کلنک کا ٹیکہ

ایم جے گوہر  اتوار 21 مئ 2023
mjgoher@yahoo.com

[email protected]

ایک حقیقی جمہوری نظام میں دو یا دو سے زائد سیاسی جماعتوں کا وجود ناگزیر ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے منشور، نظریے اور سیاسی فلسفے کے ذریعے رائے دہندگان کو متاثر کرکے ان کے ووٹ حاصل کرتی ہیں اور انتخابات جیت کر حکومت بناتی ہیں۔

امریکی مصنف میک آئیور (Mac Iver) لکھتا ہے کہ ’’سیاسی جماعتوں کے بغیر اصول اور منشور کا باقاعدہ بیان ممکن نہیں ہے۔ پالیسی کا بالترتیب ارتقا نہیں ہوگا، آئینی طریقے سے پارلیمانی انتخابات منعقد نہیں ہوسکیں گے اور نہ ہی وہ تسلیم شدہ ادارے ہوں گے جن سے جماعت سیاسی اقتدار حاصل کر سکے۔‘‘

سیاست اور جمہوریت کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ایک با اصول، مہذب اور باوقار جمہوری معاشرے کے قیام میں سیاسی جماعتیں ایک ستون کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان سے نہ صرف سیاسی، معاشی، سماجی اور عدل کے نظام کو استحکام ملتا ہے بلکہ سیاسی جماعتیں نظام کو جمہوری طریقے سے آگے بڑھا کر ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں اور جمہوریت کو مستحکم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں، ترقی پذیر ممالک میں کامیابی و ترقی کا دار و مدار عوام کی طمانیت اور متحرک سیاسی سرگرمیوں پر ہوتا ہے۔

سیاسی جماعتیں عوام میں سیاسی شعور و آگہی کو بیدار کرکے ان میں سیاسی بصیرت اور سوجھ بوجھ پیدا کرتی ہیں۔ اسی وجہ سے سیاست میں گہما گہمی، نظم و ضبط اور سیاسی ترقی کے سب سے لازمی جزو یعنی قیادت یعنی ’’ لیڈر شپ ‘‘ کا قیام عمل میں آتا ہے، باالفاظ دیگر یوں سمجھ لیجیے کہ سیاسی جماعتوں کے ذریعے قیادت کا عروج، نظریات کا تصور، نظم و ضبط، حکومت کی تشکیل، اقتدار میں عوام کی شمولیت، قائد کا عوام سے تعلق، سیاسی، پارلیمانی اور قانونی مسائل اور حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان مقابلہ وغیرہ یہ وہ چند عناصر ہیں جو سیاسی جماعتوں کے ذریعے ہی کسی بھی جمہوری معاشرے میں وقوع پذیر ہوتے ہیں۔

پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی ابتدا اس ملک کی بانی جماعت مسلم لیگ سے ہوتی ہے۔ قیام پاکستان کے وقت مسلم لیگ کو قائد اعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان جیسے قدآور، نظریاتی، با اصول، صاحب کردار اور جمہوری اقدار پر یقین کامل رکھنے والے افراد کی سرپرستی حاصل تھی، مگر قائد کی وفات کے بعد مسلم لیگ اعلیٰ قیادت سے محروم ہوکر ٹوٹ پھوٹ کا بری طرح شکار ہوگئی اور ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں چلی گئی جو عوامی فلاح بہبود، قومی خدمت اور حب الوطنی کے جذبے سے عاری تھے۔ ان کے پاس نہ کوئی جامع منشور تھا اور نہ ہی کوئی پروگرام۔

اسی باعث مسلم لیگ شکست و ریخت اور بحرانوں کا شکار ہوتی چلی گئی اور رفتہ رفتہ مختلف دھڑوں میں بٹ گئی پھر ہر دھڑے نے ایک علیحدہ سیاسی جماعت کی شکل اختیار کرلی جن میں شخصیت پرستی غالب آتی گئی نتیجتاً ملک کی سیاست جمہوریت کی راہ پر گامزن ہونے کے بجائے آمریت کی جانب چل پڑی۔ ایوب دور میں کنونشن مسلم لیگ، ضیا الحق دور میں مسلم لیگ جونیجو، مسلم لیگ نواز، مشرف دور میں مسلم لیگ قائد اعظم کے نام سے سرگرم ہوتی رہی ہیں۔

آج کے دور میں مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف ہیں اور مسلم لیگ قائد اعظم (ق لیگ) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین ہیں، سیاست میں سرگرم عمل ہیں، لیکن نواز شریف کی شخصیت غالب ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب دور میں ان کے خلاف تحریک چلانے کے لیے دسمبر 1967 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد بے نظیر بھٹو نے قیادت سنبھالی پھر ان کی شہادت کے بعد آصف زرداری اور اب بلاول بھٹو زرداری پیپلز پارٹی کی قیادت کر رہے ہیں۔

ضیا دور میں پی پی پی کو بھی توڑنے، تقسیم کرنے اور مختلف دھڑوں میں بانٹنے کا عمل کیا جاتا رہا ہے، بھٹو کا سحر آج بھی پی پی پی کی جان ہے۔ اسی طرح پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی قیادت میں قومی سیاست میں سرگرم عمل ہے۔ اس جماعت میں بھی عمران خان کی شخصیت کا جادو حاوی ہے۔ جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپنے والے سیاستدانوں کی اپنی جماعت کے اندر جمہوریت نام کو نہیں ہے۔

ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف میں ان کے قائدین بلاول بھٹو، نواز شریف اور عمران خان کا گہرا اثر و نفوذ پایا جاتا ہے، اقتدار میں آ کر مخالف سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں و قائدین کو ہر طرح سے دباؤ میں لانے کی کوشش مذکورہ تینوں سیاسی جماعتوں کا طرہ امتیاز ہے، ریکارڈ گواہ ہے کہ 1988 اور 1993 میں برسر اقتدار آ کر بے نظیر حکومت نے نواز لیگ اور 1990 اور 1997 میں انتخابات جیتنے کے بعد نواز شریف کی حکومت نے پیپلز پارٹی کو ہر طرح سے نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔

ہماری سیاسی جماعتوں کا المیہ یہ ہے کہ ان میں قیادت کا بحران ہے۔ یعنی رہنمائی کرنے کی اہلیت نہیں ہے۔ امریکی صدر رچرڈ نکسن اپنی کتاب لیڈرز (Leaders) میں لکھتے ہیں کہ ’’ایک لیڈر کو مختلف حالات میں مختلف خصوصیات کی ضرورت ہوتی ہے۔ اعلیٰ ذہانت، حوصلہ، قوت، تجزیہ، ایک بڑے مقصد سے گہری وابستگی اور شخصی کشش یقینا کلیدی اجزا میں شامل ہے۔‘‘

ایک اور المیہ یہ کہ سیاسی جماعتوں کے سربراہ اپنے کارکنوں کی سیاسی و اخلاقی تربیت نہیں کرتے۔ نظریے اور اصولوں پر چلنے کا ہنر نہیں سکھاتے نتیجتاً ہر سیاسی جماعت میں کارکنان جذباتی ہو کر انتہا پسندی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں پھر وہ اپنے لیڈروں کے بھی کنٹرول میں نہیں آتے جس کا مظاہرہ گزشتہ دو تین دہائیوں کے دوران نمایاں ہو کر سامنے آیا ہے۔

سیاسی جماعتوں میں پریشر گروپ اور ذیلی تنظیمیں قائم ہو جاتی ہیں جو آزادانہ نقل و حرکت کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے جب انتہا پسندانہ سوچ پروان چڑھتی ہے اور منتقمانہ مزاج غالب آتا ہے اور کارکنان مشتعل اور آپے سے باہر ہو کر غم و غصے کا اظہار کرنے کے لیے قانون اپنے ہاتھ میں لے کر تشدد آمیز عمل کی طرف نکل جاتے ہیں تو پھر 9 مئی جیسے واقعات جنم لیتے ہیں، 12 مئی جیسی خون آشام کارروائیاں لہو برساتی ہیں، 27 دسمبر جیسے لرزہ خیز سانحات رونما ہوتے ہیں، کبھی سپریم کورٹ پر حملہ ہوتا ہے تو کبھی کور کمانڈر کا گھر نذر آتش کیا جاتا ہے، کہیں قومی و عسکری تنصیبات نشانہ بنتی ہیں تو کبھی مسجد، امام بارگاہ، اسکول اور بازاروں میں بارود کی بو پھیل جاتی ہے۔

المیہ یہ کہ کوئی ذمے داری قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا ہے بلکہ ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ شروع ہو جاتی ہے۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد 9 مئی کے خون آشام واقعات کے بعد یہی کچھ دیکھنے اور سننے میں آ رہا ہے۔ 9 مئی کے کرداروں کو قانون کے مطابق کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے نام سے منسلک ایسے دل خراش واقعات ان جماعتوں کے چہرے پر ’’کلنک کا ٹیکہ‘‘ ہیں، سیاسی قائدین کو آیندہ ایسے واقعات کے سدباب کے لیے اپنا قائدانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔