ڈریے، جب دہشت گردی بھی ’’غیر ذمہ دار‘‘ ہوجائے گی!

رضوان طاہر مبین  بدھ 16 اپريل 2014
اب تو دہشت گردوں کی جانب سے ذمہ داری قبول کرنا ایک فریضہ نہ سہی، اخلاقی ذمہ داری تو سمجھ لی گئی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

اب تو دہشت گردوں کی جانب سے ذمہ داری قبول کرنا ایک فریضہ نہ سہی، اخلاقی ذمہ داری تو سمجھ لی گئی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

ہم سمجھے تھے کہ ہمارے ’’ذمہ دار‘‘ بھی اب اتنے غیر ذمہ دار ہوگئے کہ ذمہ داری بھی قبول نہیں کرتے۔ ایک زمانہ ہوا کرتا تھا کہ ذمہ دار کو ذمے داری سے اللہ واسطے کا بیر ہوتا تھا۔ کسی کی گھنٹی بجا کے بھاگ گئے، کوئی چیز چھپادی، کوئی چھیڑ خانی کر دی، مجال ہے کہ ذمہ دار میں اتنا جگرا ہو کہ سامنے آئے کہ ہاں میں ذمہ دار ہوں۔ الٹا وہ الزامات کو رد ضرور کرتا تھا کہ نہیں بھئی میں نہیں ہوں۔

پھرہم نے دیکھا کہ اکیسویں صدی میں لوگ یک بہ یک ذمہ دار ہونے لگے اور باقاعدہ بڑے بڑے بم پھاڑنے کی ذمہ داریاں بھی قبول کی جانے لگیں۔ دنیا بھر میں تواتر سے ایسے واقعات ہوئے کہ فخریہ اعتراف ہوا کہ ہاں یہ ہماری کارستانی ہے۔ وہ زمانے لد گئے، جب یہ ذمہ داریاں زبردستی دی جاتی تھیں، اور سامنے والا اس کا رد کرتا کہ ’’نہیں، یہ ہم نہیں!‘‘ ایک طرح سے دیکھیں تو ذمہ داریاں قبول کرنے سے کافی ’’سہولت‘‘ ہو گئی ہے۔ دیکھیے نا، اگر ہمیں پتا چل گیا کہ فلاں نے یہ واردات کی تو ہم خود ہی محتاط ہو جائیں گے، کہ جان کی امان چاہتے ہو تو سر تسلیم خم کر لو۔ اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ فی زمانہ ’’شہدا‘‘ کی بہتات ہے، اس لیے جاننا اور بھی ضروری ہے کہ ’’شہدا‘‘ کو مرتبہ شہادت پر کس کے تعاون سے فائز کیا گیا۔ ہاں نا، پتا تو چلے اسناد شہادت کنندگان کہیں دو نمبر کام تو نہیں کر رہے۔ شہید کو بھی سہولت اور آئندہ کے شہدا کو بھی اطمینان ہوگا ۔ رہ گئے حکام تو ان بے چاروں کی بھی جان چھوٹ گئی نا کہ ڈھونڈیا مچائیں کہ کون ہے؟ کون ہے؟

اب تو دہشت گردوں کی جانب سے ذمہ داری قبول کرنا ایک فریضہ نہ سہی، اخلاقی ذمہ داری تو سمجھ لی گئی ہے۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ وہ بھی اب ’’بد تہذیبی‘‘ پہ اتر آئے ہیں، جان سے مار دیتے ہیں، اور بتاتے بھی نہیں کہ ’’ہم‘‘ نے مارا۔

ابھی چند روز قبل ہی اسلام آباد کی سبزی منڈی میں دھماکا ہوا۔  جس کے نتیجے میں دو درجن کے قریب لوگوں کی جانیں گئیں۔یہ ایک انتہائی تکلیف دہ اور دل دوز واقعہ تھا۔ لیکن آج کل کے دور میں ہمارا ذہن کچھ ایسا بنا دیا گیا ہے کہ لوگ خبر مکمل ہی نہیں سمجھتے، جب تک کوئی اس کی ذمہ داری قبول نہ کرلے۔ اس دھماکے کا ہدف بھی کچھ واضح نہیں کہ مذہب، زبان یا مسلک کی وجہ سے کسی کو نشانہ بنایا گیا ہو۔ بالکل عام لوگوں کو بنا کسی تخصیص کے ہدف بنایا گیا۔ کیا حکام، کیا عوام سب ہی گویا بے چینی سے منتظر تھے کہ کوئی ذمہ داری قبول کرے، لیکن پورا دن بیت گیا، کوئی فون آیا اور نہ سندیس کہ ’’یہ ہم ہیں!‘‘

غیر ذمہ داری کی بھی حد ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ذمہ داری قبول کرنے والوں کے لیے باقاعدہ بیان جاری کرے، انہیں ان کی ’’اخلاقیات‘‘ یاد دلائی جائیں کہ بم پھاڑ کر ایک کال تو کر دیا کرو بھائیو! یہاں سمجھ نہیں آتا کہ ہم کسے ذمہ دار قرار دے ویں اور پھر اس سے مذاکرات کریں۔

ابھی تک ہم یہی سمجھ رہے تھے کہ یکایک خبر آئی یونائیٹڈ بلوچ فرنٹ نامی کسی تنظیم نے بلآخر کہہ ڈالا کہ یہ دھماکا ہم نے کیا۔ ہم نے سکھ کا سانس لیا کہ چلو ابھی ہم اخلاقی اعتبار سے اتنے بھی نہیں گرے کہ ذمہ دار ہوکر بھی غیر ذمہ داریاں کرتے پھریں۔ مگر صاحب یہ کیا؟ وزیر داخلہ کی مسند پر موجود صاحب نے نہلے پہ دہلا مارا، گویا ہوئے’’ نہیں یہ تم نہیں!‘‘ اب کر لیں بات۔ یہ نئی لے کر آئے ہیں۔ وزیر داخلہ کی کرسی کا حال کچھ ایسا ہوا کہ اس سے ہمارا دماغ مغلیہ دربار کے نورتنوں کی جانب چلا جاتا ہے۔ خیر، وہ بھی ایسی دور کی کوڑی لے کر آئے کہ جو بندہ اتنے انتظار کرا کے کہہ رہا ہے کہ ہم نے کیا۔ الٹا آگے سے صاحب فرما رہے ہیں ’’ارے، کیوں مذاق کرتے ہو‘‘۔

اب ہم ’’اخلاقیات‘‘ کے تیسرے دور میں داخل ہوگئے ہیں۔ پہلے میں الزام لگائے جاتے تھے اور ذمہ دار مسترد کردیتا تھا۔ دوسرے میں ذمہ داری قبول کرلی جاتی تھی اور اوپر والے مان لیتے تھے۔ اب کرنے والا کہتا ہے کہ ہاں میں نے کیا اور صاحب لوگ بولتا ’’چل جھوٹے‘‘ یعنی بالکل انتہا کہ پہلے عائد کردہ ذمہ داری مسترد کی جاتی تھی اور اب دوسری طرف سے اعتراف مسترد کر دیا جاتا ہے۔

ارے صاحب ڈریے اس وقت سے جب ’’ذمے داریوں‘‘ کا کال پڑ جائے۔ پھر کیسے پتا چلے گا کہ یہ بم کس کا تھا اور یہ گولی کہاں سے آئی۔ خدارا، ان اعتراف کو مسترد کرکے دہشت گردوں کی اس ’’بالکل مفت‘‘ سہولت کی حوصلہ شکنی تو نہ کریں۔ اپنا نہ سہی قوم کا ہی خیال کر لیں۔ ڈریے اس وقت سے جب ذمہ دار تو بہت ہوں گے، لیکن ’’ذمہ داری‘‘ کسی کی نہیں ہوگی!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

Rizwan Tahir Mubeen

رضوان طاہر مبین

بلاگر اِبلاغ عامہ کے طالب علم ہیں، برصغیر، اردو، کراچی اور مطبوعہ ذرایع اِبلاغ دل چسپی کے خاص میدان ہیں، روزنامہ ایکسپریس کے شعبہ میگزین سے بطور سینئر سب ایڈیٹر وابستہ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔