زباں فہمی 176؛ اردو اور راجستھان (حصہ دُوَم)

سہیل احمد صدیقی  اتوار 26 فروری 2023
زباں فہمی 176؛ اردو اور  راجستھان (حصہ دوم) 
تحریر: سہیل احمد صدیقی، فوٹو : روزنامہ ایکسپریس

زباں فہمی 176؛ اردو اور راجستھان (حصہ دوم) تحریر: سہیل احمد صدیقی، فوٹو : روزنامہ ایکسپریس

 کراچی: وسطی ہند آریائی زبانوں میں، سب سے نمایاں نام اردو کا ہے، جبکہ اسی خاندان کی مغربی شاخ راجستھانی کا اس زبان سے قدیم تعلق بھی ماہرین لسانیات اور ادبی قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث ہے۔

راجستھانی کا احاطہ وسیع ہے،اس کی بولیوں کی فہرست اچھی خاصی طویل ہے اور ان کے نام قدرے مشکل۔ یہ راجستھان کے علاوہ، بھارتی ریاست ہریانہ، گجرات، مدھیہ پردیش اور پاکستانی صوبوں پنجاب اور سندھ میں بولی جاتی ہے۔ گجراتی اور سندھی کو اس کی بہن کہاجاتاہے۔پروفیسر ڈاکٹر عزیز انصاری کی تحقیق یہی کہتی ہے کہ ”اردو کی ماں، برج بھاشا کو تسلیم کریں یا کسی پراکِرِت کو، بہرحال یہ وہی زبان ہے جو سنسکِرِ ت کے عہد کے بعد، برصغیر پاک وہند کے وسیع علاقے میں، تھوڑے تھوڑے سے فرق کے ساتھ، رائج تھی۔

سندھ سے بِہار اور لاہور سے مالوَہ تک اس کی عمل داری تھی اور راجستھان میں یہی زبان بولی جاتی تھی۔یہ وہی علاقہ یا خطہ ہے جسے یجُروید(Yajur veda)میں مَدھ دیش [Midland]کا نام دیا گیا ہے۔غالباً یہی وہ ابتدائی اور بنیادی سبب ہے جس کی وجہ سے راجستھانی، سندھی،گجراتی، پنجابی اور مالوی بولیو ں میں ایک گہرا لِسانی اتحاد نظر آتا ہے“۔(’اردو اور راجستھانی بولیاں‘)۔

راجستھانی کی تشکیل، صدیوں پہلے،لوک ادب یعنی زبانی شاعری کی تخلیق سے ہوئی جو گم شدہ دریا، سرسوتی کے کنارے آباد، کولایت(بیکانیر) میں مقیم آچاریوں نے کی۔ یہ جگہ آج ہندومَت کے ماننے والوں کے لیے مقدس ہے۔اس کے فروغ میں ہندوفرقے جین مَت کے سنت حضرات کا بڑا حصہ ہے جنھوں نے اپنی مذہبی کتب اسی زبان میں تحریر کیں۔(موجودہ ہندومَت میں غالب حصہ بشمول گوشت خوری سے اجتناب، گاؤ پرستی اور سبزی خوری پر زور، اسی فرقے یا مذہب کی دین ہے،ورنہ جیساکہ ماقبل لکھ چکا ہوں،قدیم دورمیں ہندومت کے ماننے والے چھوٹا بڑا ہر جانور کھایا کرتے تھے)۔

زبان فہمی

راجستھانی زبان کی ابتداء کے متعلق ماہرین کا خیال ہے کہ یہ گیارہویں صدی میں تشکیل پانے والی زبان ہے جس نے پندرہویں صدی تک گجراتی کے شانہ بشانہ ارتقائی سفر طے کیا اور مابعد اپنا جدا تشخص قائم کیا۔اُس ابتدائی عہد کو ”مرو۔گجر بھاشا“ کا دورکہا جاتا ہے، جبکہ مرو بھاشا سے مراد ہے، راجستھان کی قدیم زبان مارواڑی۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مسلمانوں کی برّ عظیم پاک وہند میں آمد سے قبل، دِلّی اور نواح میں بھی راجستھانی موجود تھی اور اس کا ہماری زبان کی بنیادوں میں شامل، برج سے مماثلت بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ اردو کی تشکیل میں بہ یک وقت اس خطے کے تمام علاقوں میں مقامی عناصر نے اپنا اپنا حصہ شامل کیا۔یہاں دو باتیں اور یاد دلانا چاہتاہوں:

ا)۔پرتھوی راج چوہان کے درباری شاعر،چندرکَوِی نے پرتھوی راج راسو نامی کلام اُس کی نذر کی تو اُس میں عربی الفاظ بھی شامل تھے۔یہ وہی دور ہے جب امیر خسروؔ ہماری زبان کی ابتدائی ترقی میں اپنا کردار اداکررہے تھے یعنی کوئی آٹھ سو برس پہلے۔

ب)۔ عربی وفارسی بلکہ ترکی الفاظ کا مقامی زبانوں اور بولیوں میں داخلہ،ہزاروں سال پہلے قدیم ہندو اور بُدھ راجوں، مہاراجوں کے دورِحکومت سے ہوتا آیا ہے، یوں اردوکی تشکیل وتعمیرمیں ان سب کا حصہ اپنے اپنے ’وطن‘ کی حد تک جاری رہا۔اسی میں قدیم ہندو مذہبی کتب وید، پران اور دیگر بشمول مہابھارت کی مثال دی جاسکتی ہے۔

ایک معتبر روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ چتوڑ کے مہاراجہ،رانا کنبھا نے اپنے درباری مصنفین سے چار ناٹک (یعنی ڈرامے) لکھوائے، جن میں ایک میواڑی زبان میں تھا اور اس میں عربی وفارسی الفاظ شامل تھے، جبکہ مارواڑی سے جنم لینے والی زبان، ڈھونڈھاری(قدیم جے پوری) اور اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر، ہاڑوتی زبان کی مثال پیش کی جاسکتی ہے جس میں بکثرت اردو الفاظ مستعمل ہیں۔ڈھونڈھاری کے متعلق یہ بات زور دے کر کہی گئی کہ: ”یوں کہنے کو جے پور کی زبان،اب بھی ڈھونڈھاری یا جے پوری کہی جاتی ہے، ورنہ اس بولی کا اب پتا بھی نہیں ہے اور تھوڑے سے صوتی تغیر اور لہجے کے فرق کے ساتھ،جے پور کی نصف سے زائد آبادی، اردو زبان بولتی ہے“۔(جائزہ زبان اردو، حصہ اول: ریاست ہائے متحدہ راجپوتانہ، انجمن ترقی اردوہند۔1940ء)۔

تقسیم ہند سے قبل کے اس جائزے سے معلوم ہوا کہ یہاں کے شہری ودیہی، مسلم وغیرمسلم سبھی شُستہ اور رَواں اردو میں گفتگو کیا کرتے تھے اور کہیں کہیں ان کا لب ولہجہ آگرہ والوں سے مماثل تھا۔جے پوری اردو کی ایک مثال وہ ہے جو ہندوستانی ٹیلی وژن چینلز کے طفیل ہمارے یہاں بھی دَرآئی:
”میں،میرے (بجائے اپنے)گھر جاتا ہوں“۔

محولہ بالا جائزے میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ مغل سپاہ میں جے پوریوں کی شمولیت اور باہمی میل جول کے سبب، اس علاقے میں فارسی کا ڈھونڈھاری میں عمل دخل اتنا بڑھ گیا کہ ایک وقت میں وہاں ہندوستانی یا اردو کی تشکیل شروع ہوگئی۔1911ء کی مردُم شماری کی رپورٹ سے بھی اس انکشاف کی تصدیق ہوتی ہے۔}یہاں ایک اہم بات جان لیں کہ جے پور کو زمانہ قدیم میں ڈھونڈھار کہتے تھے، اس لیے وہاں کی بولی ڈھونڈھاری کہلاتی ہے اور ایک اور بولی شیخاواتی (شیخاوٹی یا شیخاوَتی) بھی اسی کے قریب قریب ہے، اس لیے کہ شیخاواتی بھی جے پور کا ضلع ہے۔

جے پور کے راجوں، مہاراجوں کا مغل بادشاہ اکبر کے ساتھ انتہائی قریبی تعلق، شادی کی صورت میں رشتے داری اور پھر سب سے بڑھ کر، اکبر کے خاص رَتن مان سنگھ کا ذکر ہماری لسانی تاریخ کا اہم باب ہے۔ وہاں فارسی کے شوق کے طفیل اردو بھی پھلی پھولی۔ مان سنگھ کو اکبر پیار سے ’میرزا راجا‘ کہا کرتا تھا۔وہ اپنی شجاعت کے لیے بھی مشہور تھا اور کئی زبانوں بشمول سنسکِرِت، عربی،فارسی وترکی پر حاوی تھا اور اُسی کے طفیل اُن کے خاندان میں بھی لسانی شوق پروان چڑھا۔مغل اقتدار کے زوال کے ساتھ ہی سلطنت ہندوستان کا شیرازہ بکھر اتو اہل علم وہنر اور عوام الناس کی ایک بڑی تعداد، دیگر مقامات کے علاوہ، دِلّی و نواح سے ترک ِ سکونت کرکے، راجپوتانہ، خصوصاً جے پور جا پہنچی۔

ان میں ذوقؔ کے شاگرد ظہیرؔدہلوی اور اَنورؔ دہلوی، میرزا آگاہؔ، غالبؔ کے شاگرد ونبیرہ خواجہ راقمؔ، رشکؔ لکھنوی کے شاگردشگفتہؔ، اور اَنورؔ دہلوی کے شاگرد میرزا مائلؔ شامل تھے۔ان شعراء کے ورودِ مسعود کی بدولت، جے پور میں اردو کی ادبی سرگرمیاں زورشور سے جاری ہوئیں اور”علمی اوادبی مشاغل کا اتنا زور تھا کہ لوگ جے پور کو دوسرا دِلّی کہاکرتے تھے“۔(جائزہ زبان اردو)۔

1933بکرمی (اندازاً 1876ء یعنی Gregorian calendar) میں مہاراجہ رام سنگھ نے جے پور کی پیمائش کروائی، بلدیاتی تقسیم کا انتظام کیا اور عوام وخواص میں یکساں مقبول، اردو کو،دفتری زبان قراردیا۔اسی دورمیں یہاں اورینٹل کالج (یعنی مشرقی علوم کی درس گاہ) کا قیام عمل میں آیا اور 1879ء میں پہلی مرتبہ منشی عالِم کا امتحان، جبکہ 1884ء میں منشی فاضل کا امتحان لیا گیا۔ایک طویل مدت تک یہاں اردو ہی کو سرکاری سرپرستی حاصل رہی، پھر راجوں کی جگہ برطانوی سرکار کی عمل داری شروع ہوئی تو متعصب ہندوؤں نے سنسکرت اوردیوناگری رسم خط کے ساتھ، ہندی کے نفاذ کی تحریک یا سازش شروع کی۔

اردو کے دفاع میں پیش پیش اہل علم میں ایک نام اطہرؔ ہاپوڑی کا بھی تھا۔بہرحال لاکھ منفی ہتھکنڈے استعمال کیے گئے، اردو کو دیس نکالا نہیں دیاجاسکا۔اس بیداری کی تحریک میں 1935ء کا کُل ہند[All India]مشاعرہ بھی یادگار تھا جب دکن وبرار کے والی (نظام) نے فانی ؔ بدایونی کو اپنے شاہی نمایندے کے طور پر وہاں شرکت کے لیے بھیجا، جبکہ وزیر اعظم مہاراجا سرکشن پرشاد شادؔ کی طرف سے بھی کوئی صاحب نمایندے کے طور پر شامل ہوئے۔

چونکہ یہ حقیقت مُسلّم ہے کہ کسی بھی زبان کی ابتداء عموماً شعر سے ہوتی ہے، خواہ زبانی ہو اور یہ بھی تحقیق سے معلوم ہورہا ہے کہ (بظاہر)بیکانیر ہی سے راجستھانی کی ابتداء ہوئی تو ہم بات شروع کرتے ہیں، وہیں سے جوراجستھانی کے ساتھ ساتھ اردو کا بھی گہوارہ رہا۔اردو کی تشکیل میں موجودہ راجستھان کی اس (سابقہ)ریاست کا حصہ ابتدائی دورمیں کیا تھا، اس بابت تحقیق تشنہ ہے، مگر یہ طے ہے کہ 1857ء کے بعد یہاں اردو کا چلن عام ہوتا گیا اور 1912ء تک، بیکانیر کی سرکاری زبان اردو تھی۔اس حوالے سے یہ دو اقتباسات اہم ہیں:

ا)۔”غدر اور غدرکے بعد،بیسویں صدی کے آغاز تک، بیکانیر میں اردو اور فارسی کی بہت قدر تھی۔اردو کو تو سرکاری زبان کا درجہ حاصل تھا۔1859ء میں مہاراجہ بیکانیر نے میرزا غالبؔ سے فرمائش کی تھی کہ وہ ریاست میں رائج کیے جانے والے سکے کے لیے کوئی تحریر تیار کریں۔ مہاراجہ نے فارسی میں ایک عرض داشت تیار کروائی تھی جو ملکہ وکٹوریا کی خدمت میں بھیجی گئی تھی“۔(اقتباس ِ مقالہ از خداداد خاں مونس، سابق سیکریٹری راجستھان اردو اکیڈمی، منقول در ”بیکانیر میں اردو شعر وادب“ از حاجی خورشید احمدبیکانیری)۔یہاں قابل ِذکر بات یہ ہے کہ ملکہ خود بھی منشی کریم الدین سے اردو اور فارسی سیکھ چکی تھیں جس کا ذکر ماقبل کہیں کرچکاہوں۔

ب)۔”مولوی محمد اقبال حسین عاشق ؔ دہلوی 1868ء میں بیکانیر آئے۔1884ء تک رہے۔آپ ایک بہت اچھے شاعر تھے اور غالبؔ سے تلمذ رکھتے تھے۔قیام بیکانیر کے دوران (میں) آپ کے تین دیوان شایع ہوئے ;افکارِ عاشقؔ: 1301ھ، اصرارعاشقؔ: 1307ھ اور اعجازِ عاشقؔ“۔(اقتباس ِ مقالہ از محمد حسین، لیکچرر اردو ڈونگر کالج، بیکانیر۔منقول در ”بیکانیر میں اردو شعر وادب“)

بیخود ؔ دہلوی کے شاگرد، شیخ ابراہیم آزادؔ (25فروری 1868ء بمقام حسین پور، یوپی تا 9جون 1947ء بمقام بیکانیر)،1897ء میں بیکانیر تشریف لائے۔وہ شاعر، وکیل اور منصف (Judge) تھے۔ان کا دیوان بعنوان ’ثنائے محبوبِ خالق‘ 1932ء میں منظر عام پر آیا۔اُن کا گھر ’آزادؔ منزل‘ بیکانیر میں ادبی سرگرمیوں کا مرکز تھا، دیگر کے علاوہ ان کے یہا ں منعقد ہونے والے نعتیہ مشاعرے اپنے وقت میں بہت مشہور ہوئے۔آزادؔ کا ایک شعر پیش خدمت ہے:
میں تو سیاہ کار ہوں اے شیخ کیا عجب
مقبول حق بنائے جو تیری دعا مجھے

شیخ ابراہیم آزادؔ کے بعد دوسرا بڑا نام، بیخود ؔ کے ایک اور شاگرد،(راجستھانی نژاد) عبداللہ بیدل(1888ء تا 1970ء) ؔ کا ہے جنھوں نے بیکانیرمیں جنم لیا، وہیں تعلیم اور پھر تدریس(مابعد قانون) کے شعبے میں خدمات انجام دیں۔انھیں فروغ اردو کے لیے اس (سابقہ) ریاست میں ممتاز مقام حاصل ہوا۔‘ 1935ء میں اُن کے متعلق اُن کے استاد گرامی نے فرمایا: ”بیخودؔ کو اَب یہ ثابت ہواکہ بیدلؔ نے اس دوراُفتادہ کی زبان پر ڈاکہ ڈالا ہے۔دنیا کے مال و متاع سے اور کچھ تو میرے پاس نہ تھا، ایک زبان رکھتا تھا،وہ حضرت ِ بیدلؔ کی نذر ہوئی“۔اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ بیدلؔ نے ایک استادِ سخن سے اہل زبان کے ہم پلّہ شعرگوئی کی سند حاصل کرلی تھی۔انھوں نے اپنے استاد سے اولین ملاقات کے متعلق یہ شعر کہا تھا:
تم ہی پلا گئے تھے ہمیں اپنے ہاتھ سے
اس دن سے ہم نے منھ نہ لگایا شراب کو

بیدلؔ کا مجموعہ کلام ’باغ ِفردوس‘ 1935ء ہی میں شایع ہوا۔وہ بھی عدالت سے بطور ڈسٹرکٹ جج سبکدوش ہونے کے بعد، وکالت کے پیشے سے وابستہ ہوئے۔اُن کا کلام اُس دورکے تمام معتبر اَدبی جرائد بشمول ’ساقی‘، ’شاعر‘، ’مشہور‘ اور ’شانِ ہند‘ کی زینت بنا کرتاتھا۔انھیں اپنے زرّیں دورمیں بیخودؔ دہلوی، سائل ؔ دہلوی، سیمابؔ اکبر آبادی، علامہ اقبال، ثاقب ؔلکھنوی، جگر مراد آبادی، ظریف ؔ لکھنوی اور آنندنرائن مُلّاجیسے مشاہیر سخن کے ساتھ مشاعروں میں شرکت کا اعزاز حاصل ہوا۔1959ء میں جامعہ ملیہ اسلامیہ (دہلی) کے مشاعرے میں بیدلؔ نے صدارت کی تو حاضرین میں ڈاکٹر ذاکر حسین بھی شامل تھے۔نومبر 1986ء میں ’رہنمائے تعلیم‘ (دہلی) نے ’بیدلؔ بیکانیری نمبر‘ کی اشاعت کا اہتمام کیا تھا۔بیدلؔ کو شعبہ تعلیم میں اہم خدمات انجام دینے کے اعتراف میں اُن کے نام سے موسوم ایک ایوارڈ کا اجراء بھی کیا گیا۔اُن کے کلام سے مزید خوشہ چینی:
مل کر تِری نگاہ سے دل کامیاب ہے
دنیا کہا کرے کہ زمانہ خراب ہے
٭
تاثیرِ آہ! اے دل خانہ خراب دیکھ!
وہ مضطرب ہیں اور نظر میں حجاب ہے

1919ء میں شروع ہونے والا ”بیکانیر میں اردو کا زرّیں دور“، مولوی بادشاہ حسین رعناؔکا مرہون منت تھاجو 1943ء میں اپنی وفات تک ڈونگر کالج کے صدرمدرس کے طور پر فرائض انجام دیتے رہے۔اُن کے سیکڑوں شاگردوں نے شعروادب اور افسر شاہی میں خدمات انجام دے کر خوب نام کمایا۔بیکانیر کی بزم ادب، انھی کی مساعی سے 26جنوری 1935ء کو تشکیل دی گئی۔

انھوں نے مشاعروں کے فروغ کے ساتھ ساتھ، اپنے شہر میں اردو کتب کی فراہمی کے ضمن میں بھی بہت نمایاں کرداراداکیا۔ان کے بعد، ان کے شاگرد،شیخ یوسف راسخؔ نے صدرمدرس کا عہدہ سنبھالا۔اردو کی پوری شاعری میں شاید راسخ ؔعظیم آبادی کے بعد یہ دوسرے راسخؔ نمایاں ہوئے۔اُن کا دیوان ’اوراقِ پریشاں‘ 1936ء میں شایع ہوا۔اس کی ایک جلد علامہ اقبال کو بھی پیش کی گئی تھی۔1912ء سے 1937ء تک آزادؔ، بیدلؔ، رعناؔ اور راسخ
ؔ نے دہلی، لاہور، لوہارو اور شملہ میں ہونے والے مشاعروں میں بیکانیر کی نمایندگی کی۔1940ء تا 1950ء کے عشرے میں متعدد مسلمان
اور بعض غیرمسلم اساتذہ اور شعراء و اُدباء نے بیکانیر میں اردو کو بڑے پیمانے پر رائج اور مقبول کرنے میں بڑا کرداراَدا کیا۔
آزادؔ بیکانیری کے بھانجے اور بیدلؔ کے ہم عمر وہم عصر، ممتاز وکیل وشاعرشیخ نثار(حافظ پیلی بھیتی کے مرید) کا شعر ملاحظہ فرمائیں:
چارتنکے کے،اُن پہ بوچھاریں مبارک باد کی
آسماں کی، باغباں کی، برق کی، صےّاد کی

بوجوہ بیکانیر کے طویل باب سے مزید اکتساب کیے بغیر عرض کروں کہ ہمارے بزرگ معاصر محترم تاج قائم خانی (مرحوم) بھی بیکانیر سے ہجرت کرکے ’آموں کے شہر‘ میرپورخاص (سندھ) میں آبسے اور ایک طویل عمر پائی۔(پ: 13مئی 1929ء،بمقام گھانگھو، بیکانیراور جے پور کی سرحد پر واقع گاؤں۔ تا۔21اگست 2011ء بمقام میرپورخاص)۔یہاں انھیں گُرو کا درجہ حاصل رہا۔خاکسار سے ربط ضبط تھا۔انھوں نے اپنے دوہا مجموعہ کلام ’دل ہے عشقی تاج کا‘ پر میرا تحقیقی مضمون”دوہے کا سرتاج: دل ہے عشقی تاج کا پر ایک نظر“)

بہت پسند کیا،ان کے حلقہ بگوش اہل قلم نے یہ مضمون کتاب ”پیاربھرے پھولوں کا تاج“میں جون 2006ء میں شامل کیا،پھر یہ حلقہ تاج کے رسالے ’پہچان‘(شمارہ نمبر چوبیس: 2013ء، تاج نمبر) میں بھی شایع ہوا۔میری اُن سے کراچی میں ایک بار ملاقات ہوئی۔دیگر کے علاوہ اُن کا ایک بڑاکارنامہ مغربی راجستھان کی قدیم لوک داستان”ڈھولامارُو“کامنظوم اردو ترجمہ ہے جو 1979ء میں منظر عام پرآیا۔انھوں نے اس کہانی کا تعلق مشہور داستان ”نل دمینتی“سے قایم کیا۔
۔(جاری)۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔