’’اسٹیو وا اس قدر کم گو تھا کہ مجھے لگا جیسے اس کے جبڑے آپس میں جڑے ہوئے ہیں‘‘

محمود الحسن  اتوار 11 مئ 2014
قومی ٹیم کا صحیح معنوں میں ابھار مشتاق محمد کی زیرقیادت 1977ء میں آسٹریلیوی سرزمین پر ٹیسٹ میں پہلی فتح سے ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

قومی ٹیم کا صحیح معنوں میں ابھار مشتاق محمد کی زیرقیادت 1977ء میں آسٹریلیوی سرزمین پر ٹیسٹ میں پہلی فتح سے ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

عمران خان دنیا کے کسی بھی خطے میںکرکٹ کھیلنے گئے،اپنا نشان چھوڑ آئے۔پاکستانی کھلاڑیوں کوسب سے زیادہ مشکل آسٹریلیا میں کھیلنے میںرہتی ہے، جس کی ایک وجہ حریف ٹیم کا مضبوط ہونا تودوسرے ادھرکی تیزوکٹیں،جن پرہماری بیٹنگ اکثر ڈھے جاتی۔

کرکٹ میں عمران خان کی کارگزاری پر نظر دوڑانے سے واضح ہوجاتا ہے کہ تگڑے حریف اور غیرموافق حالات میں ان کی کارکردگی میں کچھ اور بھی زیادہ نکھار آجاتا۔ اس بات کا ایک ثبوت آسٹریلوی سرزمین پران کی عمدہ کارکردگی بھی ہے۔ پاکستانی ٹیم نے بین الاقوامی کرکٹ میں وارد ہوتے ہی اپنی موجودگی کا احساس دلادیا مگراس ٹیم کا صحیح معنوں میں ابھار مشتاق محمدکی زیرقیادت 1977ء میں آسٹریلیوی سرزمین پر ٹیسٹ میں پہلی فتح سے ہوتا ہے۔

اس نفسیاتی حد کو عبورکرلینے کے بعد پاکستان ٹیم کی کارکردگی کا گراف بتدریج اونچا ہوتا گیا۔ ٹیم کے بارے میں گھرکے شیر ہونے کا تاثردھلنے لگا۔آسٹریلیا کے خلاف اس تاریخی کامیابی کا مرکزی کردارعمران خان تھے، جو بارہ وکٹیں لے کرسڈنی کے ہیرو کہلائے۔اس ٹیسٹ میں وہ حقیقی فاسٹ بولرکے روپ میں دکھائی دیے ، اس سے قبل وہ میڈیم پیسر کے طورپرجانے جاتے ۔ انگلینڈ میںڈینس للی کو فاسٹ بولنگ کرتے دیکھ کران کے ہاں فاسٹ بولربننے کی برسوں پہلے جوخواہش بیدار ہوئی تھی، اس کی تکمیل کی گھڑی سڈنی میں آئی۔ سڈنی ٹیسٹ سے کامرانی کے جس سفرکا آغاز ہوا، اسے پاکستانی ٹیم نے 1992ء میں آسٹریلیا ہی میں عمران خان کی قیادت میں پہلی بار کرکٹ کا عالمی چیمپئن بن کرکمال تک پہنچایا۔

دوسری بات یہ کہ عمران خان اپنے ہاں رائج ڈومیسٹک کرکٹ کے ڈھانچے سے ناخوش اس وقت بھی رہے، جب وہ کھیلتے تھے اوربعد میں بھی اسے آڑے ہاتھوں لیتے رہے۔ نظام بہتربنانے کے لیے آسٹریلوی ڈھب پرڈومیسٹک کرکٹ کو استوارکرنے پران کا زوررہا۔عمران خان کا نقطہ نظرہے کہ آسٹریلیامیں ڈومیسٹک کرکٹ کے مقابلوں میں فضااس قدر مسابقانہ ہوتی ہے کہ وہاں سے نکل کرکھلاڑی جب بین الاقوامی کرکٹ میں آتے ہیں تو انھیں ماحول زیادہ اجنبی نہیں لگتا۔اس کے برعکس پاکستان میں ڈومیسٹک کرکٹ کا معیاراس قدرپست ہے کہ وہاں سے کھلاڑی جب قومی ٹیم میں آتاہے تووہ خود کو بہت حد تک بدلی ہوئی صورت حال میں پاتا ہے۔آسٹریلیوی کھلاڑیوں کی کارکردگی اور ذہنی مضبوطی بھی اس بات کی غماز ہے کہ وہاں کا نظام کرکٹ بھی بڑھیا ہے لیکن اس کے ساتھ عمران خان اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پربھی روشنی ڈال سکتے ہیں کیونکہ انھیں آسٹریلیا میں شیفلڈ شیلڈکھیلنے کا موقع ملااور اس سال (1985 )اگر نیوسائوتھ ویلز کی ٹیم ٹورنامنٹ جیتنے میں کامیاب ٹھہری توا س میں عمران خان کی عمدہ کارکردگی کو بھی دخل تھا۔

عمران خان جس سیزن میں کھیلے ، اس میں اسٹیو وا پہلی بار شیفلڈ شیلڈمیں شریک ہوئے۔نیو سائوتھ ویلز ایسوسی ایشن کے سیکرٹری باب ریڈفورڈ نے عقلمندی یہ کی کہ جب ٹیم کا کھیلنے کے لیے شہرسے باہرجانا ہواتواس بات کا خاص طور سے اہتمام کیا کہ ہونہاراسٹیو وا کو عمران خان کے ساتھ ٹھہرایا جائے تاکہ وہ لیجنڈری کرکٹرکے ساتھ رہ کرکچھ سیکھ سکیں۔اس سے پتا چلتا ہے کہ آسٹریلیا میں کرکٹ منتظمین نئے ٹیلنٹ کو کس طرح سے گروم کرتے ہیں۔مایہ نازکرکٹرکے ساتھ روم میٹ کی حیثیت سے اسٹیو وا نے جو چند دن گزارے، اس کا ذکرعمران خان نے اپنی کتاب”All Round View” (اس کتاب کا ترجمہ معروف اسپورٹس جرنلسٹ مرحوم گل حمید بھٹی نے ’’میرے چاروں طرف‘‘کے عنوان سے کیاتھا،عمران خان کا اقتباس اسی ترجمے سے ہم آپ کی نذر کریں گے )میں کیا ہے اور اسٹیوواکی خودنوشت “Out of my Comfort Zone” بھی اس کے بیان سے خالی نہیں۔پہلے ہم عمران خان کا لکھا پیش کرتے ہیں:

عمران خان کے بقول

’’ اسٹیووا نے نیو سائوتھ ویلزکی طرف سے اس وقت اپنے کیرئیر کا آغازکیا،جب میں ان کے لیے کھیل رہا تھا۔نیوسائوتھ ویلزکرکٹ ایسوسی ایشن کے سیکرٹری باب ریڈ فورڈنے جب ٹیم اپنے شہرسے باہرجاتی، اسے میرے ہی کمرے میں اس لیے ٹھہرانا شروع کیاتاکہ وہ مجھ سے کچھ سیکھ سکے، مگر وا اس قدرخاموش رہتاتھا کہ مجھے شک ہواکہیں اس کے جبڑے آپس میں جڑے ہوئے تونہیں۔اگرچہ اس کے منہ سے کبھی ایک لفظ بھی نہ نکلا، لیکن میں بتاسکتاتھا کہ اس میں حوصلہ مندی اور ڈٹ کرمقابلہ کرنے کی صلاحیتیںکوٹ کوٹ کربھری ہوئی ہیں۔اس وقت سے جس تیزی سے وہ بلندیوں کی طرف بڑھاہے، اس بات کی غمازی ہوتی ہے کہ اس کا مزاج مکمل طور پرکرکٹ کے لیے موزوں ہے۔‘‘

اسٹیو وا لکھتے ہیں

’’ خیال تھا کہ میں کرکٹ کے بہترین آل رائونڈرسے سیکھ سکوں گا۔اس کی باتیں سن سکوں گا۔کیوں کہ چھ دن کے اس دورے میںمیرے روم میٹ عظیم عمران خان تھے ، جو نیو سائوتھ ویلزکے لیے اپنا پہلا اور آخری سیزن کھیل رہے تھے۔بہرحال جب وہ وقت ختم ہوگیاجو ہم نے ساتھ گزارا تومیں یہی سوچتا رہ گیا کہ مجھے ایک ہونہارآل رائونڈرکے طورپرچنا گیاتھا یا پھرمجھ میں چھپی سیکرٹری کے طورپرصلاحیت کو سامنے لانا تھا۔عمران خان واقعی ایک لیجنڈ تھے۔ میں ان کی کمرے میں دستیابی کے بارے میں جوابات دینے میں اس قدر مصروف رہا کہ مجھے میچ کے سلسلے میں نروس ہونے کا وقت ہی نہیں ملا۔میری خواہش تھی کہ میں ان سے ہرطرح کے سوالات پوچھوں اور کرکٹ کے بارے میں معلومات حاصل کرسکوں۔لیکن اس وقت میں بہت نروس اور مرعوب تھا۔ایک تویہ، دوسرے ان کی شخصیت کے گرد ہالہ تھا۔

میرے دل میں ان کی جس قدر تعظیم تھی، اس کے باعث میری زبان بند کی بند رہ گئی اور میں ان سے مکالمہ نہ کرسکا۔یہ ایک عجیب احساس تھا کہ آپ کسی ایسے شخص سے جس کی پرستش کرتے رہے ہوں اس سے ایک میٹر سے بھی کم فاصلے پرسورہے ہوں ۔اس کے خراٹے سن رہے ہوں۔ایک ہی غسل خانہ استعمال کررہے ہوں اور سونے سے پہلے ٹی وی دیکھتے ہوئے چھوٹی موٹی باتیں کررہے ہوں ۔یہ کوئی ایسی چیز نہیں جو معمول کے مطابق ہواور مجھ میں ابھی اتنی پختگی نہیں آئی تھی کہ میں باتوں کو نارمل انداز میں لے سکتا، اس لیے میں صرف دیکھتا رہا اوردل کی باتیں دل تک ہی رکھیں اورکھل کرکچھ نہ کہہ سکا۔‘‘

شیفلڈ شیلڈ میں پہلے میچ کی یاد

اپنی یادداشتوں میں اسٹیو وا نے شیفلڈ شیلڈ کے لیے اپنے پہلے میچ کا ذکربھی کیا ہے،جس میں اسے آخری نمبروں پربیٹنگ کرنا پڑی اور 31رنزاس نے بنائے۔وہ اپنی اس کارکردگی کونہ زیادہ بہترقراردیتاہے نہ ہی اسے ناکامی سے تعبیرکرتاہے۔ وا کو جیف تھامسن، کارل ریکمین اور میکڈرمٹ جیسے عمدہ بولروں کا سامنا کرنا پڑا۔وہ کریز پرپہنچاتو سلپ میں سے گریگ رچی نے آوازہ لگایاکہ بچو!تیارہوجائو،اب تم اسکول کے لڑکوں سے مقابلے میں نہیں۔وہ خود کو تکنیکی اعتبار سے ایسا مضبوط بیٹسمین قراردیتاہے،جو فٹ ورک کی بنیاد پرنہیں بلکہ اپنی تیزنگاہی کے باعث کھیل رہا تھا۔اس نے میکڈرمٹ کو چھکا بھی لگایاجس پروہ خاصا غضب ناک ہوا۔

اس دور میں اسٹیو واخود کو ایسا بیٹسمین قراردیتا ہے، جو میچ کی صورت حال سے قطع نظرجارحانہ اندازمیں کھیلنے پریقین رکھتا۔آنے والے برسوں میں اسٹیو وا نے ٹیم کے لیے اپنی اس سوچ کو بدلا اور بہت سے مواقعوں پر پھنس کربیٹنگ کی اور ٹیم کی نیا کنارے لگائی۔بولنگ میں اسٹیو وا نے تیئس اوورز میں چونتیس رنز دے کرایک ہی وکٹ حاصل کی۔ اس میچ کے بعد اسٹیو وا ٹیم سے باہر ہوگیا اور پھراتفاقاًاس کو فائنل میں نمائندگی کاموقع مل گیا۔

عمران نے بارڈر کو جال میں پھانسا

شیفلڈ شیلڈ ٹورنامنٹ کے فائنل میں اس کے کھیلنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔میچ کے روزصبح ہی اسے معلوم ہواکہ جیف لاسن فٹنس ٹیسٹ پاس نہیں کرسکے، اس لیے اب وہ ٹیم کا حصہ ہوگا۔اس میچ کے حوالے سے جو تین باتیں اسٹیو وا کی یادداشت کا حصہ رہیں، ان میں سے ایک کا تعلق عمران خان سے ہے۔ اسٹیو وا نے لکھا ہے کہ عمران خان اور ایلن بارڈر کے درمیان جو ایک ذاتی کشمکش چل رہی تھی، اس میچ میں کھل کرسامنے آگئی۔دونوں ہی اس لڑائی کو پسند کرتے تھے۔وا نے بتایاہے کہ میچ کے دوران ایک مرحلے پرجب عمران خان، بارڈر کو بولنگ کروارہے تھے، تو ایک موقع پراچانک عمران خان پچ کے درمیان جاکرکھڑے ہوگئے اور کھیل رک گیا۔

انھوں نے کپتان ڈرک ویلہام سے تھرڈ سلپ میں کھڑے جان ڈائی سن کی پوزیشن تھوڑی تبدیل کرنے کو کہا۔پھر وہ خود ہی فیلڈرکی طرف مڑے اوراس کی پوزیشن کو دوبارہ ری ایڈجسٹ کیا اوراس وقت تک بولنگ کے لیے نہ پلٹے جب تک ڈائی سن عین مین اسی جگہ پرجم نہ گیاجوعمران خان کے ذہن میں تھی۔ اس سب کو ایلن بارڈر نے ہوتے دیکھا لیکن خود کو پراعتماد ظاہرکرنے کے لیے یہی تاثردینے کی کوشش کی جیسے عمران خان کے اس منصوبے سے متاثرنہیں ہوئے۔ اس سے اگلا بال عمران خان نے کریز کے کنارے پرسے کیا تو ایلن بارڈر نے اٹھتی ہوئی بال بڑے نیم دلانا انداز میں کھیلی تو وہ سیدھی تھرڈ سلپ میں کھڑے فیلڈرکے ہاتھوں میں جاکرمحفوظ ہوگئی، اوراسے اپنی جگہ سے ایک انچ بھی ہلنا نہ پڑا۔ اسٹیو وا نے لکھا ہے کہ کوئنز لینڈ سے فائنل جیتنے کے بعد پارٹی کا اہتمام عمران خان کے اپارٹمنٹ میں کیا گیا ، جہاں اس نے زندگی میں پہلی بارلوگوں کو چرس استعمال کرتے ہوئے دیکھا۔

1987ء ورلڈ کپ کا سیمی فائنل

1985ء میں عمران خان نے کب یہ سوچا ہوگایہ سیدھا سادہ شرمیلا سا لڑکا دو ہی برس میں ان کے کیریئر میں آنے والی چند اداس شاموں میں سے ایک کا باعث بن جائے گا۔یہ 1987ء ورلڈ کپ میں سیمی فائنل ہارنے کے بعد کی شام کاذکر ہے۔عمران کے بقول: ’’میں نے پاکستانی شائقین کو اس قدرناامید نہیں دیکھا جیسا کہ سیمی فائنل میں ہارجانے کے بعد دیکھا۔‘‘ 1987ء کے ورلڈ کپ سیمی فائنل میںاسٹیو وا کے آخری اوور میں بنائے گئے اٹھارہ رنز پاکستان کو مہنگے پڑ گئے۔ان کا تیزی سے32رنز کرنا بہت زیادہ آسٹریلیا کے حق میں گیا۔شومئی قسمت کہ آخری اووربیچارے سلیم جعفرنے کیا جس میں جتنا اسکورانھیں پڑا اتنے اسکور سے ہی پاکستان میچ ہارگیا۔ناسمجھ ناقدین نے شکست کا سارا ملبہ سلیم جعفرپرڈال دیا جبکہ ان کی جگہ کوئی اوربولربھی ہوتا تب بھی اس کے اوور میں آٹھ دس رنزبنانا مشکل نہ تھا کہ اس نے کوئی میڈن اوور تو کرنا نہ تھامگران پرتنقید کا کوڑا سلیم جعفر قدربرسا کہ ان کا کیریئرکبھی اس دھچکے کے بعد سنبھل نہ سکا۔

ان کو ہمیشہ اس میچ کے باعث یاد کیا گیا۔اسٹیو وا نے بھی اپنی کتاب میں سلیم جعفرسے روا سلوک کو قابل افسوس قراردیا ہے۔اسٹیو وا کا یہ تاثرالبتہ درست نہیں کہ اس میچ کے بعدسلیم جعفر نے بمشکل ہی کوئی میچ کھیلا۔ورلڈ کپ سیمی فائنل کے بعد سلیم جعفر نے دس ٹیسٹ اور پندرہ ون ڈے میچ کھیلے لیکن ان کی کارکردگی نہایت معمولی رہی،جس کے باعث وہ ٹیم میں اپنی جگہ برقرار نہ رکھ پائے۔1992ء میں سری لنکا کے خلاف فیصل آباد میں وہ اپنا آخری ٹیسٹ میچ کھیلے۔ورلڈ کپ سیمی فائنل میں شکست کا باعث سلیم جعفرنہ تھے بلکہ کئی دوسری وجوہات تھیں،مثلاً ڈکی برڈ کا عمران خان کو غلط ایل بی ڈبلیوقراردینا۔ڈکی برڈ جو عمران خان کے پسندیدہ امپائرہیں،انھوں نے اپنے ایک انٹرویو میں اس غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے بتایا کہ جب کبھی بھی ان کی عمران سے ملاقات ہوتی ہے، وہ ان سے سیمی فائنل میں غلط آئوٹ دینے پرمعافی مانگتے ہیں۔

اس میچ میں عبدالقادر کا بال منہ پرلگنے سے سلیم یوسف زخمی ہوگئے اور میانداد کو ان کی جگہ وکٹوں کے عقب میں کھڑے ہونا پڑا۔ریگولروکٹ کیپرنہ ہونے سے بھی پاکستان کو نقصان ہوا۔ مدثرنذرمیچ سے قبل ان فٹ ہوگئے اور یوں اوپنر کے ساتھ پاکستان ون ڈے کے عمدہ بولرسے بھی محروم ہوگیا۔ ان کی جگہ منصوراخترکو موقع دیا گیا، جنھوں نے ایک توخود خراب بیٹنگ کی ، اوپرسے اپنے ساتھی اوپنرکو بھی رن آئوٹ کرادیا، جس سے مڈل آرڈرپرپریشربڑھ گیا۔ میانداد اس میچ میں کچھ سست کھیلے توان پربھی انگلیاں اٹھیں۔ سرفرازنواز نے اس میچ پرفکس ہونے کا الزام لگایا۔

اس میچ کے بعد عمران خان نے کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کیا جس کو بعدازاں ضیاء الحق کے کہنے پرتبدیل کرلیا گیا۔ دلچسپ بات ہے کہ اگلا ورلڈ کپ جو آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ہوااس میں ابتدائی میچوں میں خراب کارکردگی کے بعد پاکستانی ٹیم آسٹریلیا کو پول میچ میں ہرا کر ہی فتح کی راہ پر گامزن ہوئی۔ پاکستان نے ٹورنامنٹ میں پول کے میچ مکمل کرلیے تو اب اس کے سیمی فائنل میں پہنچنے کے لیے ضروری تھا کہ آسٹریلیا اپنے آخری پول میچ میں ویسٹ انڈیزکو ہرادے، اور پھرآسٹریلیا نے یہ میچ جیت کرممکن بنایا کہ ہم سیمی فائنل میں پہنچ سکیں۔اس زمانے میں ایک بڑے قومی اخبارنے اگلے روزسرخی جمائی تواس میں ’’تھینک یو آسٹریلیا‘‘ کے الفاظ شامل تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔