے دل میں وطن کی محبت جاگ جائے اور اپنے ڈالر ‘روپے کے بدلے حکومت کو دے دے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔