سات روپے کی بات

شیریں حیدر  اتوار 14 جنوری 2024
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’چار سو ترانوے روپے!!‘‘ اس نے بل بتایا تھا، میںنے پانچ سو اسے دیے اور اس سے بل اور بقایا مانگا۔ ’’سوری میم، سات روپے کا چھٹا نہیں ہے۔‘‘

اس نے جوابا کہا تھا، بل اس نے مجھے دے دیا تھا ’اگر آپ کے پاس سات روپے کا چھٹا نہیں ہے تو آپ نے اس طرح کی قیمتیں کیوں رکھی ہیں؟‘‘ ’’اصل میں جب ایسی کوئی رقم بنتی ہے تو ہم اسے راؤنڈ اپ کر دیتے ہیں۔‘‘ ’’راؤنڈ اپ کرنا ہو تو پھر آپ مجھے چار سو نوے روپے کاٹ کردس روپے بقایا دیں۔‘‘

’’ایسا نہیں کر سکتا میں کیونکہ ہمارا کمپیوٹر کا سسٹم اس کو ایڈجسٹ نہیں کر پاتا‘‘ ’’آپ کے ہاں دن میں اگر پانچ سو گاہک آتا ہو اور آپ کسی سے تین، کسی سے پانچ اور کسی سے سات یا نو روپے اضافی لیتے ہوں گے، چلیں ہم پانچ روپے اوسطا لگا لیتے ہیں کہ آپ ہر گاہک سے زیادہ لے لیتے ہوں گے؟‘‘ ’’تقریبا!‘‘ اس نے کہا۔ ’’اس اضافی پچیس سو کو جو کہ میں نے کم از کم کہا ہے۔

آپ کا کمپیوٹر کس طرح ایڈجسٹ کرتا ہو گا؟‘‘ ’’صرف سات روپے کے لیے آپ اتنی بحث کر رہی ہیں میم!‘‘ اس کے پاس میرے اس سوا ل کا جواب نہیں تھا۔ ’’بات سات روپے کی نہیں ہے۔

بات اصول کی ہے-‘‘ میںنے غصے سے کہا، ’’مجھے آپ نے سات روپے کم دیے ہیں تو مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا مگر آپ ہر کسی سے کچھ نہ کچھ رقم اسی طرح بٹور لیتے ہیں، مجھے اس سے فرق پڑتا ہے، ہم سب کو اس سے فرق پڑتا ہے۔‘‘ ’’کوئی اتنی جرح ہم سے نہیں کرتا، آپ کی طرح۔‘‘ اس نے بد تمیزی سے اپنا دراز کھولا اور دس روپے کا ایک نوٹ میری طرف بڑھایا۔ ’’لیں، آپ یہ دس روپے لے لیں، تین روپے فالتو لے لیں۔‘‘

’’میں آپ سے تین روپے کیوں فالتو لوں؟‘‘ میں نے اپنا غصہ بڑے مشکل سے ضبط کیا تھا، ’’یہ لو آپ اپنے تین روپے۔‘‘ میںنے اپنے بیگ کی اندرونی جیب سے چھٹا نکال کر اسے تین روپے دیے، یہ میں اسی نوعیت کے حالات کے لیے رکھتی ہوں اور ہر کسی سے ایسی صورت حال میں ضرور بحث کرتی ہوں-

آپ سب نے اکثر دیکھا ہو گا یا زیادہ تر لوگوں کی طرح نظر انداز ہی کیا ہو گا کہ ہر دکان پر آپ کو جو بھی بل بنتا ہے، دکاندار اس پر آپ سے چند روپے اضافی لے لیتا ہے کہ اس کے پاس چھٹا نہیں ہوتا۔ عام دکاندار، جس سے آپ سبزی، پھل یا گوشت لیتے ہیں۔

وہاں تو اگر آپ کا بل چھ سو بیس روپے بنے، بارہ سو چونتیس، یا چار ہزار ساٹھ روپے… وہ آپ سے رقم اس طرح راؤنڈ اپ کرتا ہے کہ وہ چھ سو، بارہ سو یا چار ہزار ہی لے گا کیونکہ اس کے پاس غالبا اتنی رعایت کرنے کی گنجائش ہوتی ہے مگر یہ بد دیانتی اور دھاندلی وہاں ہو رہی ہے جو برانڈڈ دکانیں ہیں۔۔

جن کی درجنوں یا سیکڑوں برانچیں ہیں اور ان کے ہاں ہر نظام کمپیوٹر پر ہے، چونکہ کئی سو یا کئی ہزار کا بل ادا کرنے والا، عموماً بل کو غور سے دیکھتا ہی نہیں، بسا اوقات بل مانگتا ہی نہیںاور اگر مانگ بھی لے تو لپیٹ کر جیب یا بیگ میں رکھ لیتا ہے۔۔

اس کے پاس وقت نہیں ہوتا کہ وہ اس بل کے معمولی سے بقایا کے لیے دکاندار سے بحث کرے، یہ ہمارا چھوٹا سا حق ہے جس کے لیے لڑتے ہوئے ہمیں شرم محسوس ہوتی ہے کہ یار کیا پانچ سات روپے کے لیے لڑائی ڈال کر بیٹھ جائیں مگر آپ اندازہ کریں کہ اس پانچ پانچ اور سات سات روپے سے ملا کر وہ ایک دن میں کتنا فالتو بنا رہا ہے اور وہ اس کے سسٹم میں آ بھی نہیں رہا ہوتا، کئی کریانے کی دکانیں، حتی کہ ٹال پلازہ پر بھی آپ کے بقایا روپے نہ ہونے کی صورت میںآپ کو ایک یا دو ٹافیاں دے دی جاتی ہیں، جسے عرف عام میں ’’گولیاں دینا‘‘ کہتے ہیں۔

میرے ساتھ ایک دفعہ ایسا ہی ہوا کہ گجرات سے آتے ہوئے، جہلم ٹال پلازہ پر میں نے پچاس روپے دیے اور اس نے بقایا میں مجھے دو ٹافیاں دے دیں، میں نے اس سے پوچھا تو اس نے کہا کہ اس کے پاس چھٹا نہیں ہے۔ پیچھے گاڑیوں کی لمبی قطار بن گئی تو میں نے بحث نہیں کی اور گاڑی چلا دی۔

اگلے ٹال پلازہ پر میں نے دس روپے کا ایک نوٹ اور اس کے ساتھ وہی دو ٹافیاں پکڑائیں۔ اس نے کہا کہ میں اسے تیس روپے دوں مگر میں نے اس سے کہا کہ پچھلے ٹال پلازہ پر وہ ٹافیاں مجھے بیس روپے کے عوض ملی تھیں، میں تو ٹافیاں نہیں کھاتی اور نہ ہی میں نے اسے گندم دی تھی کہ جواب میں وہ ٹافیاں دیتا، وہ رقم لینے پر مصر رہا اور میں اسے ٹافیاں دینے پر۔

’’پیچھے بہت سی گاڑیاں جمع ہو گئی ہیں، پلیز آپ کے پاس اگر تیس روپے نہیں ہیں تو سو یا پچاس ہی دے دیں، میں بقایا دے دیتا ہوں۔‘‘ اس نے کہا۔ گاڑیاں مسلسل ہارن بجانا شروع ہو گئی تھیں۔

’’میرے پاس صرف یہی دس روپے اور بیس روپے کی دو ٹافیاں ہیں، آپ کو یہی لینا ہو ں گی ورنہ میں یہی کھڑی رہوں گی، آپ گاڑیوں کو دوسری لین سے نکال دیں اور اپنے کسی انچارج کو بلائیں۔‘‘ میں نے گاڑی کا انجن بند کر دیا، اس نے بھی سوچا ہو گا کہ اکیلی عورت ہے، جلدی سے جان چھڑانا چاہے گی۔

’’دیکھیں پلیز، اس وقت…‘‘ ’’بیٹا اپنے انچارج کو بلاؤ ورنہ میں نے کال کر کے کسی کو بلا لیا تو تمہارے ساتھ مسئلہ ہو جائے گا۔‘‘ میںنے اسے اٹل لہجے میں کہا۔ ’’چلیں لائیں آپ دے دیں مجھے یہی ٹافیاں۔‘‘ اس نے ہتھیار پھینکے۔ ’’نہیں اب میں تمہیں ٹافیاں بھی نہیں دینی ہیں جب تک کہ تمہارا کوئی انچارج نہیں آئے گا۔‘‘ میںنے اسے بتایا۔’’کیا مسئلہ ہے یار؟‘‘ دوسری طرف سے کوئی اور نکل کر آیا تھا جو غالبا اس سے سینئر تھا۔ ’’سر یہ بی بی ضد لگا کر بیٹھی ہوئی ہیں۔‘‘

وہ اسے بتانے لگا۔’’ ذرا تمیز سے بات کریں بیٹا!‘‘ میں نے اسے گھرکا۔ ’’سوری‘‘ وہ کھسیانا ہوا، اسے اندازہ ہو گیا تھاکہ اس کا پالا کس سے پڑ گیا تھا۔ ’’کیا بات ہے میڈم؟‘‘ آنے والے نے پوچھا۔ ’’آپ کیا یہاں کے انچارج ہیں؟‘‘ میںنے سوال کیا۔ ’’نہیں،میں انچارج نہیں ہوں۔‘‘

’’اپنے انچارج صاحب کو بلائیں، مجھے صرف ان سے بات کرنا ہے۔‘‘ میں نے صرف اتنا کہا۔

’’جی میں بلاتا ہوں۔‘‘ وہ جا کر اپنے انچارج کو بلا کر لایا۔ انچارج شکل سے معقول ہی لگ رہا تھا، میںنے اس سے ساری بات کی اور اس سے کہا کہ یا تو یہ ’’گولیاں دینے‘‘ کا سلسلہ بند کیا جائے اور اگر دی جا رہی ہیں تو ’’گولیاں لینے‘‘ کی آپشن بھی رکھیں۔

’’یہ سلسلہ بندہونا چاہیے، میرے کم از کم پچیس منٹ ضایع ہو چکے ہیں لیکن میں نے یہ وقت اس لیے ضایع کیا ہے کہ آیندہ میرا یا کسی اور کا وقت بھی ضایع نہ ہو۔‘‘ اس نے جواباً معذرت کی اور کہا کہ وہ اس سلسلے میں چیک کرے گا۔ میںنے اسے دس روپے اور دو ٹافیاں پکڑائیں، اس نے خاموشی سے لے لیں اور میں چل دی۔

چھوٹی چھوٹی باتوں میں ہم غلطیوں کو چیک کرنا بہت چھوٹی بات سمجھتے ہیں، اسی لیے ہمارے حقوق پر سات روپے سے لے کر سات ارب کا ڈاکا بھی پڑا جاتا ہے اور ہم تب بھی خاموش رہتے ہیں کیونکہ اس وقت ہم کچھ کر ہی نہیں سکتے۔

پنجابی کا ایک محاورہ ہے، ’’لکھ دی ہووے یا ککھ دی، چوری چوری اے‘‘ (لاکھوں کی ہوں یا ایک خاک کے ایک ذرے کی، چوری چوری ہی ہوتی ہے) اپنے حقوق کے لیے جہاں بھی آواز اٹھانے کا موقع ملے، ضرور اٹھائیں ورنہ آپ ہمیشہ پستے ہی رہیں گے-

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔