زنبیل

ایس نئیر  اتوار 27 اپريل 2014
s_nayyar55@yahoo.com

[email protected]

عمرو عیارگزشتہ صدی کے اوائل میں لکھی گئی جادوئی کہانیوں کا ایک طلسماتی کردار ہے ۔ عمروعیار کے پاس ایک زنبیل ہو اکرتی تھی ، زنبیل کو آپ ایک کپڑے یا چمڑے کا تھیلا سمجھ سکتے ہیں، اس زنبیل کی خاصیت یہ تھی کہ عمروعیار اپنی اس زنبیل میں اس کائنات کی چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی چیزکو ڈال کر غائب کردیا کرتا تھا اور زنبیل کے سائز پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا تھا۔ یہ زنبیل مجھے اس وقت بے تحاشا یاد آئی جب سندھ ہائی کورٹ نے 10 اپریل کو سات سو بھینسوں کی چوری کے دلچسپ مقدمے کی سماعت کی۔

عدالت نے ایس ایچ او سکھن کو معطل کر کے آئی جی سندھ اور ڈی جی رینجرز کو حکم دیا کہ وہ ان سات سو چوری شدہ بھینسوں کو بازیاب کروائیں اور اٹھارہ اپریل کو عدالت میں رپورٹ پیش کریں ۔ سوال یہ ہے کہ یہ ایک یا دو بھینسوں کی چوری کی واردات نہیں بلکہ اکٹھی سات سو بھینسوں کی چوری کی واردات تھی ۔ یہ سات سو بھینسیں کس طرح اغوا کی گئیں ؟ پیدل ہنکا کر انھیں لے جایا گیا یا پھر ٹرک میں بھر کر انھیں منتقل کیا گیا تھا ؟ اس دوران بھینسوں کا اصل مالک بجائے بھینسوں کے کیا گھوڑے بیچ کر سو رہا تھا؟

ایس ایچ او سکھن تو ہوسکتا ہے کہ حسب معمول ’’ گشت ‘‘ پر نکل گئے ہوں ۔ لیکن کتنی حیرت کی بات ہے کہ چوری شدہ بھینسوں کا کوئی ایک ٹرک بھی اس ’’تھانیدارانہ گشت ‘‘ کے دائرے عمل میں نہ آنے پایا ۔ سات سو بھینسوں کی چوری کی اس دلچسپ واردات میں کوئی ایک ٹرک تو استعمال ہونے سے رہا۔ کیونکہ ایک ٹرک میں دس پندرہ سے زائد زندہ بھینسیں سما ہی نہیں سکتی ہیں ۔ ان سات سو بھینسوں کو چوری کرنے اور انھیں اپنے مسروقہ مال کے  ’’ گودام ‘‘ تک پہنچانے کے لیے یقیناً  ٹرکوں کا بھی ایک ’’ ریوڑ ‘‘ درکار ہوگا ۔ یہ ٹرکوں کا قافلہ کن مقامات سے گزرا ؟ کہاں پر اس قافلے کا سفر ختم ہوا ؟ کس مقام پر یہ بھینسیں ’’ ڈاؤن لوڈ ‘‘ کی گئیں ؟ کیا ان بھینسوں نے اس جبری سفر پر ’’ ڈکرا ‘‘ کر کوئی صدائے احتجاج بلند کی یا نہیں ؟ کیونکہ یہ تمام کی تمام بھینسیں تھیں کوئی اللہ میاں کی گائیں تو تھیں نہیں جو ہر ظلم کو صبر و شکر کے ساتھ خاموشی سے سہہ لیتی ہیں۔

آخر ایسا کونسا عمل کیا گیا کہ علاقہ پولیس سمیت کسی بھی شخص کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی اور سات سو بھینسوں کی چوری کی یہ واردات عمل میں آگئی ؟ یا یہ سوچ کر کہ ان گمشدہ بھینسوں کے آگے تصور میں ہی سہی کیا بین بجائی جائے اس لیے اب لے دے کر عمرو عیار کی وہ مشہور زمانہ زنبیل ہی باقی رہ جاتی ہے ، جس میں یہ سات سو بھینسیں انتہائی خاموشی اور رازداری کے ساتھ ڈال کر اغوا کنندگان نے اپنے کاندھے پر لٹکائیں اور چپ چاپ پتلی گلی کے راستے سے فرار ہوگئے ۔ خیر جو بھی ہوا ہوگا عنقریب سامنے آجائے گا یا آچکا ہوگا ۔ عمرو عیار کی یہ زنبیل تو اس چوری کی واردات کے طفیل مجھے یاد آگئی ۔ اور ہمارا موضوع فی الحال مسروقہ بھینسیں نہیں بلکہ یہ زنبیل اور اس جیسے دوسرے طلسماتی شعبدے ہیں۔

طلسم ہوشربا ، فسانہ عجائب،طوطا کہانی، گل صنوبر،گل بکاولی، حاتم طائی اور میر امن کی قصہ چہار درویش عرف باغ و بہار اردو زبان کے ابتدائی دورکی وہ تصانیف ہیں ، جن کو اس زمانے کے قارئین پڑھ کر ان داستانوں کے سحر میں مبتلا ہوجایا کرتے تھے ۔ان داستانوں اور ان کے کرداروں کا یہ تانا بانا دراصل کہانی کم اور انسانی خواہشات کی عکاسی زیادہ کیا کرتے تھے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ تقریباً ہر وہ طلسماتی یا جادوئی عمل فقط ایک سے ڈیڑھ صدی کے عرصے کے دوران سائنسی حقیقت بن کر سامنے آچکا ہے ، جس کا اس زمانے کے انسان نے خواب دیکھا تھا ۔ یا اس کی خواہش تھی کہ ’’ کاش ایسا ہوجائے ، میں جادوئی چھڑی گھماؤں اور میری خواہش کے مطابق عمل وقوع پذیر ہوجائے ۔‘‘  اگر آج کی نسل کا ایک دس سالہ بچہ بھی طلسم ہوشربا پڑھے تو اس داستان کا کوئی بھی قصہ یا واقعہ اس کے لیے قطعی طور پر حیرت انگیز نہ ہوگا۔

کیونکہ انٹرنیٹ ، موبائل فون اور ریموٹ کنٹرول ڈیوائسز کے دور میں آنکھ کھولنے والا بچہ لکھنا پڑھنا بعد میں سیکھتا ہے، ریموٹ اور موبائل پہلے چلانے لگتا ہے۔ آج کی نسل کے لیے اس میں حیرت کی کیا بات ہے کہ سنسان قلعے کے دروازے پر جب شہزادہ پہنچتا ہے تو قلعہ کا دروازہ خود بخود کھل جاتا ہے ۔ آج کے دور میں ریسٹورنٹس مٹھائی کی دکانوں اور ہر دوسری سرکاری اور غیر سرکاری عمارتوں کے دروازے خود بخود کھلتے اور بند ہوجاتے ہیں ۔ اب اس عمل میں حیرت انگیز چیزکیا ہے جب ایک سفید ریش بزرگ ، شہزادے کو سیکٹروں میل دور واقع اپنی جھونپڑی کے اندر موجود ایک جادوئی گولے میں شہزادے کے والد یعنی بادشاہ سلامت کی خواب گاہ کا منظردکھا دیتے ہیں کہ بادشاہ سلامت شاہی مسہری پر سخت علالت کی حالت میں پڑے ہوئے ہیں اور شاہی حکیموں کا ایک پینل بڑے اضطراب کے عالم میں اس کالے گلاب کے عرق کا انتظار کر رہا ہے،جس کے حصول کے لیے شہزادہ جنگلوں میں مارا مارا پھر رہا ہے۔

آج کی نسل سات سمندر پار ہونے والے کرکٹ میچ کو اپنے ٹی وی پر بال ٹو بال براہ راست دیکھتی ہے ۔ اڑنے والے قالین کی جگہ آج کی نسل سپر سونک طیاروں میں سفر کرتی ہے ۔ جادوئی چھڑی کے اشارے پر حاضر و غائب ہونے والی اشیاء کی رفتار ریموٹ سے زیادہ تیز ہر گز نہ ہوگی ۔ آج اپنے گھر بیٹھ کر اسکائپ پر آواز اور تصویر کے ساتھ ہزاروں میل دور بیٹھے ہوئے افراد روبہ رو گفتگو کرتے ہیں ۔ فیس بک اور ٹیوٹر کے ذریعے لمحہ بہ لمحہ اپنا اسٹیٹس تبدیل کرتے ہیں ۔ اس سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ انسانی خواہشات پہلے خواب کی صورت میں ظاہر ہوتی ہیں اور پھر انسانی ذہن ان خوابوں میں اپنی محنت اور جستجو کے ذریعے حقیقت کا رنگ بھرتا ہے ۔ پہیے کی ایجاد کے بعد کمپیوٹر کی ایجاد ایک ایسی انسانی کاوش ہے ، جس نے زندگی کو انتہائی تیز رفتار بنا دیا ہے ۔ کہاں کبوتر کے ذریعے نامہ و پیام اور کہاں ایس ایم ایس اور ای میل ؟ کبوتر سے لے کر ایس ایم ایس تک کا سفر اس کمپیوٹر نے کس قدر تیز رفتاری سے طے کیا ہے ، سوچ کر ہی عقل حیران رہ جاتی ہے۔

اور اب رہ گئی عمرو عیار کی وہ زنبیل جس میں ہر چیز سما جاتی تھی اور عمرو عیار جب چاہتا زنبیل میں ہاتھ ڈال کر اپنی مطلوبہ شے برآمد کر لیا کرتا تھا ۔ یہ انٹرنیٹ اور اس پر موجود گوگل سمیت درجنوں سرچ انجن عمروعیار کی اس زنبیل سے کم ہیں کیا ؟ جو چاہو اس میں ڈال دو اور جو چاہو نکال لو ۔ بلکہ یہ تو زنبیل سے بھی آگے کی چیز ہے اس میں سے تو آپ وہ بھی نکال سکتے ہیں جو آپ نے ڈالا ہی نہیں تھا ۔ اردو کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے نثر نگار اور اردو کے سرّی ادب کے سرخیل ابن صفی مرحوم کہا کرتے تھے کہ ’’ میں نے سات برس کی عمر میں طلسم ہو شربا کی ساتوں جلدیں پڑھ ڈالی تھیں ‘‘ یہ طلسم ہو شربا ان کے ذہن پر کسی اور طرح سے اثر انداز ہوئی اور انھوں نے جدید سائنس کا سہارا لے کر ’’ زیرو لینڈ ‘‘ نامی ایک نئی طلسم ہوشربا تصنیف کر ڈالی تھی ۔ یقین نہ ہو تو ان کے ناول جو ناول کم اور زندہ تحریریں زیادہ ہیں پڑھ کر دیکھ لیں ، اگر ان کی تحریر کا سحر آپکو آج کے اس سیٹلائیٹ کے دور میں بھی جکڑ نہ لے تو میرا ذمہ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔