پاکستانی ادب کے معمار

راؤ منظر حیات  پير 6 مارچ 2023
raomanzarhayat@gmail.com

[email protected]

برادرم اظہار الحق پر بہت عرصے سے لکھنا چاہ رہا تھا۔ مگر ہمت نہیں ہوتی تھی۔ کیونکہ موجودہ دور میں اظہار الحق کے پایہ کا نثر نگار اور شاعر‘ دونوں خال خال ہی نظر آتے ہیں۔

آج تک ان سے ملاقات نہیں ہوئی۔ لیکن تحریروں کے ذریعے تو خیر حد درجہ شناسائی ہے۔ ایک چیز تو طے ہے کہ اظہار کی زبان و بیان حد درجہ قیمتی اور نایاب ہے۔

اردو زبان پر گرفت اور شائستگی دونوں باکمال وصف ہیں۔ علم نہیں کہ اظہار الحق ایسا کیوں ہے۔ مگر وہ ہے۔ سادہ سا‘ دیہاتی روایات میں گندھا ہوا شخص جو اپنی مٹی سے حد درجہ جڑا ہوا ہے۔ کمال مہربانی ہوئی‘ اظہار الحق نے اپنی چند تصانیف بھجوائی ۔

غور سے پڑھتا رہا۔ انھیں میں ’’پاکستانی ادب کے معمار‘‘ بھی تھی۔ احمد حسین مجاہد کی اظہارکے بارے میں تصنیف شدہ حد درجہ معیاری کتاب۔ اس میں سے چند اقتباسات پیش کرتا ہوں۔

محمد اظہار الحق کے شخصی اوصاف کی تشکیل میں قرآن کے آفاقی پیغام اور تعلیمات کا جو عمل دخل ہے۔ آپ کی شاعری میں اس کے عکس یوں اجاگر ہوتے ہیں کہ ان سے صرف نظر ممکن نہیں رہتا۔ آپ کی شاعری میں تلمیحات ِقرآنی اور استفادہ اس ضمن میں بطور خاص توجہ طلب ہے۔ بطور مثال یہاں چند اشعار درج کیے جاتے ہیں:

یہ اہل ثروت تھے غیب کو مانتے نہیں تھے

عذاب سے پیشتر انھیں اونٹنی ملی تھی

………

کبھی میرے سامنے ہیں عفریت دست بستہ

کبھی میں دیمک زدہ عصا پر کھڑا ہوا ہوں

اجڑے ہوئے خیمے کے نوحے لکھنا ماضی سے جڑے ہونے کی مضبوط دلیل ہے اور اسے پھر سے آباد دیکھنا ایک اچھے مستقبل کے خواب میں پیوست ہے:

بلاتے تھے ہمیں انجیر اور زیتون کے پھل

مگر وادی میں جانے کا کوئی رستہ نہیںتھا

کتاب اور شمشیر زین اور عصا

بہت کچھ ہمارے مکانوں میں تھا

محمد اظہار الحق کی شاعری میں معاملات حسن و عشق سے کلی گریز تو نہیں ملتا لیکن ہماری شاعری ان معاملات میں جتنی’ شدت پسند‘ہوتی جا رہی ہے وہ کیفیت بھی آپ کے یہاں نہیں ملتی:

کیا صورتیں بدلے گی یہ جاں دیکھتے رہنا

جس آنچ پہ رکھی ہے وہ دھیمی ہی رہے گی

………

حیا تھی آنکھ میں گندم کے خوشے ہاتھ میں تھے

عجب حالت میں تھی جب مجھ کو عریانی ملی تھی

ایک اور شعر دیکھیے‘ یہ شعر اوپر درج شعر کی توسیع کے قرینے رکھتا ہے اگرچہ ان اشعار میں الفاظ کا کوئی ایسا اشتراک نہیں پایا جاتا کہ ذہن فوراً مضمون کی اس قدر مشترک تک پہنچ جائے اور پھر لہجہ بھی اتنا دھیما ہے جو تعلیٰ سے لگا نہیں کھاتا:

حروف کشف کے ہیں اور ظروف مٹی کے

اجڑ سکی نہ کسی سے یہ خانقاہ مری

تعلی کے یہ انداز ایک طرف مگر ساتھ ہی ایک احساس رائیگانی ہے۔ کئی بڑے شعرا کے یہاں یہ احساس رائیگانی پایا جاتا ہے۔ شاعر خود کو کھپا کر ساری زندگی شعر کہتا ہے‘ دن اضطراب میں اور راتیں جاگ کر گزارتا ہے مگر:

پس وفات یہ بے دستخط مری تحریر

نہیں ہے اور کوئی بھی نشاں مرے پیچھے

اس حوالے سے محمد اظہار الحق کی شاعری کے مطالعے سے جو پہلو سامنے آتے ہیں ان میں ایک نمایاں پہلو تو وہی ہے جس کا تذکرہ آپ کے کچھ معاصر مشاہیر نے بھی کیا ہے:

مری اترن سے اپنی ستر پوشی کر رہا ہے

مرے طرز غزل نے کیااسے نادار کر ڈالا

………

مری اترن سے خوش پوشاک بنتا ہے اگر وہ

تو پھر گم کردہ منزل ہے سفر ہی میں رہے گا

بیٹی ’مہ وش بتول‘ کے لیے نظم لکھنے بیٹھے تو نظم نے ہیئت اور لفظوں نے اپنا لہجہ ہی بدل ڈالا‘ یہاں تک کہ بیٹی کو اس کے نام کے بجائے’عرفی نام‘ سے مخاطب کرنا ہی بھلا معلوم ہوا۔ نرم و گداز لفظوں نے ’گیت‘ کا روپ دھارا اور گیت ’دعا‘ بن کر ہونٹوں پر ایک ادا سے اٹکھیلیاں کرنے لگا:

اس کی آپ حفاظت کرنا

ربا پالنہارا

میچو ایک ستارہ

اس کے علم اور نیکی سے ہو

دنیا میں لشکارا

میچو ایک ستارہ

محمد اظہار الحق کی نظموں کا ایک بڑا حوالہ تاریخی و تہذیبی بھی ہے:

’’موضوعاتی اعتبار سے اظہار الحق کی نظمیں تاریخی شعور سے لبریز ہیں۔ مسلم تاریخ پر اس کی نظر بہت گہری ہے اور اسلامی تہذیب و تمدن سے تعلق اس کی شاعری کی واضح شناخت ٹھہرتا ہے۔ اس نے غزلوں میں بھی سمر قند بخارا اوربصرہ و بغداد کو بھی فراموش نہیں کیا۔

غدر کی نظمیں ‘ غرناطہ میں آخری نظم‘ افتاد‘ سراجیو‘ ہم اس کی وفا میں ہر اک سے لڑے‘ اور ناپولی اور پری زاد کی نظمیں روم‘ استنبول میں اور انصاف کی پسلی میں پہلا نیزہ اس موضوع کی روشن مثال ہیں۔

نظم ’سراجیو‘ میں اس نے سراجیو کو ان زمانوں کا شاہد قرار دیا ہے جب مسلمانوں کا علم افق تا افق اڑتا تھا۔’ناپولی‘ میں اس نے تارخ کے حسن کی دل کھول کر داد دی ہے۔ استنبول میں اسے زمینوں آسمانوں کی عملداری نظر آتی ہے اور روم عبرت کا ایک نقش بنا ہواہے‘‘۔

بدن پہ کوئی زرہ ہے نہ ہاتھ میں تلوار

اور اشک زار میں صدیوں کے اندلس کا سفر

اس آسمان کے نیچے کہیں پڑاؤ نہ تھا

عجب طلسم تھا وہ آٹھ سو برس کا سفر

عجب نہیں جو کسی صبح پھول بن کے کھلوں

مراسفر ہے اندھیرے میں خاروخس کا سفر

(نظم ’قرطبہ‘)

میں درختوں کو ہمیشہ غور سے دیکھتا ہوں

ان میں مخلص ہوتے ہیں

اور دلسوز

بازوؤں کو وا کرنے والے

اور سسکیاں بھر کر رونے والے

کڑھنے والے

اور ہمیشہ جاگنے والے

لیکن میں نے کسی درخت کو

مکار

اور دشمنی پالنے والا نہیں پایا

چھوٹی چھوٹی چیزیں جن کی طرف عام طور پر دھیان ہی نہیں جاتا‘ مویشی‘ گارا‘ بھوسہ‘ میلی قمیض‘ قبرستان کی گھاس‘ نیا کوزہ‘ کچھی دیوار‘ بکری کا میمنہ‘ محمد اظہار الحق انھی چیزوں میں زندگی کے ذرات ڈھونڈ لیتے ہیں۔

ایک سطح پر تو اس نوع کی نظمیں پڑھ کر یہی محسوس ہوتا ہے کہ شاعر‘ ناسٹلجیا‘ کاشکار ہو گیا ہے لیکن ان نظموںسے زندگی کے یہی ذرات چن کر انھیں ایک کل کی شکل دے دی جائے تو ’ناسٹلجیا‘ کا ظرف بہت چھوٹا پڑ جاتا ہے۔ لہو اوڑھ لینے والی خوشبو (جو قتل نہیں کی جا سکتی) ماضی سے پھوٹتی ہے لیکن اس میں زندگی کے جو ذرات ہیںوہ محمد اظہار الحق کے یہاں مستقبل کی طرف سفر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

یہ ذرات اپنی بقا کے لیے توانائی تو ماضی کے چشمے ہی سے لیتے ہیں مگر اپنی نمود کے لیے کچھ ایسے پیکروں کا انتخاب کرتے ہیں جو مستقبل کی طرف ان ذرات کے سفر کے تسلسل کو یقینی بناتے ہیں:

جب سفر کئی فرسنگ کا ہو اور سواری نہ ہو

تو روانہ ہوتے وقت پوٹلی میں

دیگر اسباب کے علاوہ

وہ دعائیں بھی ڈال لینا

جنھیں پڑھ کر ہاتھ نہی پھیلانے پڑتے

کالم کا دامن ہی اتنا تنگ ہے کہ برادرم اظہار الحق کی شاعری کو بھی بیان نہ کر پایا۔ اب انھیں کی نثری تحریر ’’عاشق مست جلالی‘‘ کاذکر کیسے کروں!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔