چوراہا

ایم جے گوہر  اتوار 27 اگست 2023
mjgoher@yahoo.com

[email protected]

چینیوں کو اپنی نقاشی پر گھمنڈ تھا اور رومیوں کو اپنے کمال کا غرور۔ ایک مرتبہ وقت کے سلطان نے حکم دیا کہ میں تم دونوں کا امتحان لوں گا، چینیوں نے کہا کہ بہت بہتر، ہم اپنی جان لڑا دیں گے۔ رومیوں نے بھی عرض کیا کہ ہم بھی اپنا کمال دکھا دیں گے۔

الغرض اہل چین اور اہل روم کے درمیان مقابلہ ٹھہر گیا، چینیوں نے رومیوں سے کہا کہ اچھا ایک مکان ہمارے حوالے کرو اور ایک تم لو۔ دونوں مکان آمنے سامنے تھے ان میں سے ایک چینیوں کو ملا اور ایک رومیوں کو، چینیوں نے سیکڑوں قسم کے رنگوں کی فرمائش کی۔ بادشاہ نے اپنے خزانے کا منہ کھول دیا۔ ہر صبح چینیوں کو من پسند رنگ ملنے لگے۔

رومیوں نے کہا کہ ہم نہ کوئی نقش بنائیں گے اور نہ ہی کسی قسم کا رنگ لگائیں گے بلکہ اپنا کمال اس طرح دکھائیں گے کہ زنگ بھی باقی نہ رہے۔ چنانچہ انھوں نے مکان کا دروازہ بند کرکے صیقل کرنے شروع کر دیے اور آسمان کی طرح بالکل سادہ اور شفاف گھوٹا کر ڈالا۔ ادھر چینی اپنے کمال اور ہنرمندی سے فارغ ہو کر خوشی کے شادیانے بجانے لگے۔

بادشاہ نے آ کر پہلے چینیوں کا کام دیکھا اور ان کے کمالات، عجائبات، ہنرمندی اور نقش و نگار کو دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ اس کے بعد وہ رومیوں کی طرف آیا تو انھوں نے اپنے کام پر سے پردہ ہٹایا۔ چینیوں کی تمام تصاویر و تماثیل کا عکس ان گھوٹا دی ہوئی دیواروں پر پڑا۔ جو کچھ چینیوں نے نقاشی کی تھی وہ اسی گھوٹا کی ہوئی دیواروں پر اس قدر دلکش اور خوبصورت معلوم ہوتی تھی کہ آنکھوں کو حلقہ چشم سے باہر کھینچ لیتی تھی۔

اے فرزند! رومیوں کی مثال ان باخدا صوفیوں کی سی ہے جو نہ کتب دین پڑھے ہوئے ہیں، نہ فضیلت علم و ہنر رکھتے ہیں لیکن انھوں نے طمع، حرص، لالچ، بغض، کینہ اور عداوت کے زنگ سے آلودہ اپنے سینوں کو مانجھ کر ایسی صیقل کرلی ہے کہ ان کے دل صاف و شفاف آئینہ ہوگئے ہیں جس میں حقیقت اور سچائی کے ازلی حسن کا جو صورت سے پاک ہے، نقش اتر آتا ہے۔

مولانا جلال الدین رومی کی مذکورہ حکایت کی روشنی میں پاکستان کی سیاسی، عدالتی تاریخ اور ان سے وابستہ کرداروں کے قول و عمل کا جائزہ لیجیے تو یہ تلخ اور افسوس ناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہماری تاریخ کا ہر صفحہ اجلا اور شفاف نہیں بلکہ جگہ جگہ بدنامیوں اور رسوائیوں کے داغ دھبے اپنے کرداروں کو خود بے نقاب کر رہے ہیں۔

قیام پاکستان سے لے کر آج تک جتنے لوگ صاحب اختیار ہوئے کس کس نے اپنے منصب سے انصاف کیا، کس نے اپنے فرائض منصبی کے حقوق ادا کیے، ایمانداری سے اپنی ذمے داریاں پوری کیں اور جاتے جاتے ملک کی ترقی و خوشحالی اور عوام کی فلاح و بہبود کے حوالے سے کون سے ایسے کارہائے نمایاں انجام دیے جو تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں اور لوگ انھیں آج بھی اچھے ناموں سے یاد کرتے ہوں۔

افسوس کہ ماسوائے قائد اعظم محمد علی جناح اور خان لیاقت علی خان کے علاوہ بعد میں آنے والے کسی صاحب اختیار نے اپنے منصب کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔قائد اعظم کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ صادق تھے۔ ان کا کردار و عمل قوم میں وحدت کی روح پھونک گیا۔ لوگ ان کے حکم پر مرمٹے۔ وطن سے بے وطن ہوئے، مہاجرین بن گئے۔ سب کچھ لٹا کر بھی خوش بختی کا احساس زندہ رہا۔

ایک عظیم مقصد یعنی پاکستان کے حصول کے لیے قائد کے فرمان پر جان، مال، عزت و آبرو کی قربانی دینے پر آمادہ ہوئے اور پاکستان حاصل کرلیا۔ وحدت اور ایک متحدہ قوم کا تصور دینے والے قائد کی وفات کے بعد قوم انتشار کا شکار ہوگئی۔ صداقت و امانت کو گرہن لگ گیا۔ اکثریت بے مقصد ہجوم میں تبدیل ہوگئی جسے آنے والے نام نہاد لیڈروں نے اپنے اپنے سیاسی مفادات کے لیے دل کھول کر استعمال کیا اور پھر ٹیشو پیپر کی طرح مسل کے پھینک دیا۔

ریاستی ادارے اپنی ذمے داریوں اور فرائض سے غفلت برتنے کے مرتکب ہوئے۔ ہر ادارہ دوسرے ادارے کے کاموں میں مداخلت کاری کے شوق میں مبتلا ہو کر اپنی حاکمیت بٹھانے لگا۔ آئین و قانون کے احترام کی کوئی تابندہ مثال نظر نہیں آتی۔ نتیجتاً ملک دو ٹکڑے ہوا، نظریہ ضرورت نے جنم لیا، 58-2B کی تلوار ایوان اقتدار کے سر پر لٹکتی رہی۔ احتساب انتقام میں تبدیل ہو گیا، سیاست نے بجائے عوام کی خدمت کے مفادات کا لبادہ اوڑھ لیا، ہمارے رہنما و قائدین نے قائد اعظم کے فرمودات کو بھلا دیا۔ اصولوں اور نظریے کی سیاست کو دفن کردیا۔

حرص، طمع، لالچ، کینہ، بغض، عداوت، انتقام اور نفرت و فرقہ واریت کے زنگ سے اپنے سینوں کو آلودہ کرلیا۔ افسوس اس بات کا کہ کسی کو اپنے طرز عمل پر ندامت بھی نہیں۔ آج پاکستان کی سیاست اسی بد رنگی میں رنگی ہوئی ہے۔ نظام انصاف پر بھی سوالیہ نشانات لگے ہوئے ہیں۔پی ڈی ایم حکومت سے لے کر نگران حکومت تک محض ڈیڑھ سال کے عرصے میں ملک آگے جانے کے بجائے پیچھے چلا گیا۔

اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا بننے اور اس کا برملا اقرار کرنے والے شہباز شریف کا دعویٰ کہ انھوں نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا۔ لیکن ان کے دور میں ہونے والی مہنگائی نے تاریخی بلندیوں کو چھوتے ہوئے عوام کا دیوالیہ نکال دیا۔ اتحادی حکومت نے پاکستان کو آئی ایم ایف کے شکنجے میں ایسا جکڑ دیا ہے کہ رہائی کے کوئی امکانات فی الحال نظر نہیں آتے۔ معیشت تواتر کے ساتھ زبوں حالی کا شکار ہے۔ آئی ایم ایف کے دباؤ پر بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بار بار اضافہ کیا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں مہنگائی کا گراف روز بہ روز بلند ہوتا جا رہا ہے۔

غریب آدمی تو کجا متمول گھرانے کے لوگ بھی پریشان حال ہیں۔ آج نگران حکومت کے دور میں بھی عوام پر بجلی، گیس، ڈیزل اور پٹرول کی قیمتیں بڑھا کر مہنگائی کے بم گرائے جا رہے ہیں۔ نگراں حکومت کے دور میں بھی مہنگائی، بے روزگاری، بھوک اور افلاس کے نئے ریکارڈ قائم ہوتے نظر آ رہے ہیں۔

رواں سال نئے انتخابات کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ مردم شماری کی منظوری کے بعد حلقہ بندیوں کی آڑ میں تاخیری حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ نگراں حکومت کے دور کو طول دینے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے کہ جب تک چیئرمین پی ٹی آئی کے مستقبل کا حتمی فیصلہ نہیں ہو جاتا الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں۔

صدر مملکت کا باوقار منصب بھی متنازع ہو گیا ہے۔ آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ترمیمی بل پر صدر عارف علوی کا اصرار کہ میں نے اس پر دستخط نہیں کیے ۔ تو پھر گزٹ نوٹیفکیشن کیسے جاری ہوا اور یہ بلز قانون کیسے بنے اس امر کی بہرحال تحقیقات ہونی چاہیے۔

ادھر فیصل آباد جڑانوالہ میں مذہبی منافرت کی بھڑکتی آگ نے نہ صرف مسیحی برادری کو جھلسا دیا بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کا اقلیتوں کے تحفظ کے حوالے سے موقف کو نقصان پہنچایا۔ آج پاکستان ایک ایسے چوراہے پر کھڑا ہے جہاں چاروں جانب سے مشکلات تیزی سے وطن عزیز کو اپنی گرفت میں لے رہی ہیں اور ملک کے روشن مستقبل کے لیے ان مشکلات پر قابو پانا ناگزیر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔