پختون قوم کے بنیادی مسائل

جمیل مرغز  بدھ 23 اگست 2023
jamilmarghuz1@gmail.com

[email protected]

پختونوں کو کئی قسم کے مسائل کا سامنا ہے‘ جن میں معاشی اورسیاسی نظریاتی دونوں طرح کے مسائل ہیں‘خصوصاً قوم پرست تحریکوں سے متعلق ہیں۔

1۔ پختون افغانستان ، خیبر پختونخوا کی پشتو بیلٹ اور بلوچستان کے پشتو علاقوں میں موجود ہیں‘ پاکستان میں پختون قوم پرست جماعتوں کا یہ مطالبہ رہا ہے کہ پاکستان کے اندر ایک متحدہ پختون صوبہ قائم کیا جائے۔

2۔ پشتو زبان کو ایک قومی زبان کا درجہ نہیں دیا گیا‘جس کی وہ مستحق ہے‘ لہٰذاہم اپنی زبان‘ ثقافت اور اپنی تاریخی ورثے کی حفاظت‘ ترقی‘اور ترویج کے لیے جدوجہد کریں گے۔  3۔صوبہ خیبر پختونخوا اور فاٹا میں تعلیمی اداروں کو دہشت گردوں نے تباہ کر دیاہے ‘لہٰذا ان تمام تعلیمی اداروں‘ صحت کے مراکزکو بحال کیا جائے اور انفراا سٹرکچر کی از سر نو تعمیر کے لیے مرکزی حکومت سے ایک معاشی پیکج کا مطالبہ کرتے ہیں۔

4۔خیبرپختونخوا ‘پانی ‘بجلی‘ گیس‘ جنگلات‘ معدنیات‘قیمتی پتھروں‘کوئلہ اور دیگر معدنیات سے مالامال ہے‘ان پر حق ملکیت کے لیے جدوجہد انتہائی ضروری ہے ‘پانی اور بجلی کے مد میں مرکز کے ذمے ‘اربوں روپے کے بقایا جات کی فوری ادائیگی کا مطالبہ کرتے ہیں‘ خیبرپختونخوا میں بننے والے ڈیموں کے متاثرین کو وہی مراعات دی جائیںجو منگلا ڈیم کے متاثرین کو مل رہی ہے۔

5۔ خیبر پختونخوا کے لیے بجٹ Allocation تعلیمی وظائف کے حوالے سے تحفظات دور کیے جائیں۔ 6۔ خیبر پختونخوا اورسابقہ فاٹا دہشت گردی کا شکار ہے ‘ہمارا مطالبہ ہے کہ بین الاقوامی امداد فاٹا اور صوبہ خیبر پختونخوا کی بحالی پر خرچ کی جائے ‘مزید یہ کہ فاٹا اور پختونخوا کو (Calamity Area)آفت زدہ علاقہ قرار دے کر یہاں تمام قسم کے ٹیکس اور بل معاف کیے جائیں۔

IDP’sکو بین الاقوامی قوانین کے مطابق مراعات کا اعلان کیا جائے ‘صوبے میں اغواء برائے تاوان ‘بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کی ذمے داری صوبائی حکومت اور صوبائی پولیس پر عائد ہوتی ہے، اگر صوبائی حکومت اپنے صوبے کے عوام کو تحفظ نہیں دے سکتی تو اسے حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

(7)۔سینیٹ کے انتخابات ڈائریکٹ کرائے جائیںاور اس صورت میں اس ایوان کو قومی اسمبلی کی طرح اختیارات دیے جائیں۔

(8)۔گلوبلائزیشن کے اس دور میں اپنی قومی خود مختاری کا تحفظ کرتے ہوئے عالمی ٹیکنالوجی اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی مہارت سے فائدہ حاصل کرنا۔

(9) افغانستان اور پاکستان کے درمیان مضبوط اور عدم مداخلت کی بنیاد پر مبنی تعلقات کا قیام ‘یہ تعلقات اسٹیبلشمنٹ ‘ حکومتی اور عوامی تینوں سطح پر ہونے چاہیے۔

پارلیمانی سطح پر محترم آفتاب شیرپاؤ کی قیادت میں ’’پاک افغان پارلیمنٹری فرینڈ شپ گرو پ‘‘ تعلقات کی بہتری کے لیے سرگرم رہا ہے‘ اس گروپ کی افغانستان میں پارلیمنٹ کے ڈپٹی اسپیکر محترم میرویس یاسین زئی قیادت کر رہے تھے۔اب توطالبان کے دور میں سب کچھ ختم کردیا گیا ہے۔

(10)۔برصغیر کی تقسیم کے بعد ہندوستان نے 1950میں آئین بنا لیا‘جب کہ پاکستان میں حکمرانی کے نام پر کھیل تماشہ ہوتا رہا‘ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935کے تحت ملک کو چند سال چلایا گیا پھر کبھی قرارداد مقاصد ‘کبھی بنگالیوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے پیریٹی اور ون یونٹ کا ڈرامہ چلانا‘ پھر 1956کا آئین ‘ آخر کار سقوط ڈھاکا کے بعد 1973کا آئین بنایا گیا۔

اس آئین میں صوبائی حقوق کے لیے دس سال دیے گئے لیکن 2010تک اس پر عمل درآمد نہیں ہوا‘چھوٹی قومیتوں کے بے حد اصرار پر آئین میں 18ویں ترمیم منظورکی گئی‘ جس سے صوبوں کو خاصی حد تک خود مختاری مل گئی لیکن اس پر پورا عمل درآمد نہیں کیا گیا ‘ پختون قوم پرستوں کو نیو سوشل کنٹرکٹ کی حمایت جاری رکھنی چاہیے ۔

یہ تو پختون قوم کودرپیش مادی ‘سماجی اور معاشی مسائل تھے۔اب نظریاتی مسائل؟ پختون قومیت ‘معاشی لحاظ سے پسماندہ لیکن سیاسی طور پر بہت ہی مالدار ہے‘یہاں ہر قسم کی پارٹی پائی جاتی ہے۔تحریک انصاف ‘پیپلز پارٹی ‘ہر قسم کی مسلم لیگ ‘جمیعت العلماء اسلام جمعیت العلماء پاکستان‘تحریک لبیک ‘جماعت اسلامی اوردوسرے بے شمار چھوٹے گروپ دائیں بازو کی سیاست کرتے ہیں‘یہ پارٹیاں پاکستان کی حامی ہیں اور پاکستانی سیاست کرتی ہیں۔

دوسری قسم کی پارٹیاں قوم پرست پارٹیاں یا گروپ بھی موجودہیں‘جن میں‘قومی وطن پارٹی‘عوامی نیشنل پارٹی‘ ملی عوامی پارٹی (دو حصے) پختون تحفظ مومنٹ‘نیشنل ڈیموکریٹک مومنٹ‘ڈاکٹر خان تحریک اور پختون اولسی تحریک وغیرہ شامل ہیں‘ان کے پختون قومیت کے علاقے میں بائیں بازو کی پارٹیاں جن میں مزدور کسان پارٹی کے چند دھڑے اور کمیونسٹ پارٹی کے کچھ گروپ بھی موجود ہیں۔

یہ تو ایک حقیقت ہے کہ پختون ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف آباد ہیں‘ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کے نظریاتی مسئلے نے پاکستان میں پختون قومی تحریک کو انتشار کا شکار کردیا ہے۔ایک نعرہ بہت مقبول رہا ہے کہ ’’لر او بر یو افغان‘‘ یا’’ پختون وحدت‘‘ یعنی اوپر اورنیچے دونوں طرف ایک افغان قوم رہتے ہیں اور ان کی ایک ریاست ہونی چاہیے۔

افغانستان کی ہرحکومت حتی کہ پاکستان کے پیداکردہ ’طالبان بھی ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ پاکستانی پختون علاقے افغانستان کا حصہ ہیں اور یہ کہ انگریزی سامراج نے زبردستی افغان حکمرانوں سے ڈیورنڈ لائن معاہدے پردستخط کرائے تھے‘ یہ معاہدہ 1893میں ہوا اور سو سال بعد(1993)میں اس کی میعاد ختم ہوگئی ‘اب پختون علاقے افغانستان کو واپس کیے جائیں۔

اس کے برعکس پاکستان میں پختونوں کے حقوق کی علمبردار سیاسی جماعت قومی وطن پارٹی ڈیورنڈ لائن کو دونوں ملکوں کے درمیان مستقل سرحد تسلیم کرتی ہے جب کہ دوسری قوم پرست پارٹیاں اس مسئلے پر دوغلے پن کا مظاہرہ کررہی ہیں۔آیندہ اس مسئلے کا تفصیلی جائزہ لیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔