وقت دعا

رئیس فاطمہ  جمعـء 24 فروری 2023
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

آج جو حالات ہمارے ملک کے ہیں وہ نہایت تباہ کن ہیں، پتا نہیں آگے کیا ہونے والا ہے، ایسے میں حالیؔ کی ایک مناجات آج مجھے بہت یاد آ رہی ہے۔

یہ مناجات دسمبر 1914 سے قبل لکھی گئی تھی، کیونکہ 31 دسمبر 1914 میں حالی وفات پا چکے تھے، لیکن اس مناجات کے بعض اشعار ہماری موجودہ صورت حال کے عکاس ہیں۔

مناجات

اے خاصۂ خاصان رسل وقت دعا ہے

امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے

جو دین کہ ہمدرد بنی نوع بشر تھا

اب جنگ و جدل چار طرف اس میں بپا ہے

فریاد ہے اے کشتی امت کے نگہباں

بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے

کر حق سے دعا امت مرحوم کے حق میں

خطروں میں بہت جس کا جہاز آکے گھرا ہے

تدبیر سنبھلنے کی ہمارے نہیں کوئی

ہاں ایک دعا تیری کہ مقبول خدا ہے

جو دیں کہ تھا شرک سے عالم کا نگہباں

اب اس کا نگہبان اگر ہے تو خدا ہے

جو تفرقے اقوام کے آیا تھا مٹانے

اس دین میں خود تفرقہ اب آ کے پڑا ہے

جس دین نے غیروں کے تھے دل آ کے ملائے

اس دین میں اب بھائی سے بھائی جدا ہے

وہ دین ہوئی بزم جہاں جس سے چراغاں

اب اس کی مجالس میں نہ بتی نہ دیا ہے

ہم نیک ہیں یا بد ہیں پھر آخر ہیں تمہارے

نسبت بہت اچھی ہے اگر حال برا ہے

کیا یہی حال نہیں ہے ہمارا کہ ہماری معیشت کا جہاز طوفان باد و باراں میں آ کر پھنس گیا ہے، ہر طرف افراتفری ہے، لوگ پریشان ہیں، آٹا نہیں ہے، دالیں نایاب ہیں، گوشت کی قیمتوں کو پر لگ گئے ہیں، پھلوں کو تو بس دور سے دیکھ کر لوگ خوش ہو جاتے ہیں۔

پیٹرولیم مصنوعات مہنگی ہوگئی ہیں، آٹا مہنگا ہونے سے بیکری آئٹم مزید مہنگے ہوگئے ہیں، لیکن ایک طبقہ ایسا بھی ہے جن کے گھر کے باہر گارڈ بیٹھے ہیں، مہنگائی ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں، ریستوران ویسے ہی کھلے ہیں۔

شاپنگ سینٹروں میں ویسا ہی رش ہے، یہ وہ طبقہ ہے جسے آپ طبقہ امرا کہتے ہیں، جن کے لیے کچھ بھی مسئلہ نہیں، انھیں ملک کی بگڑتی ہوئی صورت حال سے کوئی سروکار نہیں کہ ان کا بینک بیلنس باہر ہے، یہ جو چور نگہبان ہیں ان کے بریف کیس تیار ہیں، جوں ہی ملک دیوالیہ ڈیکلیئر ہوا، یہ اپنے اپنے سوٹ کیس اٹھا کر یورپی ممالک چلے جائیں گے۔

بار بار یہ بھی کہا جا رہا ہے اور لکھا جا رہا ہے کہ ملک میں کوئی ماہر اقتصادیات یا ماہر معاشیات نہیں ہے، اسحاق ڈار صرف چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ ہیں، معیشت یا اقتصادیات سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں، عمران خان کی حکومت میں بھی کوئی ماہر معاشیات وزیر خزانہ نہیں تھا۔ اسحاق ڈار ،نواز شریف کے سمدھی ہیں، اگر ملک میں کوئی اکنامسٹ نہیں ہے تو ملک و قوم کی بقا کے لیے یورپ یا امریکا سے بلوائے جا سکتے ہیں۔

جب کرکٹ کے کوچ غیر ملکی ہو سکتے ہیں تو پھر ماہرین معاشیات کیوں نہیں بلوائے جا سکتے؟ پاکستان کی حالت اس وقت ’’ساجھے کی ہنڈیا‘‘ والی ہے جو چوراہے پہ پھوٹنے والی ہے، ہر جماعت اقتدار میں آنا چاہتی ہے یہ ساری کھینچا تانی، گرفتاریاں، دھرنے سب اقتدار کے لیے ہے۔

(ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کئی کئی بار اقتدار میں آ کر اپنے اپنے ذاتی خزانوں کے منہ بھر کے بیٹھی ہیں اور اب پھر قیادت کی رسہ کشی شروع ہو چکی ہے۔

ایک پارٹی نے ضیا الحق کی کیاری میں جنم لیا اور قسمت نے انھیں وزیر اعظم بنوا دیا، انھوں نے خزانے بھرنے شروع کردیے، دوسری پارٹی نے ’’بھٹو‘‘ کا ٹیگ لگا کر راگ بلاول کو قومی راگ بنانے کی کوششیں شروع کردیں، ان کے بھی خزانے بھر گئے۔

پی ٹی آئی سے لوگوں کو امیدیں تھیں قمر باجوہ کا دست شفقت عمران خان کے سر پر تھا، لیکن یہ ایک ایسی ڈیل تھی جیسے کسی بچے کے ضد کرنے پر پستول اس کے ہاتھ میں پکڑا کر ٹریگر پر باپ اپنا ہاتھ رکھ لیتا ہے کہ بچے کو ٹریگر دبانے کی اجازت نہیں ہوتی۔

عمران خان اچانک بڑے ہوگئے اور اپنے آقاؤں کو آنکھیں دکھانے لگے وہ باجوہ صاحب کی گرفت سے نکلنے کے لیے پھڑپھڑانے لگے تو انھوں نے ان کے پَر کتر دیے ۔

اب عمران خان سڑکوں پر ہیں اور احتجاج کر رہے ہیں، شاید ان کو اپنی غلطیوں کا احساس ہوگیا ہو کہ انھوں نے اپنے اردگرد جو لوگ جمع کیے تھے وہ ناعاقبت اندیش تھے، لیکن ان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے (ن) لیگ اور پی پی دونوں ہی ہراساں ہیں، محسن نقوی کو کیوں لایا گیا یہ بھی اب ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔

لیکن اس سارے کھڑاک میں ملک کی بہتری کی کسی کو پرواہ نہیں، جنرل باجوہ نے عمران خان کو سزا دینے کے لیے ان لوگوں کو اقتدار کی مسند پہ بٹھا دیا جن کے خلاف کئی کیس تھے، وہ خود وزارت کا تاج پہن کر بیٹھے اور بیٹے کے سارے کیس ختم کروا کے اسے وزیر اعلیٰ لگوا دیا، اب نواز شریف کے کیس بھی ختم ہو جائیں گے۔

دل چاہتا ہے مقتدرہ سے درخواست کروں کہ ’’بس بہت ہو گیا، لیکن یہ بھی جاگتی آنکھوں کا خواب ہے، ملک سے کسی کو محبت نہیں، سب اپنا اپنا راگ الاپ کر چلے جاتے ہیں اور ہر آنے والا کہتا ہے ’’خزانہ پچھلی حکومت نے خالی کیا‘‘ تمام غلط کام پچھلی حکومت کے کھاتے میں ڈال کر اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں، ذرا سوچیے کہ ملک میں آسودگی نام کی کوئی چیز نہیں، اپنی ڈفلی اپنا راگ والا معاملہ ہے۔

خدا کرے جنرل عاصم منیر وہ غلطی نہ کریں جو قمر جاوید باجوہ نے کی۔ سنا ہے وہ مارشل لا لگانے والے تھے، اگر مارشل لا لگ بھی جاتا تو کیا ہوتا؟ وہ جو چلمن سے لگے بیٹھے تھے وہ سامنے آ جاتے اور کیا ہوتا۔ یہاں نہ کسی کے دل میں قوم کا درد ہے نہ اجتماعی فکر ہے کسی کو، اوپر سے نیچے تک سب اقتدار کے لیے کوشاں ہیں، یہاں کوئی خود مختار نہیں ہے۔

سب ان کی بات مانتے ہیں جو اصل حکمران ہیں لہٰذا ان کی بات مانی جائے جو لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد اس ملک کے اصل حاکم ہیں۔

ایسے میں کیا بہتری کی امید کی جاسکتی ہے، جب آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہو۔کسی کے پاس کوئی اقتصادی اور معاشی پلان نہیں ہے۔بس بندر اور ڈگڈگی والا کھیل جاری ہے۔

سمجھ میں نہیں آتا کہ جب کشکول لیکر بھیک مانگنے جاتے ہیں تو ستر ستر آدمی وفد میں کیوں جاتے ہیں، مہنگے ترین ہوٹلوں میں کیوں ٹھہرتے ہیں، وہ کیا سوچتے ہوں گے اور کیا سوچ کر کشکول میں بھیک ڈالتے ہوں گے؟ کہنے کو ہم ایٹمی طاقت ہیں لیکن کس کام کے؟ آٹا نہیں، پٹرول نہیں، اشیائے خور و نوش نہیں، سبزی، دالیں، انڈے ، گوشت، ڈبل روٹی سب کچھ بے حد مہنگی لیکن گھبرانے کی کیا بات ہے کہ تسلی رکھیے ’’ہم ایٹمی طاقت ہیں۔‘‘

بس اب دعا کرنا ہی رہ گئی ہے کہ معاملات ہاتھوں سے نکل گئے ہیں، حالیؔ کی طرح قوم کے لیے دعا کیجیے کہ:

اے خاصۂ خاصان رسل وقت دعا ہے

امت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔