پرنٹ لائن

سید نور اظہر جعفری  پير 19 مئ 2014

قلم کو نہ جانے کیا ہوگیا ہے … ایک چپ سی لگی ہوئی ہے۔ یہ وہی قلم ہے جس سے میں زندگی بھر کہانیاں لکھتا رہا ہوں۔ لوگوں کی کہانیاں، حالات کی روداد کی ڈرامائی تشکیل، گزرتے ہوئے وقت پر شاعرانہ اظہار خیال کیا ہوگیا۔ لوگ لکھ رہے ہیں، لوگ پڑھ رہے ہیں، کچھ بھی تو نہیں بدلا، تو پھر میرا قلم کیوں چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہے۔

شاید اس قلم کو کچھ اور درکار ہے، کوئی درد، یا کسی درد کا درماں، آخر کب لکھے گا یہ۔ لاشوں کے نوحے لکھے جا چکے، ظلم پر ماتم جاری ہے، بے آبروی کی اب کوئی وقعت نہیں، انسان پہلے وحشی تھا، اب درندہ ہے، وحشی کو زنجیر نہیں ڈالی تو وہ درندہ بن گیا، اب اس کے منہ کو خون لگ گیا ہے، اور ایسا کہ اگر دوسروں کا نہ ملے تو اپنے زخم ہی چاٹ کر خود کو تسکین دے گا، کہاں گئے وہ امن کے ٹھیکیدار، شاید میرا قلم ان کو تلاش کر رہا ہے۔ ساری دنیا میں ظلم کے ذریعے امن کا کاروبار ہو رہا ہے۔ شاید یہ بات میرے قلم کو بری لگ رہی ہے۔ مگر اس سے کیا ہوگا، اقوام کا چارٹر تو طاقت ور طے کرتے ہیں۔ بھک منگوں کو کون پوچھتا ہے، شاید میرا قلم اس حیثیت پر شرمندہ ہے، تو پھر کیا ہو رہا ہے۔

میرے قلم کو آخر کیا برا لگ رہا ہے۔ ظالموں سے ظلم کے معیار پر مذاکرات جو ہوگیا سو ہوگیا، لوگ نہیں مل رہے، زمین آسمان پریشان ہیں کہ ان لوگوں کو کہاں سے لائیں، یہ شاید میرے قلم کو عجیب لگ رہا ہے، مانگیں اجڑ رہی ہیں، گودیں سونی ہو رہی ہیں، شاید اسے برا لگ رہا ہے کہ کوئی بولتا کیوں نہیں۔ پر لاشیں کہاں بولتی ہیں۔ زندہ لاشیں جن کے سودے دن رات ہو رہے ہیں۔ کوئی نہیں بولتا، زمانے کی جادو گری پر حیران ہے، شاید میرا قلم کہ ایک ظلم کرے اور دوسرا کہے کہ تم اپنے ظلم کا وقت پورا کرو ہم کچھ نہیں کہیںگے۔ اس بات پر کہ جب باہر ہوتے ہیں، محلوں سے تو گلے پھاڑ پھاڑ کر محل والے کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی باتیں کرتے ہیں اور جب محل مل جائے تو اس کے پاس ہی مدد کو پہنچتے ہیں کہ اب میرا خیال رکھنا، مگر اے میرے قلم یہ تو تیرا کام ہی نہیں ہے، ظلم کے ضابطے ہم نہیں مانتے، کہتے کہتے لوگ مٹی میں دفن ہوگئے، کوئی نہیں اٹھا۔ شاید یہ برا لگا ہے کہ خاموش ہے، معلوم تو ہے تجھے کہ انقلاب کی سچ غریبوں کے گھروں میں کہیں پیدا ہوتی ہے اور تجارت پیشہ سیاست دان اسے پرچم بناکر اپنا مقصد حاصل کرتے ہیں۔ مزدور کے شب وروز تو ویسے ہی ہیں۔

مزدور کے لیے اگر مشکل سے کبھی کالونی بستی ہے تو گھر مزدورکو الاٹ نہیں ہوتا اور یوں ان گھروں کے کھڑکی، دروازے چھوٹے چور لے جاتے ہیں، کیا کریں پیٹ تو بھرنا ہے نا۔ روزگار نہ ملے تو چور کہہ کر بھی پیٹ میں روٹی تو ڈالنی ہے نا۔ پیٹ کو پاپی کہنا پرانی بات ہے، پیٹ پاپی نہیں ہوتا، پیٹ کا حق کاٹنے والا پاپی ہے۔ قلم کو میرے شاید یہ سوچ کھا رہی ہے کہ مزدور کا کیا ہوگا۔ لوہے کی ناف سے مشک نکالنے والا تو اب بھی برے ترین حال میں ہے۔ کیا کریں کدھر جائیں سرکاری اسکیمیں۔ دراصل درباریوں کو خوش کرنے کا ایک طریقہ ہے، پہلے راجے مہاراجے مربعے بانٹ دیا کرتے تھے۔ یہ اسکیمیں مربعے ہی تو ہیں۔ بس ذرا براہ راست نہیں بالواسطہ ہیں، مربعوں میں بعد میں تبدیل ہوتے ہیں۔ دولت کے وہ سکے جو بے ضمیری کی دکان پر ملتے ہیں اور چلتے ہیں۔ میرا قلم تب بھی اداس ہوگیا تھا جب تھر میں مور مر رہے تھے تھر میں مور نہیں مر رہے تھے، مور، مور مر رہے تھے، ایک معمہ ہے، سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔

مور بھی دو قسم کے ہیں، ایک تو وہ جس کی آنکھ کی شبنم مورنی پی لیتی ہے۔ ایک وہ مور ہیں جنھیں محفل کا مورکہتے ہیں۔ بات سمجھ میں آگئی نا۔ وہ مور تو اب بھی زندہ ہیں اور تھر کے بے آسرا خانماں برباد لوگوں کے حصے میں آنے والا سب کچھ ’’چٹ‘‘ کرتے جا رہے ہیں، سرکاری اسکیمیں ہیں نا، درباریوں کو خوش کرنے کو بنائی جاتی ہیں۔ سب اگر وہ والے مور نہیں تو اکثر وہی ہیں۔ انسانیت کی اس سے بڑی تذلیل کیا ہوگی کہ حکومت خود کہے کہ ہم نے غلطی کی ہے۔ ہم سے کوتاہی ہوئی ہے۔ حکومت کی کوتاہی اور غلطی؟ سمجھتے ہیں آپ اس کا پیمانہ کیا ہے۔ اس کا پیمانہ ہے سیکڑوں اموات خدا کے دیے ہوئے رزق کو چھیننے کی وجہ سے، وہ رازق ہے، رزق چھینوگے تو جب زمین کا رزق بنوگے تو سوچ لینا کہ کیا ہوگا۔ مگر جذباتی ہونے سے کیا فائدہ۔ جذبات سے کچھ نہیں ملتا، یہ تو تھیٹر میں اچھے لگتے ہیں جہاں کچھ نماش بین ان ’’ڈائیلاگس‘‘ پر تالی تو بجاتے ہیں۔

یہ دنیا ایک بے حس تھیٹر بن گئی ہے جہاں اب کوئی تالی بھی نہیں بجاتا … کہ یہ میں کیوں کروں کوئی اور کرے۔ برا تو لگے گا۔ تیوریاں بھی کھنچ جائیںگی پڑھ کر مگر قلم تو صرف سچ لکھتاہے۔ یہ کسی درباری کا قلم نہیں ہے۔ آزاد قلم ہے کرلو سودا… اور کرلو… جب بس کا حکم آئے گا تو آئے گا اور وہ حکم آخری ہوگا۔ یہ قلم دیکھتا رہا ہے جب کبھی آزادی سے حکومت کرنے کا موقع ملا … لوگوں پر ظلم ہی ہوا۔ یہ کیوں نہ ہو لوگ بھی تو باز نہیں آتے۔ یہ بھی قلم دیکھتاہے کہ دھوکے کھاکے بھی پھر اس کو ہی اپنا اثاثہ سونپ دیتے ہیں اور انتظار کرنے لگتے ہیں کہ اب سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ نہیں ہوگا کرنا پڑے گا۔ موروں کو بچانا ہوگا اور ’’موروں کو مرنا پڑے گا۔ یہ ایک سچ ہے، جب تک نہیں مرے گی انسانیت ذلیل و رسوا ہوتی رہے گی۔ کم عمر لڑکیاں نکاح کے نام پر بکتی رہیںگی۔ یہ بھی تو قلم دیکھ کر اداس ہے۔ ظلم سے بچانے والوں سے ظلم کا ساتھ دینے والوں کی تعداد و قوت زیادہ ہے۔ آج قلم نے زبان کھول ہی لی ہے۔ گرم شعلے نکل رہے ہیں اس قلم سے یہ آتش بازی کے انار نہیں خون کے گرم آنسو ہیں جن کی اپنی ایک چمک ہے۔

سولیاں اور کوٹھریاں صرف لکھنے والوں کا حصہ کیوں ہیں؟ قلم یہ بھی سوچتا ہے کہ میں لکھتا ہوں اور دونوں قید ہوجاتے ہیں۔ پڑھنے والو! جاگو! بولو! زور سے بولو! مل کر بولو! تمہاری خاموشی نے تمہیں مجرم اور ظالم کو جائز بنادیا ہے۔ اب بولو اگر اب بھی نہیں بولوگے تو کب بولوگے؟ ایک دوسرے سے مکالمہ کرو۔ ذاتی فائدے نقصان ایک طرف رکھ دو۔ بات کرو اپنے لیے بات کرو۔ انصاف کے لیے بات کرو، زندہ رہنے کے لیے بات کرو، جو بات سوچے سمجھے طریقے سے ہورہی ہے وہ شاید تمہاری بات نہیں ہے اور یہ وقت ثابت کردے گا، سزا کی جگہ جزا کا مقصد ایک غیر متوازن معاشرہ۔ ایک ظلم کی روایت ہے۔ تمہاری خاموشی یہ بتا رہی ہے کہ وہ جو چاہیں کریں۔ جو چاہے کہیں، وہ ٹھیک ہوگا۔ اپنے آپ کو پہچانو۔ سب کچھ تمہارا ہے، اس کا سودا مت ہونے دو۔ اسے ایمان کی طرح چاہو اور اس کی حفاظت کرو، یہ ہے میرے قلم کا کہنا ’’موروں‘‘ کو مرنا پڑے گا، موروں کو زندہ رکھنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔