تکلیف دہ سچ

شہلا اعجاز  اتوار 14 جنوری 2024

ایک اور برس بیت گیا دنیا 2024 کے دروازے میں داخل ہوگئی، پچھلا برس دکھوں، تکالیف اور اذیتوں کے گمبھیر جذبات سے گھلا ملا تھا۔

دنیا بھر میں یہ کیا ہو رہا تھا اور کیا ہورہا ہے۔ پہلے کشمیر پر غاصبانہ قبضے کی چال ہی کیا کم تھی کہ فلسطین کے سلگتے وجود پر آتشیں گولے برسنے لگے، یوکرین کی آگ ابھی جاری تھی کہ دنیا نے ایک اور بڑی آگ کو بھڑکتے دیکھا۔ بائیس، تیئس ہزار افراد جن میں بچوں کی تعداد زیادہ ہے اس بھڑکتی آگ کا شکار ہوگئے۔

دنیا بھر میں احتجاج اور مظاہرے جاری ہیں یہاں تک کہ اسرائیل میں بھی نیتن یاہو کے خلاف جذبے بھڑک اٹھے ہیں اور امریکا میں مزید آگ کے سامان کو اسرائیل کے ہاتھ بیچنے کے معاملات طے پاچکے ہیں۔ ہم کیسی دنیا میں بس رہے ہیں۔

جہاں نسل کشی کو مزید فروغ دینے کے لیے معاملات طے پا رہے ہیں کہ لو خریدو ہم سے شیطانی ہتھیار اور بجھا دو اپنے سینوں کی بھڑکتی آگ کو جو شاید کبھی بھی سرد نہ ہوگی، اس لیے کہ یہ آگ انتقام، جوش اور جدوجہد کی نہیں، ڈپریشن، خوف اور مایوسی کی ہے جو انھیں مستقل بے چین ہی رکھے گی۔ یہ محض ایک بددعا ہی نہیں بلکہ پیش گوئی بھی ہے جو قیامت تک ان کے ساتھ رہے گی اور یہ لوح میں محفوظ ہے۔

دنیا بھر میں مہنگائی کی شرح بلند دیکھی گئی اور یہی حال پاکستان کا بھی رہا۔ مہنگائی کی ہلچل کے ساتھ ہی الیکشن کی صدائیں اور لہریں ابھریں بہت سے درد پھر سے جاگے اور دماغ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ پہلے ترقی کی سیڑھیاں چڑھتا سست کیسے پڑگیا اور پھر۔۔۔۔

تاریخ کے جھروکے کھل بند ہونے لگے ،کئی تلخ حقیقتیں سر اٹھانے لگیں، سچ سے پیچھا چھڑانا مشکل ہے لیکن اس سے سیکھا تو جا سکتا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ہمیشہ اچھا نہیں ہوتا لیکن ہمیشہ برا بھی نہیں ہوتا۔

مشرقی پاکستان لکھتے عجیب سی اپنائیت کا احساس ہوتا ہے جیسے ایک ماں کا کھویا ہوا وہ مظلوم بچہ جسے ماں ظالم دنیا کے سامنے چاہ کر بھی اپنا نہیں کہہ سکتی، پر یہی سچ ہے کہ وہ اسی ماں کا بیٹا ہے، ہرا بھرا،کماؤ پوت جس کی دھرتی سے پاکستان بناؤ کی تحریک بلند ہوئی تھی اور پھر اس قدر شدید ہوئی کہ بن کر ہی رہی۔ یہ کیسا عجیب احساس ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی آنسو رواں ہیں، یہ چاہت ہے، اپنائیت ہے اور حقیقت ہے۔

کچھ عرصہ قبل سقوط مشرقی پاکستان پر ہونے والے مظالم کے بارے میں پڑھا تھا۔ مکتی باہنی کی کارروائیاں دل دہلانے والی تھیں، پاکستان کو جوڑ کے رکھنے والے بنگالیوں کو بھی نہ بخشا گیا تھا۔ یہ سب کچھ بہت تکلیف دہ تھا، وہ جو ہمارے جیسے مسلمان ہی تھے لیکن ہمارے درمیان بہت کچھ مختلف تھا، زبان، کھانے اور کچھ رسم و روایات لیکن وہ ہم ہی تو تھے۔

آج بھی پاکستان کے صوبوں تو کیا ایک شہر کراچی کی ہی بات کریں تو ہم نے مادی طبقاتی بنیادوں پر شہر کو تقسیم نہیں کیا ہوا کیونکہ یہاں مختلف علاقوں میں امیر، غریب اور بہت امیر اور بہت غریب رہتے ہیں۔

آج ہم کہتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے میں بھارت کی سازشیں شامل تھیں ،آخر ہم نے ان سازشوں کو کیسے کامیاب ہونے دیا، ان ذہنوں میں لاوا کیسے پکنے چھوڑ دیا، کیوں بھول گئے کہ لاوا جب پھٹتا ہے بڑی زور کا دھماکا ہوتا ہے لیکن عصبیت کی آگ اتنی بلند تھی کہ ہمیں کچھ نظر ہی نہ آیا سوائے اپنی اونچی غرور سے تنی گردن کے، اور آج اس غرور کا کیا انجام ہوا۔

کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے دونوں حصوں کے درمیان سولہ سو کلومیٹر کا فاصلہ تھا اور ان کے درمیان واحد رشتہ اسلام کا تھا۔ کیا یہ رشتہ اسی قدرکمزور تھا ہم نے 80 کی دہائی میں اسی رشتے کے ناتے افغانستان کے شہریوں کو اپنے ملک میں پناہ دی تھی۔

ان چالیس اکتالیس سالوں میں پاکستان نے اور پاکستانیوں نے کیا پایا اور کیا کھویا۔ افغانستان پاکستان کا دوسرا حصہ ہرگز نہ تھا اس پر پاکستان کا جھنڈا نہیں لہراتا تھا لیکن اس وقت بانہیں کھول کر انھیں سہارا دیا گیا، اپنایا گیا، کیا اس اپنائیت کے حق دار وہ نہیں تھے کہ جن کی دھرتی پر پاکستان کا جھنڈا لہراتا تھا۔

بنگال کے جادو کی سحر انگیزیاں تو سولہویں، سترہویں صدی میں ہی مغرب کے باسیوں کے لیے کشش رکھتی تھیں اور ایسا ہی تھا، اس خطے سے پٹ سن کے سونے سے مغربی پاکستان کے طاقتور طبقے نے بھر بھر کے کمایا اور اس قدر دولت و ثروت کمائی کہ ایک عام سا تاجر، نواب بن گیا، قدرت کی جانب سے کچھ فیصلے طے ہوتے ہیں اس کے آگے اگر، مگر کی گنجائش نہیں ہوتی لیکن حق کے آگے ڈٹ جانا، سچ کے لیے بولنا ہی دراصل اس اگر، مگر کے اردگرد تیرتی ہیں انسان کی نیکی ثواب اور گناہ کے درمیان یہی حائل ہیں۔

برصغیر کی سرزمین زرخیز تھی اور ایک دنیا کے لیے ایک پراسرارکہانی کی طرح تھی، جہاں درختوں پر سونے کے پھل اگتے تھے، فصلیں سونا اگلتی تھیں۔

زمینوں کے سینے میں قیمتی جواہرات مدفن تھے اور ایسا ہی تھا لیکن اسی قدرت ذخائر سے فیض یاب ہوکر مغربی دامن میں بھی ترقی کے پھول کھلتے تھے ادھر بنگال کے کارخانے سرد ہونے لگے تھے تو ادھر انگلستان میں صنعتی ترقی انگڑائی لے کر اٹھی تھی، یہ ایک طویل بحث ہے لیکن اگر مگر سے بچتے کیا ہم اپنا دامن، آہوں، سسکیوں، زیادتیوں، ناانصافیوں اور مظلوموں کے خون سے بچا پائے تھے۔

آج بھی ہمارے اندر کا خوفزدہ، متاثر شدہ، ڈرا سہما ظرف اسی طرح ہمک رہا ہے جیسے کبھی خوب صورت ماضی کے دھندلکوں میں ہری بھری دیواروں میں پانیوں کی ندیوں میں، پٹ سن کے حسن میں ڈوب کر بھی اس کے عشق سے یوں فرار حاصل کر لی جیسے وہ کوئی بھیانک خواب تھا۔

اس قدر عجلت، اتنی بے پروائی، اس قدر بے وفائی تو کوئی اپنے دوست سے ہاتھ چھڑانے کے فیصلے میں بھی نہیں کرتا، جیسا ہم نے اپنے بھائی اپنے آپ کے ساتھ کیا۔ یہ آنکھ اب بھی کیوں نم ہے اے دوست !

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔