مفاہمتی سیاست کے چیلنجز

سلمان عابد  اتوار 21 مئ 2023
salmanabidpk@gmail.com

[email protected]

محاذ آرائی، ٹکراؤ اور تناؤ کی سیاست اپنی جگہ مگر نتیجہ مفاہمت، مذاکرات اوراتفاق رائے کی حکمت عملی کے تحت ہی سامنے آتا ہے اس لیے مزاحمت کے ساتھ ساتھ مفاہمت کی سیاست کا عمل بھی پس پردہ چل رہا ہوتا ہے۔

مزاحمت کی سیاست کی حکمت عملی یہ ہی ہوتی ہے کہ اگر ہم نے مفاہمت کے نتیجے میں کچھ حاصل کرنا ہے تو اس کے بہتر نتائج کے لیے ہمیں مزاحمت کی سیاست کو بطور ہتھیار استعمال کرنا پڑتا ہے لیکن پاکستان کی سیاست میں مفاہمت کی سیاست پیچھے اور مزاحمت یا ٹکراو کی سیاست کو زیادہ بالادستی حاصل ہے ۔

یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیں قومی سیاست میں چاروں اطراف سے زیادہ تلخیاں، سخت زبان یا الزام تراشیوں سمیت کردار کشی کی سیاسی جھلکیاں نمایاں طو رپر دیکھنے کو مل رہی ہیں۔اگرچہ سیاسی جماعتیں بظاہر مفاہمت اور مذاکرات کی بات کرتی ہیں مگر ان کے ایجنڈے میں کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر مفاہمت کم اور مزاحمتی عمل زیادہ بالادست نظر آتا ہے ۔اس وقت قومی سیاست کو پانچ بڑے چیلنجز کا سامنا ہے ۔

اول حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان ٹکراو کا ماحول اور بداعتمادی یا ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو قبول کرنے سے انکاری , دوئم حزب اختلاف کا حکومت او راسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ ٹکراؤ جب کہ حکومت کی عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی نمایاں ہے ۔ سوئم قومی معیشت کی بدحالی، چہارم قومی سطح پر سیکیورٹی کے معاملات یا دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات , پنجم موجودہ سیاسی صورتحال ہے ۔

بنیادی مسئلہ انتخابات کے درمیا ن پھنسا ہوا ہے ۔ حکومت انتخابات آئینی مدت کے اختیام پر چاہتی ہے جب کہ پی ٹی آئی فوری انتخابات کی حامی ہے۔ سیاسی فریقین سمیت بڑی طاقتوں میں بھی یہ اتفاق ضرور پیدا ہوا کہ ہمیں دو صوبوں کے انتخابات کے مقابلے میں ایک ہی دن قومی انتخاب کی طرف بڑھنا ہے ۔ لیکن ایک ہی دن قومی انتخابات کی تاریخ پر اتفاق ممکن نہیں ہوسکا۔

اگرچہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان تین مذاکراتی راونڈ بھی ہوئے مگر نتیجہ کچھ نہیں نکل سکا ۔اس پر تشد دسیاست کے ماحول میں ابھی کچھ داخلی اورکچھ علاقائی یا خارجی کردار ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ٹکراو کی بنیاد پر مسلہ حل نہیں ہوسکتا ۔ اس وقت جو قومی حالات ہیں اس پر سب ہی سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں او رمسئلہ کا حل چاہتے ہیں ۔ بدقسمتی سے ٹکراو یا مزاحمت کی سیاست مفاہمت پر زیادہ غالب نظر آتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود کچھ امید کی کرنیں بھی ہیں۔

حال ہی میں کورکمانڈر کانفرنس اور قومی سلامتی کمیٹی کا مشترکہ سطح کا اعلامیہ جاری ہوا ۔ ان دونوں بیٹھکوں کے دیگر نکات میں ایک بنیادی نقطہ سیاسی معاملات کو سیاسی انداز میں حل کرنے ، مفاہمتی عمل کے ساتھ مذاکرات کو بنیاد بنانے سے جڑا ہوا ہے ۔ اسی طرح صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی مفاہمتی کوششیںجاری ہیں ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب داخلی اور خارجی سطح سے اتنے بڑے بڑے کردار پاکستان کی داخلی سیاست میں مفاہمت چاہتے ہیں تو اس میں کون ہے جو رکاوٹ ڈال رہا ہے۔

ممکن ہے کہ سب ہی داخلی فریق مفاہمت ہی چاہتے ہوں مگر لچک پیدا کرنے کو تیار نہیں۔ اسی طرح وہ گروہ جو مفاہمت کے خلاف ہے وہ ایسا ماحول پیدا کررہے ہیں جو مذاکرات کے خلاف ہے ۔ یہاں حکومت میں سے ایسے لوگ موجود ہیں جو ایک طرف مذاکرات کی بات کررہے ہیں تو دوسری طرف ان کی اپنی جماعتوں یا اتحادیوں میں ایسے کردار ہیں جو روزانہ مفاہمتی عمل کو ڈرامہ کہتے ہیں۔

پاکستان کے داخلی سیاسی استحکام کے لیے اب بھی مفاہمت او رمذاکرات کی سیاست ہی نتیجہ خیز ہو گی۔ ہم سب کو اسی نقطہ پر زور دینا چاہیے کہ سب ہی مذاکرات کا راستہ بھی اختیار کریں او راسے نتیجہ یز بھی بنائیں ۔ یہ کام محض سیاسی جماعتیں مل نہیں کریں گی بلکہ دیگر طاقت کے اہم مراکز کو بھی اس میں کلیدی کردار بھی ادا کرنا ہے۔

ہمیں جہاں معاشی روڈ میپ درکار ہے وہیں ہمیں سیاسی روڈ میپ بھی درکار ہے اور اس کا ایک نقطہ عام انتخابات پر اتفاق ہے ۔اسی طرح انتخابات کی شفافیت،نتائج کی قبولیت یا انتخابی اصلاحات سمیت انتخابات کے لیے تمام کرداروں کو لیول پلینگ فیلڈ یا سب کے لیے سازگار انتخابی ماحول ہی ہمیں حالیہ تصادم کی سیاست سے باہر نکال سکتے ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔