ہم چلے چھوڑ کر تیری محفل صنم ، گلوکار بشیر احمد رخصت ہوگئے

نسرین اختر  اتوار 18 مئ 2014
 بشیر احمد نہ صرف سریلے گلوکار تھے بلکہ بہت اچھے موسیقار اور ایک اچھے گیت کار تھے۔فوٹو : فائل

بشیر احمد نہ صرف سریلے گلوکار تھے بلکہ بہت اچھے موسیقار اور ایک اچھے گیت کار تھے۔فوٹو : فائل

ماضی کے نام ور موسیقار اور گلوکار بشیر احمد 19 اپریل 2014 کو رضائے الٰہی سے انتقال کر گئے۔ مرحوم نے مشرقی پاکستان میں بننے والی بے شمار فلموں میں اپنی گلوکاری کا مظاہرہ کرکے انھیں یادگار بنادیا۔

بشیر احمد 1939 میں کلکتہ کے ایک اردو زبان بولنے والے خاندان میں پیدا ہوئے اور انھوں نے کلکتہ ہی میں انٹر تک تعلیم حاصل کی۔ انھیں بچپن ہی سے موسیقی سے لگاؤ تھا۔ اس لیے 15 سال کی عمر میں استاد ولایت حسین خان کے شاگرد ہوگئے اور ان سے موسیقی کے ساتھ ساتھ گلوکاری کی تعلیم بھی حاصل کی۔ پھر کچھ عرصے بعد جب بمبئی پہنچنے تو استاد بڑے غلام علی خان صاحب کی سرپرستی میں موسیقی کا گیان حاصل کرتے رہے۔

بشیر احمد بنگالی نہیں تھے، ان کا تعلق دہلی کی سوداگران برادری کی ایک فیملی سے تھا۔ 1960 میں بشیر احمد ڈھاکا آئے جہاں ان کے بہنوئی عشرت کلکتوی نے ان کا تعارف روبن گھوش سے کرایا۔ یہ وہ دور تھا جب ڈھاکا میں اردو فلمیں بننا شروع ہوئیں تو بشیر احمد بطور گلوکار فلمی دنیا میں آگئے اور سب سے پہلے انھیں ہدایت کار مستفیض نے اپنی فلم ’’تلاش‘‘ میں گلوکاری کا موقع دیا۔ اس فلم کے گیت بشیر احمد کے بہنوئی عشرت کلکتوی لکھ رہے تھے جو کہ مشہور شاعر تھے اور ان کا اصل نام روشن علی عشرت تھا۔

فلم ’’تلاش‘‘ میں بشیر احمد نے پہلی مرتبہ روبن گھوش کی موسیقی میں اپنی آواز کا جادو جگایا اور اس فلم کا ٹائٹل سونگ ’’کچھ اپنی کہیے کچھ میری سنیے‘‘ فردوسی بیگم کے ساتھ گایا۔ یہ گیت اپنے دور کا ایک یادگار اور مقبول گیت تھا آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور گیت ’’میں رکشہ والا متوالا‘‘ بھی مشہور ہوا تھا۔ یہ ان کی ابتدا تھی۔

بشیر احمد کی آواز کو خدا نے وہ صلاحیت اور تاثیر بخشی کہ اس آواز نے لاکھوں انسانوں کے دلوں کو سرور بخشا، ان کی سریلی آواز نے بے شمار گیتوں میں جادو کی تاثیر پیدا کردی اور وہ کانوں میں رس گھولنے لگی۔ بشیر احمد اپنے ہم عصر گلوکاروں میں اس لحاظ سے ممتاز تھے کہ وہ نہ صرف ایک اچھے اور سریلے گلوکار تھے بلکہ بہت اچھے موسیقار اور ایک اچھے گیت کار تھے۔ تینوں شعبوں میں خدا نے انھیں بے پناہ صلاحیتیں عطا کی تھیں۔ ایک شاعر کی حیثیت سے انھوں نے کئی گیت لکھے وہ اپنا تخلص ’’بی اے دیپ‘‘ لکھا کرتے تھے۔ ہدایت کار مستفیض نے اپنی فلم ’’ساگر‘‘ کے لیے بطور نغمہ نگار بشیر احمد سے ایک گیت لکھوایا، جو کہ گایا بھی بشیر احمد نے خود تھا۔ اس کے بول تھے ’’جا دیکھ لیا تیرا پیار‘‘ اس کی دھن موسیقار خان عطاء الرحمن نے بنائی تھی اور یہ گیت اس دور میں کافی مقبول ہوا۔

1964 میں روبن گھوش نے فلم ’’کارواں‘‘ کے لیے بشیر احمد سے گیت گوائے اور انہی سے گانے لکھوائے بھی ۔ فلم ’’کارواں‘‘ کے لیے انہوں نے گیت تحریر کیا جس کے بول تھے ’’جب تم اکیلے ہوگے ہم یاد آئیں گے۔‘‘ انہوں نے یہ گیت اپنی خوب صورت آواز میں گاکر امر گیتوں میں شامل کردیا۔ یہ گیت کافی پسند کیا گیا۔ نہ صرف گلوکاری کے حوالے سے بلکہ شاعری کے لحاظ سے بھی اسے پذیرائی ملی۔

1964 میں جب اداکار رحمان نے اپنی ذاتی فلم ’’ملن‘‘ شروع کی تو اس کی موسیقی عطاالرحمٰن نے ترتیب دی، فلم ’’ملن‘‘ جس میں رحمان نے اپنی ٹانگ کھوئی تھی، اس فلم کے لیے دوسرے فن کاروں کی طرح بشیر احمد نے بھی بلامعاوضہ گانے گائے اور لکھے تھے۔ اس فلم میں بشیر احمد کے ساتھ ملکہ ترنم نور جہاں نے بڑا خوب صورت ڈوئیٹ گایا تھا جو بہت مشہور ہوا تھا۔ اس گانے کے بول تھے ’’تم جو ملے پیار ملا، دل کو قرار آگیا‘‘ یہ گیت سرور بارہ بنکوی مرحوم نے لکھا تھا۔

1967 میں جب اداکار رحمان نے اپنی فلم ’’درشن‘‘ شروع کی تو ان کی نظرِانتخاب بشیر احمد پر تھی، جو کہ اب تک بطور گلوکار اور نغمہ نگار اپنی پہچان بناچکے تھے۔ رحمان نے انھیں پہلی بار بطور موسیقار اپنی فلم ’’درشن‘‘ میں موقع دیا۔ سابق مشرقی پاکستان کے حوالے سے فلم ’’درشن‘‘ ایک ممتاز مقام رکھتی ہے۔ اس فلم کے تمام گیت بے حد مقبول ہوئے اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ فلم کے گیت بشیر احمد نے بی اے دیپ کے نام سے تحریر کیے تھے اور ان کی دھنیں بھی انھوں نے خود کمپوز کی تھیں۔ جب کہ یہ گیت گائے بھی انھوں نے خود ہی تھے، بشیراحمد فلم ’’درشن‘‘ میں پہلی بار بطور موسیقار متعارف ہوئے تھے۔ وہ اپنے اس تجربے میں بے حد کام یاب رہے۔

 

اب ان کو گلوکار، نغمہ نگار کے ساتھ ساتھ موسیقار بھی تسلیم کیا کرلیا گیا تھا۔ درشن نہ صرف مشرقی پاکستان بلکہ مغربی پاکستان میں بھی بڑی کام یاب رہی، اس فلم کی کام یابی میں بشیر احمد کے کبھی نہ بھولنے والے گیتوں کا بھی کمال تھا۔ انہوں نے بہت خوب صورت گیت گائے تھے، جن میں ’’یہ موسم یہ مست نظارے پیار کرو تو ان سے کرو‘‘،’’تمہارے لیے اس دل میں کتنی محبت ہے‘‘ ’’دن رات خیالوں میں تجھے یاد کروں گا‘‘،’’ہم چلے چھوڑ کر تیری محفل صنم‘‘،’’گلشن میں بہاروں میں تو ہے‘‘ شامل ہیں۔ دوگانا ’’چن لیا ایک پھول کو‘‘ انھوں نے میڈم نورجہاں کے ساتھ گیا تھا۔ فلم درشن نے مقبولیت کے ایسے جھنڈے گاڑے کہ ہر طرف اس فلم کا چرچا اور اس کے گیتوں کی گونج تھی۔ آج بھی ان گیتوں کا شمار سدا بہار گیتوں میں ہوتا ہے۔ بشیر احمد اپنے گیتوں میں پیانو، بانسری، ستار اور سارنگی جیسے مشرقی سازوں کا استعمال زیادہ کرتے تھے۔ وہ گٹار، سکیسو فون جیسے اونچے سازوں کا استعمال کم کرتے تھے۔ فلم درشن میں گانے ’’ہم چلے چھوڑ کر تیری محفل صنم‘‘ میں اونچے سر ہونے کے باوجود بشیر احمد نے پیانو سے کام لیا اور بہت خوب لیا۔

فلم درشن کے بعد بشیر احمد نے مشرقی پاکستان میں بننے والی مزید پانچ فلموں کی موسیقی ترتیب دی، جن میں ’’جہاں باجے شہنائی‘‘ (1968) کنگن (1969) ’’چلو مان گئے‘‘ (1970) ’’مینا‘‘ 1970) اور ’’مہربان‘‘ (1971) شامل ہیں۔ مگر افسوس یہ سب فلمیں ناکام رہیں اور ان کا کوئی گیت بھی مقبول نہ ہوا۔

1970 میں مشرقی پاکستان میں حالات خراب ہوئے تو بشیر احمد لاہور آگئے اور یہاں اپنی گلوکارہ بیوی مینا کے ساتھ 1975 تک رہے۔ اس دوران انھوں نے لاہور اور کراچی کی کئی فلموں میں گیت گائے۔ 70ء کی دہائی میں بننے والی فلم ’’سنگتراش‘‘ جو کہ ڈھاکا میں بنی تھی۔ اس فلم میں بشیر احمد کے گائے ہوئے گیت تھے، مگر اس وقت پاکستان میں جنرل ضیا الحق کا دور آچکا تھا۔ فلم ساز کی بے حد کوششوں کے باوجود یہ فلم یہاں ریلیز نہ ہوسکی۔ 1975 میں بشیر احمد بھی مشرقی پاکستان جو کہ بنگلادیش بن چکا تھا واپس چلے گئے۔

وہ فلم کے ساتھ ساتھ اسٹیج پر بھی گاتے رہے۔ ان کا شمار لیجنڈ گلوکاروں میں ہوتا تھا۔ بشیر احمد کے مقبول گیتوں میں ’’تم سلامت رہو گیت گاؤ ہنسو، میں تمہارے لیے گیت گاتا رہوں، پھر ایک بار وہ نغمہ گنگنا دو ذرا‘‘، ’’ذرا کتابوں سے نظر اٹھائیے‘‘،’’میرا دل نہ جانے کب سے تیرا پیار ڈھونڈتاہے‘‘،’’میرے سینے پہ سر رکھ دو‘‘،’’میرے دل میں سما جاؤ‘‘ بھی شامل ہیں۔

خدائے تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مرحوم بشیر احمد کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔ (آمین)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔