آہ ! طاہرنجمی صاحب

شکیل فاروقی  منگل 14 مارچ 2023
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے

اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے

10مارچ 2023 جمعہ کے مبارک دن کہکشاں صحافت کا ایک روشن ستارہ غروب ہوگیا۔ ہمارے ہردلعزیز اخبار ایکسپریس کے ایڈیٹر طاہر نجمی اِس جہانِ فانی سے رخصت ہوکر خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرمائے اور لواحقین کو صبر ِ جمیل عطا فرمائے۔ (آمین)

مرحوم کچھ دنوں سے ایک مقامی اسپتال میں زیر علاج تھے جہاں اُن کی طبیعت کچھ بہتر ہونے لگی تھی۔ دو تین روز قبل اُن کی اہلیہ محترمہ سے میری بات چیت ہوئی تھی اور یہ معلوم ہوا تھا انھیں سماعت کی بحالی کے لیے کسی ماہر ڈاکٹر کے معائنہ کے لیے منتقل کیا جارہا ہے۔

اِس اطلاع کے بعد ہمیں قدرِ اطمینان ہوا تھا اور ہمارا پورا گھرانہ پر امید اور دعاگو تھا کہ اُن کی سماعت بحال ہوجائے گی لیکن اچانک یہ روح فرسا اطلاع ملنے کے بعد ہم پر سکتہ سا طاری ہوگیا کہ وہ اِس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔

کافی عرصہ سے تواتر کے ساتھ کسی نہ کسی عزیز کرم فرما یا نامور شخصیت کے انتقالِ پُرملال و سانحہ ارتحال کی خبر موصول ہورہی تھی جس کی وجہ سے دل و دماغ پر ایک عجیب سی کیفیت طاری تھی۔ صبح سویرے اخبار کو ہاتھ میں تھامتے ہوئے اور فون کی گھنٹی پر فون اٹھاتے ہوئے ہاتھ لرزتے تھے کہ خدا جانے کونسی اور کس کی رحلت کی پر ملال خبر سننے کو ملے۔

ایکسپریس کے بانی ایڈیٹر نیر علوی کی وفات کے بعد طاہر نجمی نے نہ صرف ایکسپریس کی باگ ڈور کو نہایت کامیابی سے سنبھالا بلکہ اِسے چار چاند لگا دیے،وہ نہ صرف اعلیٰ دماغ تجربہ کار و پختہ کار صحافی تھے بلکہ صاحب بصیرت دور اندیش اور محنتی انسان بھی تھے۔ایکسپریس کی مقبولیت میں دیکھتے ہی دیکھتے زبردست اضافہ اُن کی قابلیت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔

سب کے ساتھ مل جل کر چلنا اُن کا طرہ امتیاز تھا، وہ ایک جوہر شناس اور وسیع النظر شخصیت کے مالک تھے۔ قارئین کی نبض شناسی بھی اُن کی اضافی صفت تھی۔ میری ذاتی مصروفیات اور اُن کی عدیم الفرصتی کی وجہ سے ہماری ملاقات کبھی کبھار ہوتی تھی لیکن ٹیلیفون پر رابطہ مستقل رہتا تھا۔

اُن کا لب و لہجہ اور اندازِ گفتگو پھولوں کی مہک کی طرح ہوتا تھا۔ ابھی چند روز قبل میرا جی چاہا تو اُن سے فون پر رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ اُن کی رہائش گاہ بحریہ ٹاؤن منتقل ہوگئی ہے اور ورک فرام ہوم کی سہولت کی وجہ سے اُن کا دفتر میں آنا جانا بہت کم ہوتا ہے لیکن طے یہ پایا کہ پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق وہ کسی روز محض ملاقات کے لیے دفتر تشریف لائیں گے۔

بات دراصل یہ تھی کہ مجھے اپنی کتاب’’ عقیدت کے پھول‘‘ مجموعہ حمد و نعت بہ نفسِ نفیس انھیں پیش کرنا تھی لیکن بدقسمتی سے ایسا ممکن نہ ہوسکا جس کا مجھے ہمیشہ قلق رہے گا۔

طاہرنجمی صاحب نہ صرف ایک بلند پایہ صحافی اور دانشور تھے بلکہ وہ نہایت وضع دار، ملنسار اور خاکسار قسم کے انسان بھی تھے۔اُن جیسے پر خلوص اور خوشدل لوگ آج کل بھلا کہاں ملتے ہیں۔ تقریباً بیس بائیس سال کی مسلسل رفاقت نے ہم دونوں کو یک جان دو قالب کردیا تھا۔

بجھ رہے ہیں محبتوں کے چراغ

رفتہ رفتہ بچھڑ رہے ہیں دوست

طاہرنجمی صاحب کا چلے جانا میرا ذاتی نقصان ہے جس کی تلافی ناممکن ہے۔

پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ

افسوس تم کو میرؔ سے صحبت نہیں رہی

میری بدقسمتی یہ ہے کہ معذوری اور بینائی سے محرومی کی وجہ سے میں نہ تو اُن کی نمازِ جنازہ میں شریک ہوسکا اور نہ میں اُن کا آخری دیدار کرسکا۔ انسان کتنا بے بس اور مجبور ہے۔

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔