شبانہ اعظمی اور ان کا خاندان (دوسرا حصہ)

رئیس فاطمہ  جمعـء 22 دسمبر 2023
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

شبانہ کو ان کی پہلی ہی فلم پر نیشنل ایوارڈ ملا، ہوا کچھ یوں کہ سب سے پہلے خواجہ احمد عباس نے اپنی فلم ’’ فاصلے‘‘ کے لیے شبانہ کو سائن کیا لیکن یہ فلم بعد میں ریلیز ہوئی اور شیام بینگل جیسے بڑے اور نامور پروڈیوسر، ڈائریکٹر کی فلم ’’انکر‘‘ پہلے ریلیز ہوئی اور پھر یہی شبانہ کی پہلی فلم قرار پائی۔

پھر تو شبانہ کے لیے فلم کے دروازے کھل گئے، مجھے اور میرے شریک حیات اختر جوناگڑھی انڈین آرٹ فلمیں نہایت شوق سے دیکھتے تھے، اب بھی یہ شوق تو برقرار ہے لیکن اکیلے فلم دیکھنے میں اب وہ مزہ وہ رچاؤ اور خوبصورت ماحول نہیں رہا، انڈیا میں ہر سنیچرکو ایک آرٹ مووی ریلیز ہوتی تھی، جسے اختر موویز کی شاپ والے سے کرائے پر لاتے تھے۔ اسے ہمارے ٹیسٹ کا پتا تھا، اس لیے آرٹ مووی کے آتے ہی وہ ہمیں فون کر دیتا تھا۔

ہم نے لاتعداد اور بے شمار آرٹ موویز دیکھی ہیں خاص کر شبانہ اعظمی، سمیتا پاٹل، نصیرالدین شاہ، دپتی نول، سریش اوبرائے، سیریا پھاٹک اور بہت سے دوسرے اداکار جن کے نام اس وقت مجھے یاد نہیں آ رہے، پر ذکر شبانہ اعظمی کا ہو رہا تھا تو ذکر بھی انھی کی فلموں کا ہوگا۔

ہم نے 2004 تک ہر فلم دیکھی جیسے ’’معصوم، انکر، یار، لوری، اوتار، جلیانوالہ باغ، پرورش، وشواش گھات، جنون، اپنے پرائے، یہ نزدیکیاں، ایک ہی بھول، شانتی، نمکین، پیاسی آنکھیں، کملا، مرتیو ڈنڈ، البرٹ پنٹو کو غصہ کیوں نہیں آتا، گاڈ مدر، ایک پل، فیکٹری ، میں آزاد ہوں، فتح، دیوتا، تھوڑی سی بے وفائی، منڈی، پسٹن جی، خاموش، نیرجا، امردیپ، نشانت، جوالا مکھی، سوامی، ہم پانچ، اسپرش، سراغ، لوگ کیا کہیں گے، مڈنائٹ چلڈرن یہ فلم بہت مقبول ہوئی تھی۔

’’ شطرنج کے کھلاڑی‘‘ بھی زبردست مووی تھی۔ کمرشل فلموں میں بھی شبانہ نے ایسا کام کیا کہ ناظرین حیرت زدہ رہ گئے۔ انھوں نے کبھی بہت زیادہ جیولری، ہیوی میک اپ اور چمک دار کپڑوں کا سہارا نہیں لیا، کمرشل فلموں میں ان کی فلم ’’ارتھ‘‘ بہت کامیاب ہوئی جس میں سمیتا پاٹل بھی تھیں، یہ فلم مہیش بھٹ کی تھی اور پروین بابی کے مرنے کے بعد انھوں نے بتایا کہ سمیتا پاٹل کا کردار اصل زندگی میں پروین بابی کا تھا، جن کے ساتھ مہیش بھٹ نے کافی وقت گزارا تھا، لیکن بعد میں مرنے کے لیے اکیلا چھوڑ دیا۔

’’ارتھ‘‘ کے علاوہ ’’بھاؤنا‘‘ بھی ایک اعلیٰ درجے کی فلم تھی۔ ’’امر، اکبر، انتھونی‘‘ نے بھی بہت اچھا بزنس کیا۔ ارتھ اور بھاؤنا آرٹ موویز پسند کرنے والوں کو بھی بہت پسند آئی تھیں، خاص کر ان دونوں فلموں میں شبانہ کا کردار لاجواب تھا، ان فلموں کے علاوہ شبانہ کی اور فلمیں بھی ہیں جیسے ’’ ہیرا اور پتھر، کرم، کھیل کھلاڑی، خون کی پکار، ٹوٹے کھلونے، بگلا بھگت، اپنے پرائے، سورگ، ایک ہی بھول، کامیاب، مردوں والی بات، تہذیب، مقدر کا بادشاہ، سورگ نرک، فاصلہ، فقیرا، جوالا مکھی وغیرہ وغیرہ۔ شبانہ نے سو سے زائد فلموں میں کام کیا وہ اب بھی مخصوص کردار نبھا رہی ہیں۔

شبانہ کی فلمیں موضوعات کے لحاظ سے ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں، مثلاً ’’بھاؤنا‘‘ اور ’’امر، اکبر، انتھونی‘‘ کے کردار۔ شبانہ نے ماں اور باپ دونوں سے بہت کچھ لیا، لیکن ان کی اپنی شخصیت بڑی بھاری بھرکم اور جاندار ہے۔ شبانہ کی کوئی بھی فلم دیکھیے آپ کو لگے گا کہ وہ اسی کردار کے لیے پیدا ہوئی ہیں جو وہ بڑے اسکرین پر کر رہی ہیں۔

ان کی آرٹ مووی ’’پار‘‘ کو دیکھیے جس میں وہ نصیرالدین شاہ کے ساتھ سوروں کو دریا پار کراتی ہیں یا پھر ’’منڈی‘‘ میں نائیکہ کا کردار، گاڈ مدر میں، ڈان کا کردار، معصوم میں سوتیلی ماں کا کردار، تھوڑی سی بے وفائی میں ایک محبت میں ناکام عورت کا کردار۔ اور اس کا یہ لافانی گیت جسے راجیش کھنہ اور شبانہ پر فلمایا گیا:

ہزار راہیں مڑکے دیکھیں،کہیں سے کوئی صدا نہ آئی

بڑی وفا سے نبھائی تم نے ہماری تھوڑی سی بے وفائی

شبانہ کی زندگی میں تین مرد آئے، سب سے پہلے بنجمن گیلانی سے ان کی منگنی ہوئی، لیکن جلد ہی ٹوٹ گئی، پھر شبانہ کی زندگی میں آئے نامور پروڈیوسر اور ہدایت کار شیکھر کپور، جنھوں نے فلم ’’ پھولن دیوی‘‘ بنائی تھی۔ ان کے ساتھ شبانہ کا تعلق سات سال تک رہا، پھر یہ الگ ہوگئے اور پھر ان کی زندگی میں آئے جاوید اختر، جنھوں نے شبانہ کی خاطر اپنی پہلی بیوی ہنی ایرانی کو طلاق دے دی جن سے ان کے دو بچے بھی ہیں، جو فلمی دنیا میں اپنے آرٹ اور منفرد کام کی وجہ سے مشہور ہیں۔

جاوید اختر سے شبانہ نے 9 دسمبر 1984 میں نکاح کیا، یہ ساتھ مبارک ثابت ہوا۔ آج بھی دونوں ایک ساتھ ہیں اور اپنے کام سے ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔ شبانہ کی کوئی اولاد نہیں ہے لیکن وہ جاوید اختر اور ہنی ایرانی کے دونوں بچوں فرحان اختر اور زویا اختر کے ساتھ خوش ہیں، ان کے تعلقات ہنی ایرانی اور ان کے بچوں سے بہت خوشگوار ہیں۔

شبانہ کے شوہر جاوید اختر ایک مقبول شاعر ہیں، خاص کر ان کے بولنے کا انداز بہت اچھا ہے، سامعین ان کی گفتگو میں کھو کر رہ جاتے ہیں۔ وہ 17 جنوری 1945 کو پیدا ہوئے، ان کی والدہ کا نام صفیہ اختر تھا وہ بھی ادیبہ تھیں۔

جاوید کے والد جاں نثار اختر ایک مقبول شاعر تھے چونکہ وہ کمیونسٹ پارٹی کے ممبر تھے اس لیے اکثر انھیں انڈر گراؤنڈ رہنا پڑتا تھا، صفیہ اکیلے بچوں کو پالتی تھیں، وہ ایک انتہائی وفا شعار بیوی تھیں، وہ روزانہ جاں نثار اختر کو خطوط لکھتی تھیں، جاں نثار اختر نے وہ سبھی خطوط سنبھال کر رکھے اور بعد میں وہ کتابی شکل میں شایع بھی ہوئے۔

ان کا پہلا مجموعہ ’’ زیر لب‘‘ کے نام سے بازار میں موجود ہے وہ لکھنو کے ایک گرلز کالج میں لیکچرر تھیں۔ جاوید اختر کا ایک چھوٹا بھائی بھی تھا جس کا نام سلیمان تھا۔ ایک بار جاں نثار اختر نے ایک مصرعہ کہا:

لمحہ لمحہ کسی جادو کا فسانہ ہوگا

کہنے لگے بس بیٹے کا نام جادو ہوگا اس دن سے جاوید جادو کہلانے لگے۔ آٹھ سال کی عمر میں والدہ کا انتقال ہو گیا۔ دونوں بچوں کو خالہ کے پاس بھجوا دیا۔ پھر جب اسکول میں داخلے کا وقت آیا تو لوگوں نے کہا کہ ’’جادو‘‘ نام صحیح نہیں ہے اسکول میں لوگ مذاق اڑائیں گے، لہٰذا جادو کو جاوید سے بدل دیا گیا۔ 1960 کی دہائی میں یہ بمبئی پہنچے تو ان کی جیب میں صرف چند روپے تھے۔

کمالستان اسٹوڈیو میں ایک کمرہ انھیں مل گیا، ایک دن انھوں نے کمرے کی الماری کھول کر دیکھا تو وہاں بہت سے ایوارڈ رکھے تھے، جاوید صاحب نے ایک ایوارڈ اٹھایا اور بولے ’’ایک دن میں بھی یہ ایوارڈ حاصل کروں گا۔‘‘ جاوید صاحب کتابیں پڑھنے کے بہت شوقین تھے۔

ریلوے اسٹیشن کے پاس ایک پرانی کتابیں بیچنے والے سے جاوید صاحب کی دوستی ہوگئی، وہ وہاں سے پرانی کتابیں لے آتے اور پڑھ کر واپس کر دیتے، ان کی مالی حالت نہایت خستہ تھی انھیں اپنا بچپن اور ماں بہت یاد آتی تھیں جن بچوں کی مائیں 6 سال اور آٹھ سال کی عمر میں جدا ہو جائیں باپ کمیونسٹ پارٹی کے ممبر ہونے کی وجہ سے اکثر انڈر گراؤنڈ رہتے تھے، رشتے داروں نے ان دونوں بھائیوں کی پرورش کی اور قسمت نے انھیں بمبئی پہنچا دیا ۔ (جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔