ریلوے کی حالت زار

زمرد نقوی  پير 14 اگست 2023
www.facebook.com/shah Naqvi

www.facebook.com/shah Naqvi

ریل کا سفر پاکستان میں تو موت کا سفر بن گیا ہے حالانکہ پوری دنیا میں ریل کا سفر سب سے زیادہ محفوظ سمجھا جاتا ہے ۔ نہ صرف محفوظ بلکہ انتہائی آرام دہ۔ مسافراس سفر سے انتہائی لطف اندوز ہوتے ہیں۔

امریکا بالخصوص یورپ میں ہوائی سفر پر ریل کے سفر کو ترجیح دی جاتی ہے ۔ مسافروں کو فراہم ہونے والی سہولتوں اور ٹائم کی پابندی کی وجہ سے جب کہ ہمارے ہاں تو باوا آدم ہی نرالا ہے شاید ہی کوئی ٹرین وقت پر چلے ۔ گھنٹوں کیا اگلے دن تک دیری معمول کی بات ہے ۔ اس صورت حال میں مسافر بال بچوں سمیت پلیٹ فارم پر رُل رہے ہوتے ہیں ۔ ہرطرح کی بدانتظامی کرپشن ریلوے کی پہچان بن کر رہ گئی ہے۔

جہاں ایک بندے کی ضرورت ہے وہاں اپنے من پسند سفارشی چار پانچ اسی سیٹ پر بھرتی کیے ہوتے ہیں ۔ صورت حال تو اتنی خراب ہے کہ بوگس بھرتیاں جن کا اندراج صرف رجسٹر پر اوران کی تنخواہ افسران بالا کی جیب میں۔ ابھی حال ہی میں اس محکمہ میں کرپشن کی تازہ ترین خبر یہ آئی ہے کہ ریلوے ملازمین کو الاٹ ہونے والی رہائش گاہیں ان ملازمین نے بھاری کرایے پر چڑھائی ہوئی ہیں۔

محکمہ ریلوے مسلسل خسارے میں ہے، خسارہ بھی کوئی معمولی نہیںسیکڑوں ارب روپے کا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریلوے کی آمدنی اتنی نہیں کہ وہ اپنے اخراجات اپنے ملازمین کی تنخواہیں اور پنشن خودسے ادا کر سکے۔کیونکہ منافع ہی نہیں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر سال عوامی ٹیکسوں پر یہ ادارے پلتے ہیں اور عوام کے خون پسینے کی کمائی ان پر خرچ ہو جاتی ہے۔

اس طرح عوام کی صحت تعلیم اور دیگر فلاح وبہبود کے کاموں کے لیے کچھ بچتا ہی نہیں چنانچہ اس کے لیے مقامی اور عالمی مالیاتی اداروں سے مہنگے قرضے لینے پڑتے ہیں جن کا سود ادا کرنا جان جوکھوں کا کام ہے ۔

خسارے میں جانے والا ریلوے صرف ایک محکمہ ہی نہیں بلکہ ایسے بہت سے محکمے ہیں جن پر عوام کے خون پسینے کی کمائی کے ہر سال ایک ہزار ارب روپے خرچ ہوتے ہیں ان میں سرفہرست پی آئی اے اور اسٹیل مل شامل ہیں۔ اسٹیل مل کی بحالی کے سب منصوبے ناکام ہوئے۔ اسٹیل مل بند پڑی ہے ۔ لیکن ملازمین کو تنخواہیں دی جارہی ہیں ۔ وزیر ریلوے اور ہوابازی فرماتے ہیں کہ اب حالات ایسی نہج پر آگئے ہیں کہ پی آئی اے کو بیچنے کے سواکوئی چارہ نہیں لیکن اس کو خریدنے والا کوئی نہیں کیونکہ اس کا سالانہ خسارہ سیکڑوں ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔

میرا خیال ہے کہ یہ “نیک کام “نگران حکومت کے ہاتھوں سرانجام پائے گا ۔ تمام خسارے میں جانے والے ادارے پرائیوٹائیز ہونگے آئی ایم ایف کی آشیر باد سے جس پر آئی ایم ایف ایک عرصے سے شور مچارہا ہے ۔ نگران حکومت کا دور ہی اس کام کے لیے سب سے موزوں وقت ہے ۔ کیونکہ نگران حکومت عوام کو جوابدہ تو ہوگی نہیں صرف ان کو جوابدہ ہوگی جو اس کو لے کر آئینگے، چاہے یہ اندرونی یا بیرونی قوتیں ہوں۔

ایک تو ہوتی ہے دہشت گردی جس کا پاکستانی عوام کو دن رات سابقہ رہتا ہے ،دوسری ہے لسانی دہشت گردی اس کی خوفناک مثال سابقہ حکومت کے وزیر ہوابازی کی ہے جن کی لسانی دہشت گردی نے پی آئی اے کو تباہ کردیا۔ پی آئی اے کی فلائٹوں پر امریکا ، یورپ ، برطانیہ میں پابندی لگ گئی۔ پی آئی اے جس کا پہلے ہی سے برا حال تھا مزید خراب ہو گیا۔

قیام پاکستان سے اب تک ریلوے حادثات میں ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں لیکن مجال ہے کہ کبھی کسی وزیر ریلوے نے استعفٰی دیا ہو ۔ حال ہی میں جو ریلوے حادثہ ہوا ہے جس میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے اس کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حادثے کی جگہ لائن کو جوڑنے والی فش پلیٹس مسنگ تھیں ۔ ٹوٹی پٹری کی جگہ لکڑی کا ٹکڑا لگایا گیا تھا یہ تو شقی القلبی کی انتہا ہو گئی۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حادثے کا شکار ٹرین کے انجن کے ویل بھی خراب تھے پھر بھی اُسے موت کے سفر پر روانہ کر دیا گیا ۔ ایک تو عوام ہوائی سفر کے متحمل نہیں جو اب انتہائی مہنگا ہو گیا ہے اوربسوں اور ویگنوں کے اذیت ناک سفر میں آئے دن کے حادثات ۔عوام جائیں تو جائیں کہاں ۔ روڈ ایکسیڈنٹ روزانہ جتنے پاکستان میں ہوتے ہیں اتنے شاید دنیا میں کہیں بھی نہیں ہوتے ۔

آج سے 55سال پہلے ذوالفقار علی بھٹو کے دور کے وزیر ریلوے غلام مصطفی جتوئی نے کہا تھا کہ ریلوے میں سرمایہ کاری نہ ہونے سے یہ ناکارہ ہوچکی ہے۔ ریلوے کسی بھی ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے سنگین جرم یہ ہوا کہ پرائیویٹ روڈ ٹرانسپورٹ کو فائدہ پہنچانے کے لیے جن سے بیشمار بااثر لوگوں کے مفادات وابستہ تھے ریلوے کو شعوری طور پر تباہ کیا گیا ۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک پاکستان مختلف مافیاز کے چنگل میں رہا ہے اب تو ان کی تعداد اتنی زیادہ ہو چکی ہے کہ خوف آتا ہے کہ پاکستان کا بنے گا کیا۔

16-17-18-19اگست سے خان صاحب کے لیے اہم وقت شروع ہو جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔