مضبوط معیشت … مضبوط ملک

ایڈیٹوریل  بدھ 20 دسمبر 2023
فوٹو: فائل

فوٹو: فائل

اسٹیٹ بینک کے مطابق پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں سالانہ بنیاد پر 64فی صد کمی دیکھی گئی، نومبر میں ملکی کرنٹ اکاؤنٹ نوے لاکھ ڈالر سرپلس رہا، دوسری جانب پاکستان کی چین کو برآمدات 72.78 فی صد اضافے سے 1.3ڈالر تک پہنچ گئیں۔ نومبر میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کا حجم 131 ملین ڈالر ریکارڈ کیا گیا ۔

بلاشبہ گزشتہ چند ماہ کے دوران نگراں حکومت اور پاکستان کی عسکری قیادت کی جانب سے ملک کو درپیش معاشی مسائل کے حل کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے انتہائی مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔ آئی ایم ایف سے دوسرے معاہدے کے بعد حالات میں بہتری آئی ہے۔

سعودی عرب، امارات، چین اور قطر نے بھی دل کھول کر پاکستان کی امداد کی ہے، اس پس منظر میں لوگوں کی امیدیں اور توقعات بڑھی ہیں اور وہ نئے حوصلے اور عزم سے سرشار ہیں مگر بے قابو ہوتے مہنگائی کو قابو کرنے میں تاحال مشکلات درپیش ہیں۔

قومی معاشی پلان کا تعلق کسی ایک حکومت سے نہیں بلکہ یہ ایک مسلسل عمل ہے جسے ہر حکومت پروان چڑھانے کی ذمے داری ادا کرے گی۔ فروری میں عام انتخابات ہونے جارہے ہیں، اس بارے میں تمام ابہام دور ہوچکے ہیں، بلاشبہ ایک نئی منتخب جمہوری حکومت ملکی معیشت کی بحالی کے لیے اپنا مثبت کردار زیادہ بہتر طریقے سے اداکرسکے گی۔

یہ بات خوش آیند ہے کہ پاکستان کے لیے بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق رواں سال نومبر میں ملک میں 15کروڑ 60 لاکھ ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری ہوئی۔ملکی نجی شعبے میں 15کروڑ 89 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی ۔

کسی بھی ملک میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری، اس بات کی علامت ہے کہ بیرونی دنیا اس ملک کی معیشت کو سرمایہ کاری کے لیے ایک قابل قدر جگہ سمجھتی ہے اور یہ اس ملک کی معیشت کے لیے ایک مثبت اشارہ ہے۔

براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری، ایسے ممالک کو اسکلز اور ٹیکنالوجی فراہم کرتی ہے، جو مقامی طور پر نہیں جانتے کہ وہ وسائل کو کیسے استعمال کرکے مصنوعات تیار کریں، جو شاید براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری نہ ہونے کی صورت میں یہ مصنوعات تیار کرنے کے قابل نہ ہوتے۔ سرمائے کے استعمال سے حاصل ہونے والے منافع کو انفرااسٹرکچر کی تعمیر، صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم کو بہتر بنانے، پیداواری صلاحیت بہتر بنانے اور صنعتوں کو جدید بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اس بات کو یقینی بنایا جانا ضروری ہے کہ براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری طویل مدت میں سب سے زیادہ لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنائے گی۔

کوئی بھی چیز کلیپٹو کریسی کی طرح عدم استحکام پیدا نہیں کرتی۔کوئی ملک باقی دنیا کو نقد رقم دینے کے لیے کیسے آمادہ کر سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کاروباری ماحول پیدا کرکے براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری کو بڑھا سکتے ہیں، جس سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ گویا ان کا سرمایہ محفوظ ہے۔

کم ٹیکس کی شرح یا دیگر ٹیکس مراعات، نجی املاک کے حقوق کا تحفظ، قرضوں اور فنڈنگ تک رسائی، اور بنیادی ڈھانچہ جو سرمایہ کاری کے ثمرات کو مارکیٹ تک پہنچنے کی اجازت دیتا ہے۔

دوسری جانب رواں مالی سال میں بہتر مالیاتی کھاتوں کے باوجود شرح سود کی زیادہ ادائیگی اخراجات پر کافی دباؤ ڈال سکتی ہے۔

تاہم یہ توقع ہے کہ آمدنی میں مضبوط اضافے کے ذریعے مؤثر مالیاتی انتظام اور محتاط اخراجات کا طریقہ کار ممکنہ چیلنج سے نبرد آزما ہونے اور مثبت رجحان رکھنے میں مدد فراہم کرے گا۔آؤٹ لک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بڑی صنعتوں کی کارکردگی میں بہتری، ہائی فریکوئنسی ڈیٹا میں مثبت رجحانات، درآمدات میں مناسب اضافہ اور پاکستان کی بڑی برآمدی منڈیوں کے کمپوزٹ لیڈنگ انڈیکیٹر (سی ایل آئی) میں بہتری مجموعی اقتصادی سرگرمیوں میں محرک فراہم کر رہی ہے۔

گو اس رپورٹ نے خوراک، مشروبات،رہائش، گیس، ایندھن، پانی، نقل و حمل اور گھریلو سامان کو مسلسل مہنگائی کو اہم محرک قرار دیا، لیکن امید ظاہر کی کہ جلد معاشی بہتر آئے گی، مزید برآں ایندھن کی قیمتوں میں استحکام ،کمی مہنگائی کے دباؤ کو مزید کم کرنے میں مدد کرے گی۔

گزشتہ روز پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں ریکارڈ مندی رہی ہے لیکن پچھلے دنوں یہاں تیزی کا رجحان رہا ہے۔ امید ہے آیندہ آنے والے دنوں میں مارکیٹ میں مزید استحکام آئے گا۔ حکومت کے متعدد مثبت اقدامات کی وجہ سے معیشت میں بہتری دیکھنے میںآرہی ہے ، جس کی وجہ سے ممکنہ طور پر غیر ملکی سرمایے کو راغب کرنے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔

حکومت پاکستان اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے درمیان بھی اچھے تعلقات ہیں اور آئی ایم ایف حکام مطمئن بھی ہیں ، اسی وجہ سے معاشی سرگرمیوں میں بہتری نظر آرہی ہے ۔

تاہم ایسے میں یہ سوال بھی اْٹھایا جا رہا ہے کہ اس معاشی بہتری کا عام آدمی کی زندگی پر کیا اثر پڑے گا اور اس کے ثمرات عام آدمی تک کب پہنچیں گے؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے ملک کے ڈیفالٹ کے خطرات میں کمی اور معاشی بحالی کے اثرات نظرآنے لگے ہیں، تاہم کچھ معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ غیرملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کی معیشت میں بہتر کی متعدد ٹھوس وجوہات موجود ہیں۔ روپے کی قدر میں استحکام آرہا ہے، روپے کی کارکردگی اچھی نظر آرہی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلسل دو ماہ سے شرح سود میں کمی نے معیشت میں کچھ نہ کچھ بہتری کے آثار نمایاں کر دیے ہیں، تیل اور گیس سیکٹر میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے ،گیس کی قیمتوں میں اضافے کر کے کمپنیوں کے منافع کو بڑھایا گیا ہے۔ معیشت میں بہتری کا رحجان دیکھا گیا ہے۔

سرمایہ کار اس حوالے سے کافی عرصے سے غیر یقینی کا شکار تھے جو اب مثبت سوچ رہے ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ گیس کے شعبے میں چار سو ارب روپے کے گردشی قرضے کو کسی حد تک کم کیا جائے گا۔

ایک جانب تجزیہ کاروں کو امید ہے کہ معیشت میں بہتری کی اب بھی کافی گنجائش موجود ہے کیوں کہ سرمایہ کاری میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے تاہم معیشت میں بہتری اپنی جگہ مگر ملک کے معاشی ڈھانچے میں موجود مسائل کو حل کرنے تک کسی ایسی بہتری کی توقع نہیں کی جا سکتی جو ملک کو بحران سے نکال سکے۔

چینی اور آٹے کی قیمتیں اوپن مارکیٹ میںنیچے آئی ہیں۔ دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بھی توازن پیدا ہورہا ہے لیکن بجلی اور گیس کے بل عوام کی برداشت سے باہر ہیں۔ بجلی بحران کے سلسلے میں ہماری بنیادی خرابی یہ ہے کہ ہم نے اس کا عارضی حل اپنا رکھا ہے ۔

گردشی قرضوں کی ادائیگی ملکی خزانے کے لیے بہت بڑا بوجھ ہے۔بجلی بلوں پر کوئی نصف درجن کے قریب ٹیکس عائد کیے جاتے ہیں جن کی وجہ سے بجلی کی اصل قیمت سے عوام کو ڈیڑھ دو گنا زیادہ بل ادا کرنا پڑتا ہے۔

کوئی حکومتی ذمے دار نہیں دیکھتا کہ بل دینے والا یتیم ہے، معذور ہے، بیوہ ہے، نادار و لاچار ہے یا سرمایہ دار۔ جو بل فارمولا سرمایہ دار کے لیے ہے اور وہی غریب صارف کے لیے بھی۔ بجلی بلوں کی مد میں بہت بھاری ٹیکس وصول کرنے کے باوجود بھی حکومت کا رونا ہے کہ ملک میں ٹیکس دینے کا رحجان نہیں جب کہ بازار میں فروخت ہونے والی ہر چیز پر سیلز ٹیکس نافذ ہے اور 25کروڑ عوام اس بوجھ کو برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔

معیشت کسی بھی ملک کی عالمی رینکنگ کو ظاہر کرتی ہے‘ اگر کوئی ملک معاشی طور پر مضبوط ہے تو اس کی عالمی رینکنگ بھی زیادہ ہو گی اور وہ انٹرنیشنل جیوپولٹیکل اور جیو اکنامک ارینج منٹس کا اسٹیک ہولڈر ہوتا ہے۔جرمنی اور جاپان کی مثال سب کے سامنے ہے ‘ یہ دونوں ملک عالمی عسکری طاقت نہیں ہیں لیکن ہر عالمی تنازع میں ان کی مشاورت لازمی لی جاتی ہے۔

عالمی صف بندی میں ان کا اہم رول ہے‘ عالمی مالیاتی اداروں میں بھی یہ بڑے اسٹیک ہولڈرز سمجھے جاتے ہیں‘ سعودی عرب کی مثال بھی ایسی ہی ہے‘سعودی عرب مشرق وسطیٰ کی اہم ترین قوت ہے ‘ مشرق وسطیٰ میں جو بھی تنازعات موجود ہیں۔

عالمی طاقتیں ان تنازعات کے حوالے سے جو حل یا فارمولا پیش کرتی ہیں‘ سعودی عرب کی مشاورت کے بغیر کوئی حل پیش نہیں کیا جا سکتا‘ اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ یہ ممالک اقتصادی طور پر مضبوط ہیں‘ یہ عالمی مالیاتی سسٹم میں وزن رکھتے ہیں ‘اس لیے امریکا ہو یا روس یا چین ‘یا ہندوستان ‘ ان سب کو مالی معاملات میں سعودی عرب کی ضرورت رہتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔