شہباز شریف کا اعتماد کا ووٹ

مزمل سہروردی  ہفتہ 29 اپريل 2023
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لے لیا ہے۔ انھیں 180ووٹ ملے ہیں۔ اس سے پہلے جب وہ وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے تو انھیں 174ووٹ ملے تھے۔ اس طرح اعتماد کے ووٹ کی قراررداد میں انھیں پہلے سے چھ ووٹ زیادہ ملے ہیں۔

ابھی اسپیکر قومی اسمبلی نے اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کیا۔ جب کہ مفتی شکور کی موت کی وجہ سے حکمران اتحاد کا ایک ووٹ کم ہو گیا تھا۔ اس کے مقابلے میں جب عمران خان نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیا تھا تو انھیں 176ووٹ ملے تھے۔

اس طرح شہباز شریف نے اعتماد کے ووٹ میں عمران خان کی نسبت زیادہ ووٹ لیے ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ شہباز شریف کو عمران خان سے زیادہ ارکان کی حمایت حاصل ہے۔

اس طرح شہباز شریف عمران خان کی نسبت زیادہ مضبوط پوزیشن میں ہیں۔ عمران خان کی حکومت بھی اتحادیوں کی مرہون منت تھی شہباز شریف حکومت بھی اتحادیوں کے سر پر ہی قائم ہے۔ لیکن یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ شہباز شریف کو عمران خان کی نسبت اتحادیوں کا زیادہ اعتماد حاصل ہے۔ شہباز شریف کے اعتماد کے ووٹ کی قرارداد بلاول بھٹو نے پیش کی جو اپنی جگہ اہم ہے۔

میں ابھی حکمران اتحاد اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات پر بات نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن اعتماد کے ووٹ کا اس پر بھی اثر ہوگا۔ حکمران اتحاد کو اس اعتماد کے ووٹ سے ایک اخلاقی برتری حاصل ہوگی۔ وہ مذاکرات کی میز پر زیادہ بہتر پوزیشن میں ہونگے۔ اس لیے مذاکرات سے قبل اعتماد کا ووٹ لینا ایک بہتر حکمت عملی تھی۔ تحریک انصاف کو پہلے غلط فہمی ہوئی کہ اعتماد کے ووٹ میں تحریک انصاف کے منحرف ارکان نے بھی ووٹ ڈالا ہے۔

لیکن بعد میں ان کی یہ غلط فہمی دور ہو گئی۔ اور اگر ان منحرف ارکان کی حمایت کو بھی شامل کیا جائے تو شہباز شریف کو قومی اسمبلی میں دو سو سے زائد ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ اس لیے اگر تحریک انصاف کے لوگ قومی اسمبلی میں واپس بھی آجائیں تو وہ شہباز شریف کو ہٹا نہیں سکتے۔ شہباز شریف عمران خان کی نسبت بہت بہتر پوزیشن میں ہیں۔

شہباز شریف کا اعتماد کا ووٹ عدلیہ کو بھی ایک پیغام ہے۔ گزشتہ سماعت میں چیف جسٹس اور ان کے بنچ کے ارکان نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ اگر حکومت کی جانب سے پنجاب اور کے پی میں انتخابات کے لیے 21 ارب روپے کی سپلمنٹری گرانٹ قومی اسمبلی سے مسترد ہو گئی ہے تو کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے ارکان قومی اسمبلی کا اعتماد کھو چکے ہیں۔

یہ درست ہے کہ اٹارنی جنرل نے اس تاثر کو غلط قرار دیا ہے اور بنچ نے اس کو تسلیم بھی کر لیا۔ لیکن آرڈر میں لکھوا دیا۔ اس لیے ایک خدشہ پیدا ہوگیا تھا کہ کسی موقع پر بنچ وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتا ہے۔ اس لیے بہتر تھا کہ خود ہی اعتماد کا ووٹ لے لیا جائے ۔

سپریم کورٹ کے حکم پر اعتماد کا ووٹ لینے سے وہ سیاسی برتری نہیں ملتی جو خود لینے سے ملی ہے۔ اس لیے اعتماد کا ووٹ ایک جواب ہے کہ وزیر اعظم کے ہر ایکشن کو پارلیمان کا اعتماد حاصل ہے۔ وزیر اعظم اور پارلیمان کو الگ الگ نہ دیکھا جائے۔

ایک سوال سب کے ذہن میں ہے کہ کیا اعتماد کے اس ووٹ کے بعد سپریم کورٹ اپنے کسی حکم سے وزیر اعظم کو گھر بھیج سکتی ہے۔ قانونی اور آئینی طور پر دیکھا جائے تو بھیج سکتی ہے۔ لیکن سیاسی اور اخلاقی طور پر دیکھا جائے تو نہیں بھیج سکتی۔

اس اعتماد کے ووٹ نے ہر ممکنہ ایکشن کے سامنے ایک بند باندھ دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ سوال اٹھا کر شہباز شریف کو ایک موقع دیا اور شہباز شریف نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ انھوں نے اپنے لیے کھڑی کی جانے والی مشکل کو اپنے لیے ایک فائدہ مند موقع بنا لیا ہے۔

حکمران اتحاد نے پارلیمان سے بہت موثر جواب دیا ہے تاہم اب لڑائی اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ اب تین رکنی بنچ اور پارلیمان آمنے سامنے کھڑے ہو گئے ہیں۔ اس لیے اب اس کو نظر انداز کرنا مشکل ہو گیا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ پارلیمان نے اپنی برتری ثابت کی ہے، اب آگے بڑھنا مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم کو گھر بھیجنا تو دور کی بات ہے اس سے کم تر ایکشن بھی مشکل ہوگیا ہے۔

توہین عدالت میں سزا دینا اب اتنا آسان نہیں رہا ہے۔ اس لیے کہیں نہ کہیں ایسے راستے کی تلاش ہے جہاں سے معاملہ کو رفع دفع کیا جا سکے۔ اسی لیے سماعت کو بھی غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیاگیا ہے۔ مذاکرات کی بات تو کی گئی ہے لیکن ڈیڈ لائن نہیں دی گئی۔ کہیں نہ کہیں احساس ہو گیا ہے کہ سیاسی معاملات میں زبردستی نہیں چل سکتی ۔

عمران خان کو اب شدت سے احساس ہو رہا ہے کہ پارلیمان کو چھوڑ کر انھوں نے بہت بڑی غلطی کر دی ہے۔ اس لیے وہ قومی اسمبلی میں واپس آنے کے راستے تلاش کر رہے ہیں۔ کسی بھی طرح واپسی مانگ رہے ہیں۔ لیکن شاید اب واپسی مشکل ہوگی۔ مجھے نہیں لگتا کہ حکمران اتحاد عمران خان کی ٹیم کو واپسی کا کوئی راستہ فراہم کرے گا۔ ان کے جانے کا حکمران اتحاد کو بہت فائدہ ہوا ہے۔

اس لیے اس فائدہ کو کیوں ہاتھ سے جانے دے گا۔ عمران خان کی غلطی کو انھیں سدھارنے کا کوئی انھیں موقع کیوں دے گا۔ انھوں نے قومی اسمبلی چھوڑ کر ایک غلطی کی تھی۔ جو گلے میں آگئی ہے۔ انھیں استعفیٰ دینے کے بجائے بائیکاٹ کرنا چاہیے تھا۔

شہباز شریف اور حکمران اتحاداس سیاسی لڑائی میں جتنے آگے چلے گئے ہیں۔ وہاں سے اب واپسی مشکل ہے۔ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ فیصلہ ہار جیت سے ہی ہوگا۔ اب کوئی درمیانی راستہ نہیں ہے۔ اس لیے مجھے حکومت اور عدلیہ میں مفاہمت کی کوئی گنجائش نظر نہیں آرہی۔ ایک فریق کو واپسی کا سفر شروع کرنا ہوگا۔ کون کرے گا ۔ شہباز شریف کے اعتماد کے ووٹ کے بعد وہ شہباز شریف نہیں ہیں۔ باقی آپ سب سمجھدار ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔