پاکستان افغانستان پالیسی کا بیانیہ 

سلمان عابد  اتوار 20 اگست 2023
salmanabidpk@gmail.com

[email protected]

پاکستان افغانستان پالیسی یا ا ن کی داخلی سیاست یا خطہ کی سیاست کا اثر محض ان دو ملکوں تک محدود نہیں بلکہ پورے خطے کے تمام ممالک کے استحکام سے جڑا ہے ۔اس لیے ہمیں افغان پالیسی کو ایک بڑے فریم ورک میں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔اسی طرح افغانستان کے داخلی سطح کے معاملات کا ایک بڑا اثر خود پاکستان کی داخلی سیاست میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان کی علاقائی پالیسی یا سفارت کاری سمیت ڈپلومیسی کے محاذ پر افغانستان کا امن اور دو طرفہ پرامن تعلقات پر ہماری حساسیت یا اہمیت بہت زیادہ ہے ۔ پاکستان میں جو دہشت گردی کی حالیہ لہر نظر آتی ہے، اس کی ایک بڑی وجہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ہے جسے افغان حکومت کی مکمل سرپرستی حاصل ہے ۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ برائے تنازعات اور سیکیورٹی اسٹڈیز( پی آئی سی ایس ایس) کے مطابق گزشتہ برس کی پہلی ششماہی کے مقابلے میں رواں برس یعنی 2023 کی اسی مدت کے دوران دہشت گردوں کے حملوں میں حیران کن طور پر 79فیصد اضافہ ہوا ۔ سب سے زیادہ دہشت گردوں کے حملے خیبرپختونخواہ اوراس کے قبائلی اضلاع میں ہوئے ہیں ۔اسی طرح اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی انسداد دہشت گردی کمیٹی نے جنوبی ایشیا کوانتہائی خطرے والا خطہ قرار دیا ہے جہاں کئی ریاستیں دہشت گردوں کے حملوں کا شکار ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان، القاعدہ اور داعش خراسان سرگرم رہی ہیں ۔ ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی ہمارے لیے سنگین مسئلہ ہے، اس کے حلے کے لیے غیر معمولی اقدامات درکار ہیں۔

پاک افغان تعلقا ت میں بہتری کے بجائے معاملات خرابی کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ ہماری سوچ تھی کہ اگر کابل میں افغان طالبان کی حکومت ہوگی تو یہ پاکستان کے حق میں بہتر ہوگا لیکن یہ سوچ درست ثابت نہیں ہوئی سکا ۔آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا یہ کہنا کافی بجا ہے کہ اب ہمیں جو بھی بات چیت کرنی ہے وہ ہمیں کسی گروپ کے ساتھ نہیں بلکہ براہ راست افغانستان کی طالبان حکومت کے ساتھ کرنا ہے ۔ ہمیں افغانستان کے حوالے سے اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنانا ہے۔

ہمارا مقصد افغانستان کو کمزو رکرنا نہیں بلکہ ہم ایک مستحکم افغانستان دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ہمیں بھی ایک مستحکم پاکستان چاہیے ، یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم توافغانستان کو مستحکم کریں لیکن افغانستان پر قابض طالبان کے داخلی معاملات یا کمزوریاں ہمیں کمزور کریں اور ہم محض خاموش تماشائی کا کردار ادا کریں ۔موجودہ حالات میں اس پر واقعی سنجیدگی سے غو رکیا جانا چاہیے کہ ہماری افغان پالیسی نے ہمیں کہاں کھڑا کردیا ہے؟

حالیہ دنوں میں پاکستان کے سخت موقف کی بنا پر افغان طالبان حکومت نے بھی لچک کا مظاہرہ کیا ہے اور ٹی ٹی پی کو سخت پیغام بھی دیا کہ وہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے خلاف استعمال نہ کرے۔ لیکن ساتھ ساتھ افغان حکومت اس نقطہ پر بھی زور دیتی ہے کہ پاکستان خود بھی ٹی ٹی پی کا داخلی علاج کرے اور اس میں اسے جس ناکامی کا سامنا ہے، اس پر ہمیں ذمے دار قرار نہ دے۔

ٹی ٹی پی کی دہشت گردی کو روکنے کے لیے ہمیںایک علاقائی فریم ورک میں کام کرنا ہوگا۔ بھارت، افغانستان ، ایران ، چین اور روس کا تعاون ہی ہمیں آگے بڑھنے کا راستہ دینے میں مدد دے سکتا ہے ۔

سب سے بڑھ کر ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم افغان طالبان اور ان کی حکومت پر تو بہت زیادہ توجہ دینے کی بات کرتے ہیں مگر افغانستان میں جو وہاں رہنے والے عوام و خواص ہیں، ان میں ہماری تصویر بہت منفی ہے ۔ ہم نے اپنی پالیسی میں کہیں اس نقطہ پر توجہ نہیں دی کہ افغانستان میں موجود جمہوریت پسند اور کاروباری لوگ ہمارے بارے میں مخالفانہ رائے رکھتے ہیں ، اس کو ختم کیا جائے ۔پاکستان کو اپنی سفارتی حکمت عملی میں افغانستان کی سول سوسائٹی ، میڈیا ، کاروبار ی اور سیاسی لوگوں سے براہ راست رابطوں پر زور دینا چاہیے ۔

پاکستان کی ترقی، امن اور سیکیورٹی کا براہ راست تعلق جنوبی ایشیاء کی مجموعی ترقی اور باہمی تعلقات کے ساتھ جڑا ہوا ہے ۔ ہماری سیکیورٹی پالیسی میں ان تمام نکات کو مجموعی طورپر اٹھایا بھی گیا ہے ۔لیکن اصل مسئلہ اس پالیسی کو بنیاد بنا کر داخلی معاملات کا جائزہ اور اسی فریم ورک میں خود کو ڈھالنے سے جڑا ہوا ہے ۔ہمیں خود داخلی محاذ پر اپنی قومی سیکیورٹی پالیسی کو بنیاد بنا کر بہت کچھ کرنا ہے او رخاص طو رپر اصلاحات کے ایجنڈا ہماری بنیادی ترجیح ہونا چاہیے۔

پاک افغان تعلقات ہوں یا پاک بھارت تعلقات یا خطہ کے مجموعی حالات یہ روائتی ،فرسودہ اور عدم لچک پر مبنی پالیسی سے ممکن نہیں ۔ ہمیں کچھ نیا کرنا ہے اور پرانی حکمت عملیوں کے مقابلے میں نئی حکمت عملیاں درکار ہیں ،اس پر بڑا اتفاق رائے ہی ہمیں مستحکم پاکستان بننے میں مدد دے سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔