منٹو!

راؤ منظر حیات  پير 5 فروری 2024
raomanzarhayat@gmail.com

[email protected]

بے ترتیبی سے مطالعہ کرتے ہوئے‘ ٹیبل پر رکھی ہوئی ایک ضخیم کتاب پر دوبارہ نظر دوڑانے لگا۔ یہ سعادت حسن منٹو کی تقریباً ایک صدی قبل لکھی گئی کہانیوں ‘ خاکوں ‘ افسانوں اور دیگر تحریروں کا مجموعہ تھی۔ ’’کلیات منٹو3‘‘۔

عادت بن چکی ہے کہ جو مرضی ہو جائے‘ جتنی بھی مصروفیت ہوں‘ کتاب کو اپنے سے دور نہیں ہونے دیتا۔ ویسے کتابوں کی آن لائن خریداری سے معاملہ اتنا آسان ہو گیا ہے ،اب بازار جاکر کوئی بھی کتاب خریدنے کا رواج تقریباً ختم ہو چلا ہے۔

ویسے میں ہر طرح کی کتابیں پڑھتا رہتا ہوں۔ تاریخ سے لے کر مذہب تک‘ افسانوں سے لے کر شاعری تک‘ تراجم سے لے کر اصل نسخوں تک۔ یعنی جو ہاتھ لگ جائے، اس کو خزانہ سمجھتا ہوں کیونکہ ہر کتاب کوئی نہ کوئی سبق ضرور دیتی ہے۔ بات صرف اور صرف فہم کی ہے۔

چند ہفتے پہلے‘ کمال اتاترک کی سوانح عمری پڑھی ۔ معلوم ہوا کہ لیڈر اصل میں ہوتا کیا ہے۔ بہادر‘ بے باک‘ سفاک‘ پیچیدہ اور ایک مقصد کو سینے سے لگا کر زندہ رہنے کا جواز رکھنے والا انسان۔ ویسے برصغیر میں تو معاملہ فہم انسان کو قائد کہا جاتا ہے، جو اخلاقیات ‘ مذہبی اقدار‘ اور سیاسی شعور کے بالکل برعکس بات ہے، لیڈر تو ہوتا ہی وہ ہے جو سودوزیاں‘ فائدہ اور نقصان سے بالاتر ہو۔

برصغیر میں دیکھیے‘ تو مسلمانوں میں قد کاٹھ کے قائدین ذرا کم ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔ پوری زندگی اصولوں پرکھڑے رہنے والا سرو قد لیڈر خال خال ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہاں ایک حد درجہ عجیب بات ۔ برصغیر کا مسلم معاشرہ ہر اس انسان کی مخالفت کرتا ہے جو ہمیں جہالت کے اندھیرے سے نکالنے کی معمولی سی بھی کوشش کرتا ہے۔

سرسید احمد خان‘ علامہ اقبال‘ محمد علی جناح جیسے عظیم رہنماؤں کی شدید ترین مخالفت ‘ مسلمانوں نے ہی کی تھی۔ بالکل اسی طرح‘ ادب کے شعبے میں سرکردہ ترین نثر نگار‘ سعادت حسن منٹو‘ ہمیشہ اپنے ہی لوگوں کی نظر میں معتوب ٹھہرا۔عرض کرتا ہوں، منٹو جیسا نثر نگار برصغیر تو کیا‘ پوری دنیا میںکم ہی پیدا ہوتا ہے۔ اس کی لکھی ہوئی سچائی کو فحش نگاری کی عینک سے دیکھنے اور پرکھنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ اس عظیم رائٹر کی روح میںزخم ہی زخم پروئے گئے۔

اتنے چر کے‘ وہ برداشت ہی نہیں کر پایا، عین جوانی میں دنیا سے رخصت ہو گیا، مگر جو کچھ تحریر کر گیا، وہ آج تک پوری دنیا میں سند رکھتا ہے۔ اس پر فلمیں بنیں‘ اس کے افسانوں پر ڈرامے بنے، وقت کے ساتھ ساتھ‘ منٹو‘ عظیم سے عظیم تر دکھائی دینے لگا۔ انسانی جبلت ‘ جذبوں اور حقیقت کو جس خوبصورتی سے منٹو نے لفظوں میں پرو یا ہو‘ وہ کمال ہے۔

کوئی دوسرا نثر نگار اتنا بڑا اور سچا کام نہیں کر پایا۔ یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے، اتنا زیادہ سچ لکھنے کی جرأت نہیں کر پایا۔ ویسے انسانی رویوں کی جس دوزخ کا منٹو نے عرصے پہلے ذکر کیا تھا، آج بھی اس کا الاؤ اسی طرح بھڑک رہا ہے۔ ہر طرح کی منافقت ‘ دو عملی اور فریب جاری و ساری ہے۔ آج کل ہر کوئی سیاست اور الیکشن پر لکھ اور بول رہا ہے لیکن موجودہ سیاست اتنی ادنیٰ ہے کہ اس پر کچھ بھی کہنا وقت کا زیاں ہے۔

انگریزوں سے آزادی حاصل کرتے کرتے ہم جس خاندانی غلامی اور شخصیت پرستی کے گرداب میںڈوب چکے ہیں، وہ آزادی نہیں بلکہ آزادی کے نام پر ایک دشنام طرازی ہے۔

پتہ نہیں کیوں سیاسی ‘ عدالتی اور ریاستی کردار مجھے کٹھ پتلیوں سے زیادہ معلوم نہیں ہوتے۔ تاریخ انھیں کن الفاظ میں یاد کرے گی، اس کا تو مجھے کوئی علم نہیں البتہ یہ ضرور یاد رہے گا کہ ذاتی مفاد کے حصول کے لیے یہ نچلی سے نچلی حرکت کرنا بھی فخر سمجھتے ہیں، ان کا تاریخ اور بڑے کام سے کیا لینا دینا۔ یہ تو انسانی چمڑے کے سوداگر ہیں۔ جو دولت و اختیار کے لیے شیطان کو بھی مات دے سکتے ہیں، آگے کیا لکھوں۔

بات منٹو اور اس کی کتاب کی ہو رہی تھی۔ اس کے افسانوں سے چند اقتباسات پیش کروںگا۔ ’’سواراج کے لیے‘‘ میں منٹو لکھتا ہے۔ ’’میری سیاسی زندگی کا آغاز کیسے ہوا۔ اس کے متعلق تم اچھی طرح جانتے ہو۔ میرا کریکٹر کیسا تھا۔ یہ بھی تمہیں معلوم ہے۔ ہم دونوں قریب قریب ایک جیسے ہی تھے۔

میرا مطلب ہے ہمارے ماں باپ کسی سے فخریہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ ہمارے لڑکے بے عیب ہیں۔ معلوم نہیں میں تم سے یہ کیوں کہہ رہا ہوں لیکن شاید تم سمجھ گئے ہو کہ میں کوئی مضبوط کریکٹر کا مالک نہیں تھا۔ مجھے شوق تھا کہ میں کچھ کروں۔سیاست سے مجھے اسی لیے دلچسپی پیدا ہوئی تھی لیکن میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں جھوٹا نہیں تھا۔

وطن کے لیے میں جان بھی دے دیتا۔ اب بھی حاضر ہوں لیکن میں سمجھتا ہوں ‘ بہت غور وفکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہندوستان کی سیاست‘ اس کے لیڈر سب ناپختہ ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح میں تھا۔ ایک لہر اٹھتی ہے اس کی وجہ جہاں تک میرا خیال ہے کہ لہر پیدا کی جاتی ہے خود بخود نہیں اٹھتی… لیکن شاید میں تمہیں اچھی طرح سمجھا نہیں سکا۔‘‘

’’تمہارا کیا خیال ہے۔ کیا ہندوستان کی ہر کوشش جو اس نے آزادی حاصل کرنے کے لیے کی ہے غیر فطری نہیں… کوشش نہیں… میرا مطلب ہے اس کا انجام کیا ہر بار غیر فطری نہیں ہوتا رہا۔ ہمیں کیوں آزادی نہیں ملتی۔ کیا ہم سب نامرد ہیں؟ نہیں، ہم سب مرد ہیں لیکن ہم ایسے ماحول میں ہیںکہ ہماری قوت کا ہاتھ آزادی تک پہنچنے ہی نہیں پاتا۔‘‘

’’بدتمیز‘‘ میں درج ہے۔میں نے جوش کے ساتھ کہا۔ ’’مانتا ہوںکہ کارل مارکس کے ساتھ ساری عمر لڑنے کے باوجود باکونین کسی نقطہ مفاہمت پر نہیں پہنچ سکا اور اپنے اخلاص کے باوجودکسی مدلل اور منظم فلسفے کی بنیاد نہیں ڈال سکا لیکن اس کا یہ کہنا جھوٹ نہیں ہے کہ ڈیمو کریسی بھی ایک بڑی جماعت کے دوسری چھوٹی جماعت پر جابرانہ نظام حکومت کا نام ہے۔ میں ایسے دور سیاست کا قائل ہوں جس کا سماج ہر قسم کی حکومت اور دباؤ سے آزاد ہو‘‘۔

’’شہید ساز‘‘ میں منٹو لکھتا ہے۔ کام کوئی بھی ہو انسان کو محنت کرنا پڑتی ہے۔مجھے بھی چند الاٹ منٹوں کے سلسلے میں کافی تگ و دو کرنا پڑی۔ کسی کے مسکہ لگایا‘ کسی کی مٹھی گرم کی‘ کسی کو کھانے کی دعوت دی‘ کسی کو ناچ رنگ کی۔ غرض کہ بے شمار بکھیڑے تھے۔ دن بھر خاک چھانتا‘ بڑی بڑی کوٹھیوں کے پھیرے کرتا اور شہر کا چپہ چپہ دیکھ کر اچھا سا مکان تلاش کرتا جس کے الاٹ کرانے سے زیادہ منافع ہو۔

انسان کی محنت کبھی خالی نہیں جاتی چنانچہ ایک برس کے اندر اندر میں نے لاکھوں روپے پیدا کر لیے۔ اب خدا کا دیا سب کچھ تھا۔ رہنے کو بہترین کوٹھی‘ بینک میں بے اندازہ مال پانی…معاف کیجیے گا۔ میں کاٹھیا واڑ گجرات کا روز مرہ استعمال کر گیا مگر کوئی مضائقہ نہیں، اردو زبان میں باہر کے الفاظ بھی شامل ہونے چاہئیں… جی ہاں‘ اﷲ کا دیا سب کچھ تھا۔

رہنے کو بہترین کوٹھی‘ نوکر چاکر‘ پیکارڈ موٹر‘ بینک میں ڈھائی لاکھ روپے‘ کارخانے اور دکانیں الگ… یہ سب کچھ تھا لیکن میرے دل کا چین جانے کہاں اڑ گیا۔ یوں تو کوکین کا دھندہ کرتے ہوئے بھی دل پر کبھی کبھی بوجھ محسوس ہوتا تھا۔ لیکن اب تو جیسے دل رہا ہی نہیں تھا۔ یا پھر یوں کہئے کہ بوجھ اتنا آن پڑا کہ دل اس کے نیچے دب گیا۔ پر یہ بوجھ کس بات کا تھا؟

’’کتے کی دعا‘‘ میں لکھتا ہے۔ میں چند ہی دنوں میں اچھا ہو گیا لیکن گولڈی کی حالت غیر ہو گئی۔ جب تک میں بستر پر تھا ۔ وہ آنکھیں بند کیے دیوار کے ساتھ خاموش بیٹھا رہا۔ میں ہلنے جلنے کے قابل ہوا تو میں نے اس کو کھلانے پلانے کی کوشش کی مگر بے سود‘ اس کو اب کسی شے سے دلچسپی نہیں تھی۔ دعا مانگنے کے بعد جیسے اس کی ساری طاقت زائل ہو گئی تھی۔

موچنا… شکیل نے یہ کہہ کر سگریٹ سلگانے کی کوشش کی مگر اس سے سلگ نہ سکااس لیے کہ اس کے ہاتھ بری طرح کانپ رہے تھے۔ میں نے اس کے ہاتھ سے سگریٹ لیا اور سلگا کر اس کو دیا۔ ’’وہ چلی گئی؟‘‘ ’’ جی ہاں! میں نے اسے دھکے مار کر باہر نکال دیا۔ شکیل نے زور کا ایک کش لیا اور کانپتی ہوئی انگلیوں سے پنسل پکڑ کر ایک نئی نظم لکھنے کے لیے تیار ہونے لگا جو غالباً مایا کی یاد کے بارے میں ہونے والی تھی۔

جی ہاں چلی گئی… پراپنا موچنا چھوڑ گئی۔‘‘

میں نے پوچھا۔’’اس کی واپسی کا مطالبہ کیا؟‘‘

شکیل نے ایک اور کش لیا۔ ’’ایک مرتبہ نہیں سیکڑوں مرتبہ… لیکن میں نے اسے واپس نہیں کیا… اس لیے کہ ایک صرف یہی چیز ہے جو اس کے اور میرے درمیان رہ گئی ہے۔ جب تک یہ موچنا میرے پاس ہے‘ وہ ہمیشہ مجھ سے خط و کتابت کرتی رہے گی۔‘‘

بس اب اور کیا لکھنا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔