اسرائیلی خونریزی اور جاوید احمد غامدی

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 10 نومبر 2023
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

فلسطین کی ایک چھوٹی سی پٹّی ، غزہ، میں محصور فلسطینیوں کے خلاف صیہونی اسرائیلی افواج کو بروئے کار آئے ہُوئے آج ایک مہینہ اور تین دن ہو چکے ہیں۔

اِس دوران ’’غزہ‘‘ میں ’’حماس‘‘ کے جانبازوں نے ڈیڑھ ہزار کے قریب اسرائیلی شہریوں اور فوجیوں کو ٹھکانے لگایا ہے ۔جب کہ ’’غزہ‘‘ میں اسرائیلی افواج کے ہاتھوں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد10ہزار سے تجاوزکر چکی ہے۔

اِن میں نصف سے زائد بچے ہیں۔صیہونی اسرائیلی وزیر اعظم ، نیتن یاہو، کا کہنا ہے :’’ حماس کے مکمل خاتمے اور غزہ پر قبضہ مکمل کرنے تک غزہ پر بمباری جاری رہے گی۔‘‘ایک اسرائیلی وزیر (Amichai Eliyahu) نے تو ’’غزہ‘‘ پر ایٹم بم مارنے کی تجویز بھی دے دی ہے ۔ اِس پر پوری دُنیا میں سخت ردِ عمل آیا ہے ۔

جواباً مذکورہ اسرائیلی وزیر نے کہا:’’ مَیں نے تو یہ بات استعارتاً کہی تھی ۔‘‘حقیقت یہ ہے کہ ’’غزہ‘‘ میں قیامت برپا ہے ۔

عالمِ اسلام کا کوئی ملک غزہ کے محصور و مظلوم فلسطینیوں کی مدد کو نہیں پہنچ رہا ۔امریکا اور مغربی حکمران ظالم اسرائیل کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں جب کہ امریکی اور مغربی عوام مظلوم و مجبور فلسطین کے ساتھ ۔ وہ مسلمان ممالک جو اَب تک اسرائیل کو تسلیم کرکے اس سے سفارتی و تجارتی تعلقات قائم کر چکے ہیں، وہ بھی مہر بہ لب ہیں ۔ ہمارے ہاں بھی کچھ دانشور اور لکھاری زیر لب اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں کرتے ہیں ۔ اِن میں ایک جناب جاوید احمد غامدی بھی ہیں ۔

پاکستان کے ممتاز و منفرد ترین عالمِ دین جناب جاوید احمد غامدی آجکل امریکا میں رہتے ہیں ۔ وہ اچھے بھلے لاہور ایسے علم پرور شہر میں اپنی فیض رساں شخصیت سے دین کا علم بانٹ رہے تھے کہ یکایک انھوںنے اپنا ڈیرہ ڈنڈہ اُٹھایا اور ملائیشیا منتقل ہو گئے  ۔

پھر وہ ملائیشیا سے امریکا تشریف لے گئے ۔ اُن کے متعدد انٹرویوز میں یہ بات کہی گئی ہے کہ پاکستان میں  اُن کے لیے حالات اس قدر ناہموار اور ناموافق بنا دیے گئے تھے کہ ہجرت کی راہ اختیار کرنا اُن کے لیے ناگزیر ہو گئی تھی۔

اگر جان بچانے اور سہل زندگی گزارنے کے لیے نواز شریف برطانیہ اور مولانا طاہر القادری کینیڈا جا سکتے ہیں تو غامدی صاحب امریکا کیوں منتقل نہیں ہو سکتے؟ امریکا میں فروکش ہو کر بھی جناب غامدی کے خیالاتِ عالیہ اور افکار پاکستان اور دیگر ممالک تک پہنچ رہے ہیں ۔ اُن کے کئی خیالات سے مگر کئی سیاسی و دینی شخصیات متفق نہیں ہیں۔ پاکستان کے کئی نجی ٹی ویوں اور یو ٹیوبرز کے توسط سے اُن کے خیالات ہم تک پہنچ رہے ہیں۔

کوئی چار ماہ قبل (جولائی2023) کے تیسرے ہفتے، ایک پاکستانی صحافی و یو ٹیوبرکی معرفت، اُن کا ایک تازہ ترین انٹرویو سامنے آیا ۔ یوں تو اِس انٹرویو میں کوئی نئی بات نہیں ہے ، مگر دو باتیں ایسی ہیں جو قابلِ ذکر ہیں۔

تیس منٹ پر مشتمل اِس انٹرویو میں جاوید احمد غامدی صاحب سے پاکستانی صحافی کی طرف سے پوچھے گئے سوالات کا بغور جائزہ لیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے صحافی صاحب کسی بڑے اسکوپ کی تلاش میں ہیں ۔

اور غامدی صاحب کی زبان سے ایسا جواب کہلوانے کے متمنی ہیں جس سے پاکستان میں کوئی بڑی خبر بن سکے۔ مثال کے طور پر مذکورہ صحافی صاحب نے انٹرویو کے دوران جاوید احمد غامدی صاحب سے بار بار پوچھا:’’کیاپاکستان ٹوٹ جائے گا؟‘‘ عاجز آکر غامدی صاحب نے کہا: ’’آپ ایسی بُری باتیں کیوں سوچتے ہیں؟مَیں تو کبھی نہیں چاہوں گا کہ پاکستان خدانخواستہ ٹوٹ جائے ۔ ہمیں بہتری اور آمدِ بہار کی اُمید رکھنی چاہیے ۔

پاکستان اور پاکستانیوں میں بہت پوٹینشل ہے۔ ظلمتوں میں بھی ہمیں روشنی کو تلاش کرتے رہنا چاہیے۔‘‘ اور پھر جب مذکورہ صحافی نے یہ پوچھا کہ ’’کیا پاکستان کو اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیے؟ ‘‘تو جواباً جاوید احمد غامدی صاحب نے کہا:’’ میرا ذاتی خیال ہے کہ جب 1948 میں اسرائیل معرضِ وجود میں آیا تھا، اس وقت ہی تمام مسلمان ممالک کواسے تسلیم کر لینا چاہیے تھا۔

جب دُنیا میں اس طرح کی حقیقتیں وجود میں آجاتی ہیں تو ان کے خلاف سر مارنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اگر اُس وقت ہی یہ کر لیا جاتا تو فلسطینیوں سے آج تک جو بہیمانہ سلوک ہُوا ہے، ہم اُسے روک سکتے تھے اور اسرائیل اتنا نہ پھیلتا جتنا آج پھیل چکا ہے۔‘‘

جاوید احمد غامدی نے جو کہا ہے، ہمارے ہاں کئی لوگ اُن سے ناراض ہُوئے ۔اُن کی کہی بات مگر حرفِ آخر اور مطلق نہیں ہے۔یہ ایک فرد کا ذاتی خیال اور دلیل ہے‘ ویسے بھی غامدی صاحب آجکل رہ کہاں رہے ہیں؟ اُن کی بھی کچھ مجبوریاں ہوں گی۔ مگر ان کی یہ بات تب کی ہے جب اسرائیل اور غزہ کے درمیان تازہ خونی تصادم نہیں ہُوا تھا ۔

پچھلے ایک مہینے کے دوران اسرائیل نے غزہ کے مکینوں کے ساتھ جو وحشیانہ اور بہیمانہ سلوک کیا ہے، ممکن ہے اسے دیکھتے اور سنتے ہُوئے جناب جاوید احمد غامدی کچھ اور کہتے ۔ سوال مگر یہ ہے کہ اب جب کہ جنوبی افریقہ سمیت کئی ممالک احتجاجی طور پر اسرائیل سے سفارتی اور تجارتی تعلقات منقطع کر چکے ہیں۔

وہ اسلامی ممالک اسرائیل کے خلاف کوئی بڑا قدم اُٹھانے سے کیوں گریزاں ہیں جو اسرائیل کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھا رہے ہیں ؟ اب سنا جا رہا ہے کہ پرسوں (12نومبر2023 بروز اتوار) او آئی سی کا ایک ایسا اجلاس ہونے جارہا ہے جس میں مظلوم غزہ والوں کی دستگیری کی کوئی راہ نکالی جائے گی ۔ تب تک اسرائیلی صیہونی اژدھا مزید سیکڑوں فلسطینیوں کو ہڑپ کر چکا ہوگا ۔

ہمارے وہ کئی دانشور اور اہلِ قلم جو اسرائیل اور فلسطین تنازعہ کو کسی دوسرے زاویے سے دیکھتے ہیں، اُنہیں چاہیے کہ وہ ’’رائٹر‘‘ کی وہ تازہ ترین مفصل رپورٹ پڑھ لیں جس میں عالمی ادارہ صحت (WHO) یہ انکشاف کررہا ہے کہ(1) رواں لمحات میں ’’غزہ‘‘ میں 25ہزار شدید بیمار اور غریب مریض ادویات کو ترس رہے ہیں ۔

اگر یہ ادویات فوری فراہم نہ کی گئیں تو ممکن ہے سب مریض زندگی کی بازی ہار جائیں (2) اُن مریضوں کی تعداد 8ہزار کے قریب ہے جو گردوں کے امراض میں مبتلا ہیں اور انھیں فوری طور پر ڈائلسس کی ضرورت ہے مگر ڈائلسس کی مشینیں اس لیے بند پڑی ہیں کیونکہ اسرائیل نے ’’غزہ‘‘ کو بجلی اور پٹرول کی فراہمی روک رکھی ہے (3)غزہ میں حاملہ خواتین کی تعداد 50ہزار کے قریب ہے جنہیں فوراً اسرائیل یا مصر کے اسپتالوں میں بھیجنا بے حد ضروری ہے ، مگر اسرائیل اور مصر ، دونوں نے ’’غزہ‘‘ والوں کی آمد پر سخت پابندیاں عائد کررکھی ہیں ۔

اسرائیل کی وحشت اور دہشت کا عالم یہ ہے کہ وہ کسی ملک، عالمی ادارے یا قانون کو ماننے پر تیار نہیں اور نہ ہی ’’غزہ‘‘ والوں پر بمباری روکنے کو راضی ۔ اقوامِ متحدہ ایسا مضبوط و مستحکم عالمی ادارہ بھی ’’غزہ‘‘ والوں پر ظلم ڈھانے سے باز رکھنے کے لیے اسرائیلی وزیر اعظم کے ترلے کررہا ہے مگر اسرائیل کے حکمران ’’غزہ‘‘ کے کمزور اور بے بس مسلمانوں کی خون کی ندیاں بہانے پر بضد ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔