سپریم کورٹ کا ہیومن رائٹس سیل

مزمل سہروردی  جمعـء 10 نومبر 2023
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

چیف جسٹس سپریم کورٹ کو ایک سماعت کے دوران بتایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ میں قائم ہیومن رائٹس سیل سے تین لاکھ 98ہزار درخواستوں کا ریکارڈ ضایع کر دیا گیا ہے۔

میں یہ بات اس لیے واضح طور پر لکھنا چاہتا ہوں کہ کیونکہ یہ تاثر نہ جائے کہ یہ خبر میڈیا میں آئی ہے اور کسی رپورٹر نے ذرائع کا سہارا لے کر دی ہے اور بعد میں اس خبر کے سچ یا جھوٹ ہونے پر بحث شروع ہو جائے۔

اس لیے یہ بات سامنے رکھی جائے کہ یہ بات سپریم کورٹ کے ہیومن رائٹس سیل کے انچارج نے خود محترم چیف جسٹس سپریم کورٹ کو ایک مقدمے کی کھلی سماعت کے دوران بتائی ہے۔ اس لیے اس پر مزید تحقیق کی بظاہر کوئی ضرورت نہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے یہ بھی قرار دیا ہے کہ کوئی چیف جسٹس کسی بھی مقدمے کی اپنے چیمبر میں سماعت نہیں کر سکتا۔ مقدمات اور درخواستوں کی سماعت عدالتی طریقہ کار کے مطابق کھلی عدالت میں ہی ہوسکتی ہے۔

بند کمروں کی سماعتیں غیرقانونی ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ دو چیف جسٹس صاحبان نے بالخصوص افتخار چوہدری اور ثاقب نثار نے تو ہیومن رائٹس سیل سے آنے والی درخواستوں پر بند کمروں میں سماعتوں کی لگائی ہوئی تھی۔ بند کمروں کی سماعتوں کی کہانیاں اب زبان زد عام ہیں، لیکن ان پر کوئی ایکشن نہیں ہے۔

یہ اچھی بات ہے کہ محترم چیف جسٹس صاحب نے خود ہی سماعت کے دوران یہ قرار دیا ہے کہ ہیومن رائٹس سیل کی تشکیل غیر قانونی ہے۔

اس کو ختم کرنے کا اعلان کیا ہے کہ نہیں۔ اس حوالے سے ابہام موجود ہے کیونکہ ابھی تک اس کو ختم کرنے کا کوئی نوٹیفکیشن سامنے نہیں آیا ہے۔اس لیے جب تک کوئی باقاعدہ نوٹیفکیشن سامنے نہ آئے ہم اس سیل کو برقرار ہی سمجھیں گے ۔

بہر حال یہ سیل اب اس طرح فعال نہیں ہے جیسے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں تھا۔ اس کے ذریعے کیسز اور درخواستوں پر ایکشن کی شرح میں کافی حد تک کمی ہو گئی ہے، لیکن یہ تاحال قائم ہے اور کل کلاں کوئی بھی چیف جسٹس بوقت ضرورت اس کو استعمال کر سکتا ہے۔ اس کو استعمال کرنے کا طریقہ کار بہت سادہ اور واضح تھا۔ ہیومن رائٹس سیل میں ایک درخواست آتی ہے اور وہ درخواست چیف جسٹس کے سامنے رکھی جاتی ہے۔

وہ اس پر بند کمرے میں کارروائی شروع کر دیتے ہیں۔ فریقین کو طلب کر لیا جاتا ہے۔ انھیں عدالتی حکم کا ڈردیا جاتا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ جو چاہتے ہیں وہ ہو جائے۔ جس فریق سے جو منوانا ہو وہ منوا لیا جائے۔

یہ بات قابل غور ہے کہ یہ سو موٹو اختیار کا ایک شارٹ کٹ ہی تھا۔ آپ سمجھیں آپ جس کا مسئلہ حل کرنا چاہیں اس کی درخواست ہیومن رائٹس سیل میں منگوا لیں اور پھر ایکشن شروع کر دیں۔

کوئی ایسا قانون بھی نہیں ہے کہ کیس براہ راست سپریم کورٹ میں مقرر کر دیا جائے۔ پھر بند کمرے کی سماعت کا تو ویسے ہی کوئی قانون نہیں۔ لیکن یہ سب شروع کر دیا گیا۔ اور اس کے لیے کسی قانون کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔

یہ اس لیے ممکن ہوا کیونکہ چیف جسٹس کا عہدہ اتنا طاقتور ہو گیا کہ ایک احساس پیدا ہوگیا کہ چیف جسٹس خود ہی قانون ہیں۔ انھیں کسی قانون کے تا بع ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔عدلیہ نے پارلیمان کے بنائے ہوئے قانون کا بھی جائزہ لینا شروع کر دیا۔ آئین کی تشریح کے نام پر آئین میں ترمیم بھی شروع کر دی گئی ہے۔

اس لیے ہیومن رائٹس سیل بناتے وقت کسی قانون کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔ بس چیف جسٹس کے ذہن میں خیال آیا تو بنا لیا گیا۔ اس کی کسی فل کورٹ سے منظوری بھی نہیں لی گئی۔ بس اکیلے چیف جسٹس ہی کافی تھے۔

اب سوال یہ ہے کہ ہیومن رائٹس سیل کی تین لاکھ 98ہزار درخواستوں کو ضایع کیوں اور کیسے کیا گیا؟ کیا یہ ایک غیر قانونی عمل نہیں ہے‘دوسرا سوال یہ ہے کہ ان درخواستوں پر کیا کارروائی ہوئی؟ اس پر کیا فیصلے کیے گئے؟ کس کو بلایا گیا؟ کس کو نوٹس کیا گیا؟ اب ان سوالوں کا جواب کہاں سے اور کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے کیونکہ سارا ریکارڈ ضایع کر دیا گیاہے ۔

جب یہ حقیقت سامنے آگئی ہے کہ لاکھوں درخواستوں کا ریکارڈ ضایع کر دیا گیا ہے تواس معاملے کی انکوائری تو ہونی چاہیے بلکہ میری رائے میں تو اس پر ایف آئی آر درج ہونی چاہیے تاکہ تحقیقات کا دروازہ کھل جائے اگر کسی عام سرکاری افسر نے چاہے وہ کتنا ہی با اثر کیوں نہ ہوتا ایسا کیا ہوتا تو وہ کارروائی سے نہیں بچ سکتا تھا۔ اگر کوئی سیاستدان ہوتا‘ کوئی بااثر سیاسی حکمران ہوتا تو وہ بھی کارروائی سے نہیں بچ سکتا تھا۔ میڈیا میں طوفان آجاتا، لیکن آپ دیکھیں ایسا کچھ نہیں ہوا۔

عدلیہ اور فوج دونوں کا یہی موقف ہے کہ ان کے اپنے اندر احتساب کا ایک مکمل شفاف نظام موجود ہے۔ اس لیے وہ خود ہی اپنے لوگوں کا احتساب کر سکتے ہیں۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے تو لاکھوں درخواستوں کا ریکارڈ ضایع کرنے پر عدلیہ کے اندر کا احتساب کا نظام ضرور حرکت میں آنا چاہیے‘ فی الحال تو خاموشی نظر آ رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔